کیا چندرا بابو نائیڈو اور کے سی آر میں مصافحہ ہوگا؟

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری        خیر اللہ بیگ
غم و اندوہ سے نڈھال تلنگانہ کے عوام کی زبان پر ایک ہی سوال ہے کہ آخر ہم نے تلنگانہ حاصل کرکے کون سی خطا کی ہے جس کی سزا ختم ہونے میں ہی نہیں آرہی ہے۔ 15ماہ کا عرصہ گذر چکا ہے تلنگانہ کو سنہری ریاست بنانے اور حیدرآباد کو اسمارٹ سٹی بنانے اور بلند وبالا عمارتوں کی تعمیر سے حسین ساگر کے اطراف سنگاپور جیسا ماحول تیار کرنے کے اعلانات ہوئے تھے۔ آندھرا پردیش کے عوام کو بھی اپنے نئے صدر مقام کا انتظار ہے۔ چیف منسٹر چندرا بابو نائیڈو آندھرا پردیش کا دارالحکومت بنانے کیلئے ریاست کے ہر موضع سے مٹی اور پانی اکٹھا کررہے ہیں۔ امراوتی کو سنگاپور کے خطوط پر تعمیر کرنے کا منصوبہ سن کر آندھرائی عوام کو بھی خوشی ہوئی ہے۔ مگر تلنگانہ عوام کی طرح وہ بھی اپنے حکمرانوں کے کاموں سے کئی امیدیں وابستہ کررکھے ہیں۔ مسلمان بھی12فیصد تحفظات کی امید میں رودھوکربیدار ہورہے ہیں اور ہم سب کو شہر آرزو کا ماتم اس سوچ کے ساتھ کرنا چاہیئے کہ ہمیں حصول تحفظات کی راہ کھولنے کیلئے آگے کرنا کیا ہے؟

ان دنوں ایک طرف مسلمان حصول تحفظات کے لئے جدوجہد کررہے ہیں اور دوسری طرف چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کی وعدہ خلافیوں پر برہم دیہی عوام نے خاص کر دیہی نوجوانوں نے  طنزیہ گیت تیار کرتے ہوئے سوشیل میڈیا اور انٹرنیٹ پر اپ لوڈ بھی کرنا شروع کیا ہے۔ کے سی آر اور ان کی حکومت کے خلاف عوام کے اندر پیدا ہونے والی ناراضگیوں کی جھلک ان گیتوں میں ملتی ہے۔ ایک نوجوان نے چیف منسٹر پر طنزیہ فقرے بھی کسے ہیں جس میں چیف منسٹر کے جھوٹے وعدوں کی تفصیل پیش کی گئی ہے۔ اقتدار پر آنے سے قبل تلنگانہ عوام کے سامنے کے سی آر نے جو وعدے کئے تھے ان کی جانب توجہ دلاتے ہوئے گائے گئے گیت کو لوگ دلچسپی سے سن رہے ہیں۔ یہ گیت کے سی آر کے نامکمل وعدوں پر مرکوز ہے۔ بلکہ یہ بھی طنزیہ جملے دہرائے گئے ہیں کہ کے سی آر نے ریاست پر خاندانی حکمرانی مسلط کردی ہے۔ تلگودیشم پارٹی اور وائی ایس آر کانگریس سے منحرف ہونے والے قائدین کو تلنگانہ کے اہم عہدے دیئے گئے ہیں۔ اگرچیکہ یہ گیت ایک ماہ پرانا ہے ۔ ٹی آر ایس حکومت اس گیت کو سوشیل میڈیا  اور یو ٹیوب سے حذف کرنے کوشاں ہے۔ اس گیت کو تحریری طور پر شائع ہونے سے روکنے کی بھی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے  اور بعض سوشیل نیٹ ورکنگ سائیٹس پر سے یہ گیت ہٹالیا گیا ہے۔ لیکن سانچ کو آنچ نہیں کے مصداق تلنگانہ کے عوام اس سچائی کو پوشیدہ نہیں رکھ سکتے کہ ان کے لیڈر کے سی آر نے جھوٹے وعدے کئے تھے تلنگانہ عوام کی نظروں سے خاص کر تلنگانہ کے برہم نوجوانوں سے راہ فرار اختیار نہیں کرسکتے۔ اس نوجوان نے اپنے گیت میں چیف منسٹر سے سوال کیا ہے کہ آپ میرے دل کی آواز سنیں، میرے گاؤں دوبارہ آئیں، ووٹ لینے کے بعد آج تک آپ نے میرے گاؤں کا رُخ نہیں کیا۔ اگر آپ آئیں گے تو ہم کہیں گے کہ خدا آسمان سے ہمارے گاؤں کی زمین پر اُتر آیا ہے، ہم نے آپ کی دل سے حمایت کی تھی آپ کے وعدے بلند بانگ تھے لیکن اب تو معلوم ہواکہ ہماری بقاء بھی مشکل ہے۔ آپ نے ایک دلت کو چیف منسٹر بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ آپ نے کہا تھا کہ آپ عہدوں کی لالچ نہیں رکھتے اور ریاست کے چوکیدار بن کر رہیں گے۔ آپ نے ریاست کی تعمیر نو کی بات کہی تھی لیکن کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ آپ نے کویتا کو ریاست کی گڑیا سے تلنگانہ تلی ( ماں ) بنادیا ہے۔ آپ نے سرسلہ اپنے بیٹے کو دیا اور بھانجے کو سدی پیٹ حوالے کیا۔ آپ نے اپنی بیٹی کو ایم پی بنایا وہ نئی دہلی میں رانی بن کر رہ رہی ہیں۔

بے زمین دلتوں کو 3ایکر اراضی دینے کا وعدہ کیا گیا ، آپ نے عہدیداروں کو سروے کرنے کے لئے بھیجا تھا یہ لوگ آئے اور کچھ دنوں تک سروے کا ہنگامہ ہوتا رہا اور پھر غائب ہوگئے۔ آپ نے سمکھیا آندھرا کے حامیوں ٹی ناگیشور راؤ، ٹی سرینواس راؤ کو وزیر بنایا۔ آپ نے جگن کے سایہ میں سانس لینے والی کونڈہ سریکھا کو بھی پارٹی میں شامل کیا، جبکہ آپ کو معلوم تھا کہ سریکھا اپنی غنڈہ گردی کیلئے مشہور ہیں۔ آپ نے تلنگانہ تحریک کے اصل کارکنوں کو دفن کردیا ، اب ہم آپ کے کاموں کا نتیجہ دیکھنے کے منتظر ہیں۔ کسانوں کے حق میں منائے گئے تلنگانہ بند کی ناکامی کے بعد چیف منسٹر کے حوصلے مزید بلند دکھائی دیتے ہیں۔ ایک ایسے معاشرہ میں جہاں تعظیم کو کمزوری اور بے ادبی کو غیرت و حمیت قرار دیا جائے تو چیف منسٹر کی حکومت کو بھی کھلی چھوٹ ملتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ تلنگانہ کے عوام اپنے چیف منسٹر کی تقاریر سن کر ہی مدہوش ہوتے ہیں تو انہیں کے سی آر کے وعدے یاد نہیں رہتے ورنہ اب تک حکومت کے خلاف مورچہ مضبوط بنالیا گیا ہوتا۔ تلنگانہ بند کی ناکامی سے ثابت ہوتا ہے کہ کے سی آر کی مقبولیت میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اپوزیشن کو ہی اقتدار سے دور رہنے کی بدہضمی ہوگئی ہے۔ کانگریس کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے رہنے والے کے سی آر نے رشوت کے خلاف موقف کو سخت بنانے کا دعویٰ کیا ہے۔ ان کے انسداد رشوت موقف کی وجہ سے ایک سال میں 500 کروڑ کی بدعنوانیوں کے بشمول کرپشن  کے واقعات کا پتہ چلایا گیا ہے۔ غریبوں کیلئے امکنہ پروگرام میں دھاندلیوں کو روکنے چیف منسٹر کی کوشش کے بعد تمام 300عہدیداروں کو برطرف کردیا گیا۔ تلنگانہ میں بدعنوان عہدیداروں کا وجود ہی برخاست کیا جائے گا، کے سی آر نے زیر التواء فائیلوں کی بھی یکسوئی کیلئے توجہ دی ہے لیکن عہدیدار بھی چیف منسٹر کے اس موقف سے پریشان ہیں۔ ریاست تلنگانہ میں 5دن کا ہفتہ بنانے کی کوشش ہورہی ہے لیکن پہلے ہی سے اتنی تعطیلات ہیں کہ کام کاج ٹھپ ہوچکا ہے۔ ریاست میں ہفتہ اور اتوار کو تعطیل ہو تو ہفتہ کے 5 دن رہ جاتے ہیں، ویسے بھی تین دن یا چار دن ہی کام کیا جاتا ہے۔
چیف منسٹر ہر محفل اور سرکاری تقریب میں یہ تیقن دیتے آرہے ہیں کہ ان کی حکومت کبھی غلطی نہیں کرے گی اور نہ ہی کوئی غلط فیصلہ کرے گی۔ ریاست کے مستقبل کے لئے اچھا کام کرنا ہی ان کی عین دلچسپی ہے۔ بعض معاملوں میں بعض فیصلے تاخیر سے کئے جاتے ہیں۔ چندر شیکھر راؤ کو اپنے عزم پر اتنا زعم ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ وہ اپنی جان دیدیں گے مگر کوئی غلط کام ، غلط فیصلہ نہیں کریں گے۔ ٹی آر ایس کو اقتدار کا موقع دینے والے عوام کی بہبود ہی ان کا فرض اولین بنا ہوا ہے۔ کاموں کی انجام دہی یا اقدامات کرنے میں تاخیر ہوسکتی ہے مگر اس میں کوئی غلط قدم نہیں اٹھایا جائے گا۔ کسی بھی انسان کا وجود اور موقف ہمیشہ کے لئے برقرار نہیں رہتا البتہ کسی ریاست کا وجود اہم ترین اقدامات کے ذریعہ مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے یقینی بنایا جاسکتا ہے۔

آج کے دور میں سیاست کا مطلب غیر رواداری ہوتا جارہا ہے ۔ کوئی بھی کسی موضوع پر سنجیدہ بات چیت کرنا نہیں چاہتا۔ آندھرا پردیش کی حکومت کو اپنے نئے دارالحکومت کے قیام کی تیاریاں کرنی ہے۔ چیف منسٹر چندرا بابو نائیڈو کی کوشش ہے کہ اس سنگ بنیاد تقریب میں چیف منسٹر تلنگانہ کو بھی مدعو کیا جائے۔ اگر کے سی آر نے نائیڈو کی دعوت قبول کی تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سنگ بنیاد تقریب میں شریک وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ وہ چندرا بابو نائیڈو سے مصافحہ کریں گے یا نہیں۔ دو کٹر حریف سیاستدانوں کو ایک دوسرے کے مقابل کھڑا ہوا دیکھ کر عوام میں گدگدی ضرور ہوگی۔ آندھرا پردیش کا یہ دارالحکومت امراوتی 7,4,24 مربع کیلو میٹر پر پھیلا ہوا ہوگا جس کیلئے زرعی اور جنگلات کی اراضی حاصل کی گئی ہے۔ 22اکٹوبر کو دسہرہ فیسٹول کے ساتھ ہی امراوتی کا سنگ بنیاد رکھا جائے گا ۔ چندرابابو نائیڈو نے شخصی طور پر تلنگانہ کے چیف منسٹر کو مدعو کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دونوں ریاستوں کے چیف منسٹروں کے درمیان گزشتہ جون سے بات چیت نہیں ہے۔ تلنگانہ کے انسداد رشوت ستانی بیورو نے کے سی آر کے  رکن اسمبلی کو رشوت دے کر خریدنے کی کوشش کے الزام میں تلگودیشم لیڈر کو پھانسا ہے۔

چندرا بابو نائیڈو کے فون کالس کو ٹیپ کرکے رشوت ستانی کا کیس درج کیا گیا تھا۔ اب تک دونوں ریاستوں کے چیف منسٹر ایک دوسرے سے آنکھ چراتے رہے ہیں۔ سرکاری تقاریب میں بھی یہ دونوں دور دور دکھائی دیتے ہیں۔ حالیہ صدر جمہوریہ پرنب مکرجی کے دورہ حیدرآباد کے موقع پر بھی سرکاری تقاریب میں دونوں چیف منسٹروں نے ایک دوسرے کی جانب نظر ملاکر نہیں دیکھا۔ صدر جمہوریہ کا استقبال کرنے کے لئے کے سی آر ایرپورٹ پہونچے تھے مگر چندرا بابو نائیڈو اس استقبالیہ تقریب میں شریک نہیں رہے۔ تلنگانہ کے قیام کے بعد دونوں ریاستوں کے چیف منسٹروں میں ٹھن گئی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ امراوتی کے سنگ بنیاد کیلئے 22اکٹوبر کو مقررہ تقریب میں کے سی آر کی موجودگی کس تناظر میں ہوتی ہے۔ اگر چندرا بابو نائیڈو حیدرآباد میں کے سی آر کے گھر پہنچ کر دارالحکومت کے قیام کی تقریب کا دعوت نامہ دیتے ہیں تو کے چندر شیکھر راؤ کو 290 کیلو میٹر کی مسافت طئے کرکے امراوتی کے قیام کی تقریب میں شرکت کرنی پڑے گی۔
kbaig920@gmail.com