کیا شمالی کوریا کے بحران کو ختم کیا جاسکتا ہے ؟

ہیمفرے ہاکسلے
سال 2017 کے موسم گرما میں ایک بار پھر شمالی کوریا میںکشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ اس کے میزائیل تجربہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ سوویت طرز کے کمیونزم کے آخری گڑھ میں ایک ایسا نیوکلئیر ہتھیار ہاتھ آنے والا ہے جو امریکہ تک پہونچ سکتا ہے ۔ اب یہ امریکہ کے کتنا قریب پہونچ سکتا ہے اس کا پتہ تو شائد خود شمالی کوریا کے سائنسدانوں کو بھی نہیں ہوگا ۔ ماہ فبروری سے اگسٹ کے درمیان شمالی کوریا نے زائد از 20 میزائیلوں کا تجربہ کیا ہے اور ان میں ایک میزائیل ایسا بھی ہے جو جولائی میں داغا گیا تھا اور یہ خلا میں 2,300 میل تک جانے کے بعد 600 میل کا سفر پورا کیا ہے ۔ شمالی کوریا نے اب اعلان کیا ہے کہ اس کا اگلا نشانہ امریکی جزیرہ گوام کے اطراف کا علاقہ ہے ۔ یہ شمالی کوریا سے 2,000 میل کے فاصلے پر ہے ۔ اپنی جانب سے امریکہ نے علاقہ میں تین کیرئیر گروپس متعین کردئے ہیں۔ پنٹگان نے اپنے منصوبوں میں بھی تبدیلی کی ہے اور ان میں فضائی حملوں سے مکمل قبضہ تک کا منصوبہ بھی شامل ہے اور ڈونالڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ شمالی کوریا کے معاملہ میں امریکہ اپنا صبر کھو رہا ہے ۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ امریکی اور شمالی کوریا کی طاقت کسی جنگ میں شمالی کوریا کو فوری شکست دی جا سکتی ہے لیکن اس کی ایک قیمت ہوگی ۔ یہ منظر نامہ جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول کی تباہی سے لے کر چین کے ساتھ فوجی تصادم تک اور ایک تباہ کن انسانی بحران اور خانہ جنگی تک محیط ہوسکتا ہے ۔ اس صورتحال میں تعطل اور سفارتکاری کچھ وقت تک جاری رہے گی تاہم شمالی کوریا اپنے نیوکلئیر ہتھیاروں کی تیاری کا عمل جاری رکھے گا اور کسی مرحلہ پر جوں کی توں حالت ختم ہوجائیگی اور اس میںچین ‘ جاپان ‘ جنوبی کوریا ‘ روس اور امریکہ بھی شامل ہوجائیں گے ۔ فی الحال سبھی ممالک اس صورتحال سے ہونے والے چیلنجس اور اس سے بڑی طاقتوں کے مابین تعلقات پر ہونے والے تباہ کن اثرات کے تعلق سے تیار نہیں ہیں۔ یہ تعلقات پہلے ہی مسائل کا شکار ہیں۔ شمالی کوریا چین کا حلیف ہے اور چین اور امریکہ پہلے ہی ایشیا ۔ پیسیفک علاقہ پر کنٹرول کے معاملہ میںایک دوسرے سے نبرد آزما ہیں۔ اس بات پر کوئی اتفاق رائے نہیں ہے کہ اگر شمالی کوریا ٹوٹ جاتا ہے تو اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے بحران سے کس طرح سے نمٹا جانا چاہئے ۔ امریکی نیول وار کالج کے ٹیرینس ریوہرنگ کے مطابق اس مسئلہ پر کوئی زیادہ منصوبہ بندی نہیں ہورہی ہے ۔ یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے کیونکہ کسی ملک کے ٹوٹنے کا منصوبہ بنانے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ایسا ہونے کی حوصلہ افزائی کرنے کے حق میں ہیں اور یہ سفارتی طور پر مسئلے پیدا کرتا ہے ۔
امریکی نیول وار کالج کے ایک مطالعہ کے بموجب جو 2013 میں ہوا تھا اگر کسی ملک کا غیر منصوبہ بند اور پرتشدد اختتام ہوتا ہے تو اس صورت میں 90,000 فوج کو شمالی کوریا کے نیوکلئیر ہتھیاروں کے مواد کا پتہ چلانے اور اسے حاصل کرنے کیلئے 56 دن کا وقت درکار ہوگا جو تقریبا 100 ٹھکانوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ اس وقت کے دوران مایوس جنرلس اور سائنسدان ہتھیار تیارکرنے کے قابل مواد کو دہشت گرد گروپس اور دنیا بھر میں غیرذمہ دار ممالک میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ اس صورتحال کے برخلاف امریکہ اور شمالی کوریا کے تجزیہ نگار دوسرے متبادل پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں جن کے ذریعہ شمالی کوریا کے قابل لحاظ سینئر حکام کو یہ یقین دہانی کروائی جائیگی کہ شمالی کوریا میں حکومت کی تبدیلی اور دونوں کوریاؤں کے اتحاد سے ان کا فائدہ ہوگا نقصان نہیں ہوگا ۔ یہ ایک مشکل اور نفسیاتی کام ہے جو لوگ شمالی کوریا کے مقید نظریات میں بندھے ہیں ان کا ذہن تبدیل کرنا اور ان کیلئے امریکہ اور شمالی کوریا کو سمجھنا یا ان پر بھروسہ کرنا آسان نہیں ہوگا ۔

ویتنام اور جرمنی کی طرح شمالی کوریا کی بھی دوسری جنگ عظیم کے بعد تقسیم ہوگئی تھی ۔ شمالی کوریا ایسے لوگوں کے کنٹرول میں آگیا جو ایک فرقہ کی طرح کامل کنٹرول والا نظام رکھتے ہیں۔ اب اسی خاندان کی تیسری نسل ملک چلا رہی ہے ۔ نوجوان کم جون ان ملک کے بانی کم دوم سنگ کے پوتے ہیں۔ وہ ایک سیاسی ترقی پسند کی بجائے اپنے والد اور دادا کی طرح بے رحم اور عزم کے پکے ہیں ۔ ایسے میں نیوکلئیر پروگرام کو بند کرنے ایران کی طرح کے کسی معاہدہ کی امیدیں بھی بہت کم ہیں۔ امریکہ کے تینوں سابق صدور نے شمالی کوریا کے ساتھ معاہدے کرنے کی کوششیں کیں۔ بارک اوباما نے 2012 میں جارج بش نے 2007 میں اور بل کلنٹن نے 1994 میںکوششیں کیں لیکن سب ناکام رہے ۔ ان میں سب سے اہم 1994 کا طئے شدہ دائرہ کار تھا ۔ ایسا اسلئے ہوا تھا کہ شمالی کوریا ایک نیوکلئیر ہتھیار بنانے کے قریب تھا اور امریکہ اس پر حملہ کرنے کیلئے پر تول رہا تھا ۔ شمالی کوریا نے اپنے نیوکلئیر ری ایکٹرس بند کرنے سے اتفاق کیا کیونکہ امریکہ نے تیل اور بلڈنگ ری پلیسمنٹ ری ایکٹرس روانہ کرنے سے اتفاق کیا تھا جن سے ہتھیار بنانے کے قابل فیول تیار نہیںہوتا ۔ اس منصوبہ کا مقصد آگے بڑھنا اور سیاسی اور معاشی تعلقات کو معمول پر لانا تھا ۔
یہ معاہدہ 2003 میں ٹوٹ گیا کیونکہ امریکہ نے شمالی کوریا پر اس کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا تھا ۔ اس وقت یہ بحث کی جا رہی تھی کہ شمالی کوریا کو قابو میں کرنے کیلئے ابھی بہت کچھ کیا جاسکتا یا یا نہیں لیکن یہ ایسا وقت تھا جب امریکہ دو محاذوں پر جنگ لڑ رہا تھا اور وہ چاہتا تھا کہ شمالی کوریا کے علاوہ افغانستان اور عراق میں بھی جمہوریت نافذ کی جائے ۔ امریکہ کو جہاں افغانستان اور عراق میں مشکلات پیش آئیں وہیں شمالی کوریا نے اپنا نیوکلئیر بم تیار کرلیا ۔ اس کے پاس اب تقریبا 10 نیوکلئیر بم ہیں اور ہر ایک پانچ کیلوگرام پلوٹونیم پر مشتمل ہے ۔ شمالی کوریا کی حکومت نے بہت قریب سے لیبیا ‘ یوکرین اور لیبیا کے حکمرانوں کا حشر دیکھا ہے ۔ ان سب نے اپنے نیوکلئیر پروگرامس ترک کردئے تھے جن کے بعد امریکہ نے ان کو اقتدار سے بیدخل کردیا یا پھر وہاں مغربی ممالک کی حمایت سے عوامی بغاوت کروادی گئی ۔ اس صورتحال میں شمالی کوریا نے ہٹ دھرمی والا رویہ اختیار کرلیا اور کہا کہ اس کے نیوکلئیر پروگرام پر کوئی بات چیت نہیں ہوسکتی ۔ حالانکہ چین ‘ امریکہ اور جنوبی کوریا کی جانب سے فوجی کارروائی کو قبول نہیں کریگا تاہم امرکی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ چین شمالی کوریا میں حکومت بدلنے کے دوسرے طریقے قبول کرسکتا ہے ۔ ان کو بیجنگ میں امن شکن اقدامات کہا جاتا ہے جہاں تحدیدات یا محاصرہ کی صورتحال سے اعلی سطح پر جنرلس یا حکام انحراف کرکستے ہیں۔ اسی طریقے سے ماؤ زے تنگ کی کمیونسٹ فوج نے 1949 میں چین کو حاصل کیا تھا ۔
عراق پر قبضہ اور جرمنی کے انضمام سے سبق حاصل کرتے ہوئے امریکی اور جنوبی کوریائی تجزیہ نگار یہ جائزہ لے رہے ہیں کہ شمالی کوریائی حکام کو اقوام متحدہ یا جنوبی کوریا کی قیادت میں ہونے والے امکانی انضمام کیلئے کس طرح تیار کیا جائے ۔ کوئی بھی منصوبہ ایسا ہونا چاہئے جس کے ذریعہ شمالی کوریا کی ٹوٹ پھوٹ سے بھی نمٹا جاسکے چاہے یہ پرامن ہو یا پھر کسی تنازعہ یا تشدد کے ذریعہ سے ہو۔

عراق میں بعث پارٹی کے اثر کو ختم کرنے کیلئے دیکھا گیا کہ فوج کو برخواست کردیا گیا اور بیشتر عہدیدار برطرف کردئے گئے ۔ اس کے نتیجہ میں تخریب کاری کو فروغ حاصل ہوا جو اب بھی جاری ہے ۔ مشرقی جرمنی میں صورتحال برعکس رہی جہاں بیشتر جنرلس کو ان کی کمان سے سبکدوش کردیا گیا لیکن ان کے مشاورتی رول کو جاری رکھا گیا ۔ سپاہیوں کو جلد سبکدوش کردیا گیا اور انہیں 50 سال کی عمر میں پنشن دی گئی ۔ سکیوریٹی مسائل میں مہارت رکھنے والے امریکہ کے ریانڈ کارپوریشن نے ’’ شمالی کوریا کے طبقہ اعلی کو انضمام کیلئے تیار کرنا ‘‘ کے عنوان پر ایک مطالعہ شائع کیا ہے ۔ اس میں اس بات کا جائزہ لیا گیا ہے کہ شمالی کوریا کے عہدیداروں کو ‘ لڑائی کی بجائے ‘ حکومت کی تبدیلی کیلئے کس طرح تیار کیا جائے ۔ اس مطالعہ کے مصنف بروس ڈبلیو بینیٹ کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا کے ایلیٹ طبقہ کو یہ سبق پڑھایا جاتا ہے کہ جنوبی کوریا کی قیادت میں انضمام ان کیلئے تباہ کن ہوگا ۔ ان کا کہنا تھا کہ کامیاب انضمام کیلئے یہ ضروری ہے کہ شمالی کوریا کا طبقہ اولی یہ محسوس کرے کہ انضمام در حقیقت ان کیلے بہتر ہوگا ۔

حالیہ برسوں میں کم جون ان سے ناراضگی بڑھی ہے ۔ 2014 میں انہوں نے اپنے چچا جانگ سونگ تھائک کو موت کے گھاٹ اتار دیا اس کے علاوہ کچھ دوسرے سینئر حکام کو قتل کردیا گیا ۔ ایسے میں یہ اندیشے پھیلے ہوئے ہیں کہ اگلا نشانہ کوئی بھی ہوسکتا ہے ۔ حکومت کے سینئر حکام کو ملازمت اور پیسے سے خوش رکھنے اور آمریت کیلئے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی میں توازن برقرار رکھنے کی ضرورت ہے اگر مظالم کے مزید ثبوت سامنے آئیں تو شمالی کوریا کے متاثرین اور بین الاقوامی حقوق انسانی گروپس کی جانب سے خاطیوں کو سزائیں دینے دباؤ بڑھے گا ۔
بینیٹ کے بموجب شمالی کوریا کے انتہائی با اثر طبقہ میں ایک لاکھ نفوس شامل ہیں جبکہ ملک کی آبادی 26 ملین کی ہے ۔ ان میں 1,200 جنرلس بھی شامل ہیں جبکہ فوج 1.2 بلین پر مشتمل ہے ۔ جو جنرلس یہ سمجھتے ہیں کہ انضمام ان کیلئے بہتر نہیں ہوگا وہ انضمام کے عمل کو اپنے یونٹس کی تحلیل سے قبل ہی فوجی کارروائی کرتے ہوئے متاثر کرسکتے ہیں۔ دوسری جانب اگر مشترکہ کوریائی حکومت ان جنرلوں سے تعاون کرنے میں کامیاب رہی تو یہ لوگ انضمام کے عمل کو تحفظ اور سکیوریٹی فراہم کرنے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ سینئر حکام کو انضمام کیلئے راغب کرنے کی کوششوں میں ایسی فلمیں بنانا جن میں انضمام کو مثبت انداز میں پیش کیا جائے شامل ہے ۔ اس کے علاوہ بیرونی ممالک میں مقیم شمالی کوریائی باشندوں سے رابطے پیدا کرنا بھی شامل ہے اور ایک واضح منصوبہ بنانا کہ ایسے عہدیداروں کا تعاون حاصل کیا جائے جو اپنے اسٹیٹس ‘ ملازمت ‘ پیسے اور خاندان کی حفاظت کیلئے فکرمند ہوں ۔ بینیٹ کا کہنا ہے کہ بیشتر شمالی کوریائی اعلی حکام ایک متحدہ کوریائی حکومت کے خلاف مزاحمت کی مدد کرینگے ۔ انضمام کے بہتر نتیجہ کا انحصار شمالی کوریا کے ایلیٹ طبقہ کو یہ یقین دہانی کروانے میں ہے کہ انضمام سے انہیں فائدہ ہوگا اور یہ کوئی مضر عمل نہیں ہوگا ۔
حالانکہ اس طرح کے خیالات بہت سہل اور اچھے نظر آئیں لیکن جنگ اور نیوکلئیر پھیلاؤ کا جو متبادل منظر نامہ ہے وہ قابل غور نہیں ہوسکتا ۔