کیا عام آدمی پارٹی بھی مسلمانوں کو بزدل ووٹ بینک سمجھتی ہے؟

عمر خالد
ڈیئر آتشی !
آپ کا لوک سبھا حلقہ مشرقی دہلی سے چناؤ لڑنے سے متعلق خبر تازگی کا احساس ہے۔ توقع کے مطابق کانگریس اور بی جے پی دونوں کی جمودی طاقتوں نے آپ کے خلاف کینہ پرور شخصی حملہ شروع کردیا ہے۔ تاہم، ایک شہری کی حیثیت سے جس کی سکونت آپ کے چناؤ والے حلقہ میں ہے، میں تشویش و فکرمندی کے بعض موضوعات سے آپ کو واقف کرانا چاہتا ہے جن پر بات چیت کی امید ہے۔ اس معاملے میں آپ کے حریف گوتم گمبھیر نے فراری اختیار کرلی۔
فبروری 2019ء میں اوکھلہ میں جہاں میرا قیام ہے، عام آدمی پارٹی (عآپ) کے ہزاروں پوسٹرز دیواروں پر چسپاں کرتے ہوئے عوام سے اپیل کی گئی کہ اگر وہ بی جے پی کو شکست دینا چاہتے ہیں تو اس پارٹی (عآپ) کو ووٹ دیجئے۔ بس اتنا ہی۔ پوسٹرز میں اُن کیلئے مزید کچھ نہ تھا۔ یہ خاص مسلم غلبہ والے علاقوں کیلئے تیارشدہ پوسٹرز تھے، جبکہ دیگر علاقوں میں پارٹی والوں نے نگہداشت صحت اور تعلیم کے معاملوں میں عآپ کے کارہائے نمایاں کے تعلق سے بات کی ہے۔ مختلف علاقوں کیلئے انتخابی مہم کی مختلف حکمت عملی کے معاملے میں آپ کی پارٹی کے اِس دہرے معیار کی کیا وضاحت ہے؟ کیا عآپ کے پاس ہمارے علاقے میں انجام دیئے گئے ترقیاتی پراجکٹس کے معاملے میں کوئی ٹھوس کارہائے نمایاں نہیں جن کا اظہار کیا جاسکے؟ اُن محلہ کلینکس اور اسکولس کی کیا حالت ہے جن کا کافی شہرہ ہوا؟ یا خود آپ اس علاقے میں کئی محلہ کلینکس کی خستہ حالی سے واقف ہو اور وہ شاید ہی کام کررہے ہیں۔ یا یہ حقیقت ہے کہ مسلم اکثریتی خطہ کا واحد اسکول اس علاقہ سے (نیو فرینڈز کالونی کو) منتقل کردیا گیا ہے جو اِس کمیونٹی کے بچوں کی اسکولی تعلیم ترک کردینے کی شرح میں اضافے کا موجب بنی۔ اوکھلا کے اندرون کئی علاقوں میں پائپ کے ذریعے پانی کی سربراہی نہیں ہے۔ وہی رئیل اسٹیٹ بلڈرس، کنٹراکٹرز اور بروکروں کی لابیاں جو کبھی اس علاقہ میں کانگریس پارٹی کے تنظیمی ڈھانچہ پر غالب تھیں، اب عام آدمی پارٹی میں پھیل چکی ہیں۔ سارا علاقہ بدنظمی کا شکار ہے جہاں کھلے ڈرینج ہیں، کھلی جگہوں پر کچرا ڈالا جاتا ہے اور خستہ حال سڑکیں ہیں۔
لیکن 2019ء کے آتے آتے ہم اب دیکھ رہے ہیں کہ عام آدمی پارٹی اقلیتی غلبہ والے علاقوں میں سیاست چلانے کی وہی قدیم کانگریسی چالوں پر عمل کررہی ہے جس کے بارے میں کبھی اس نے دوری اختیار کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ یہ سب کیا ہے؟ مسلمانوں کی تائید و حمایت کو یقینی مان لینا سارے حلقہ کو اپنا حمایتی جان لینا، اُن کے ووٹوں پر ملکیت کا احساس پیدا کرلینا اور حقیقی مسائل کو بس نظرانداز کردینا۔ میں ایک مثال پیش کرتا ہوں کہ زائد از ایک دہے سے شہریوں کے احتجاجوں کے باوجود اس علاقے کے گنجان آبادی والے رہائشی حصوں میں جندال گروپ کا ایک پلانٹ بدستور موجود ہے جو فاضل مادہ سے توانائی پیدا کرتا ہے اور نہایت زہریلا مادہ خارج کرتا ہے۔ اس کا قیام کانگریس کے برسوں کے دوران recycling waste کے بیان کردہ مقصد کے ساتھ عمل میں لایا گیا تھا لیکن فرسودہ ٹکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے اس پلانٹ نے اوکھلا کی فضاء میں محض آلودگی کا اضافہ کیا ہے، جس نے اس کی آلودگی کی سطحوں کو دہلی کے بقیہ حصوں کے مقابل ابتر بنا دیا ہے۔ یہ پلانٹ وزارت ماحولیات کے کئی قواعد کی خلاف ورزی میں قائم ہے اور علاقے میں کئی عوارض کا سبب بنا ہوا ہے جن میں حلق کی سوجن، سانس کا رکنا اور کینسر شامل ہیں۔ گزشتہ سال سپٹمبر میں سنٹرل پولیوشن بورڈ اور دہلی پولیوشن کنٹرول کمیٹی کے جوائنٹ انسپکشن نے نیشنل گرین ٹربیونل کو مطلع کیا کہ یہ پلانٹ فاسد مادوں کے اخراج کے معیارات کی تعمیل نہیں کررہا ہے اور علاقے میں فضائی آلودگی میں کافی اضافے کا موجب بن رہا ہے۔ 2015ء میں اروند کجریوال نے علاقے کے مکینوں کو تیقن دیا تھا کہ اس پلانٹ کو بند کردیا جائے گا۔ بند کرنا تو دور کی بات، اب درحقیقت اس کے مالکین نے پلانٹ کی اہلیت کو وسعت دینے کیلئے درخواست دی ہے۔ مقامی سطح پر جب کبھی ان سے مکینوں نے رابطہ کیا، آپ کے پارٹی ممبرز کہتے ہیں کہ یہ معاملہ حکومت دہلی کے ہاتھوں میں نہیں ہے۔ پھر کیوں کجریوال نے 2015ء میں سی ایم بننے کے بعد متعلقہ مکینوں کو تیقن دیا تھا کہ وہ اس پلانٹ کا بند کیا جانا یقینی بنائیں گے؟ یا، اگر یہ معاملہ واقعی آپ کے ہاتھوں میں نہیں ہے، تو کیوں حکومت دہلی نے ان مکینوں کی حمایت کی جو اس پلانٹ کے خلاف مسلسل احتجاج کرتے رہے ہیں۔ کیا آپ بھی کانگریس کے قدیم متکبر رویہ کا اعادہ نہیں کررہے ہو، جس نے اس ضمن میں مکینوں کی اپیلوں پر کان نہیں دھرے تھے؟
نریندر مودی حکومت کے گزشتہ پانچ برسوں میں مسلمانوں کے خلاف تشدد میں اضافہ ہوا ہے، جو اس کمیونٹی میں وسیع طور پر خوف اور مایوسی کے احساس کا موجب بنا ہے۔ اس طرح کی صورتحال میں ووٹ ڈالنے کیلئے گھر سے باہر نکلتے وقت اُن کے حواس پر بس یہی تاثر غالب رہا کہ اس طرح کے تشدد سے تحفظ حاصل کیا جائے، اور انھوں نے روٹی، کپڑا، مکان، شکشا اور روزگار کے اپنے حقوق پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ لیکن کیا یہ دوسرے درجہ کی شہریت نہیں ہے، جو آر ایس ایس کی تمنا ہے کہ اپنے ’ہندو راشٹر‘ میں مسلمانوں کو اسی حد تک گھٹا دیا جائے۔ اقلیتوں نے ہمیشہ خوف کے ماحول میں بہتر زندگی اور رہن سہن کیلئے اپنی تمنا کو موقوف کردیا ہے۔ اس طرح کے پس منظر میں ’سکیولر‘ قوتوں سے کام کی توقع رہتی ہے، جو بی جے پی؍ آر ایس ایس کا متبادل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، کہ وہ نفرت کے ایجنڈے کا توڑ برآمد کریں گے۔ لیکن اس کے بجائے ہم نے کیا دیکھا ہے؟ 2014ء کے بعد سے ہندوستانی سیاست میں اس طرح کی بڑی اکثریتی تبدیلی کے خلاف لب کشائی کرنا تو دور کی بات، بنیادی بلدی اور معاشی مسائل کی یکسوئی میں تک ناکامی ہوئی ہے جو مسلمانوں کی روزمرہ کی زندگی کو اجیرن بنارہے ہیں۔ گزشتہ برسہا برس کے دوران مسلمانوں کی زبوں حالی نے نہ صرف بی جے پی بلکہ کانگریس جیسی پارٹیوں کے بھی ایجنڈے کو فائدہ پہنچایا ہے۔ آپ سے بہتر کون جانتا ہے کہ تاریخی اعتبار سے کانگریس نے بڑی حد تک بی جے پی کا خوف پیدا کرتے ہوئے مسلم ووٹروں کو رجھانے کی کوشش کی ہے، بجائے اس کے کہ اس کمیونٹی کی بہتری اور اسے بااختیار بنانے کیلئے کام کیا جائے۔ سچر کمیٹی رپورٹ کے نتائج اس امر کا تلخ ثبوت ہیں۔ یہ دیکھ کر واقعی دکھ ہورہا ہے کہ اب عام آدمی پارٹی اسی سمت میں آگے بڑھ رہی ہے۔
اس بات کے ساتھ اختتام کرتا ہوں کہ جہاں تک انتخابات میں بی جے پی کو شکست دینے کا سوال ہے، عآپ کو مسلمانوں کو یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ کس طرح حکمت سے ووٹ دیا جائے۔ کئی دہوں سے ’اسٹرٹیجک ووٹنگ‘ مسلمانوں کی مجبوری رہی ہے کیونکہ انھیں سکیولرازم کا بوجھ غیرمتناسب طور پر اپنے کندھوں پر لینا پڑا ہے۔ وہ پہلے بھی یہ کام کرچکے ہیں، وہ دوبارہ ایسا ہی کریں گے۔ آخر، وہی تو جانتے ہیں کہ 2019ء میں بی جے پی اقتدار پر واپس آجائے تو انھیں ہی سب سے بھاری قیمت چکانا پڑے گا۔ لیکن، اس کے باوجود آپ کے سامنے سوال تو ہنوز رہے گا۔ کیا میرے پڑوس کے لوگوں کو ہمیشہ تابعدار ووٹ بینک سمجھا جاتا رہے گا؟ یا اُن کے ساتھ مساوی شہریوں جیسا سلوک ہوگا؟
میری خواہش ہے کہ آپ اس بارے میں روشنی ڈالیں اور آپ کیلئے نیک تمنائیں بھی پیش ہیں۔
تسلیمات
عمر خالد
(مصنف، جہدکار اور سابق جے این یو اسٹوڈنٹ ہے۔ زیرنظر آراء شخصی ہیں)۔