کیا تلنگانہ ، بی جے پی کیلئے ’’یو پی ‘‘ثابت ہوگا…؟

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری        خیر اللہ بیگ
تلنگانہ کی حکمراں ٹی آر ایس نے ریاست میں بی جے پی کے امکانات کو مضبوط بنانے میں اگر اہم رول ادا کرنا شروع کیا ہے تو آئندہ سال ہی وسط مدتی انتخابات کروائے جاسکتے ہیں۔ شہر حیدرآباد میں چہارشنبہ کو نکالی گئی رام نومی شوبھا یاترا میں وی ایچ پی لیڈر پروین توگڑیا کی زہر افشانی کے درمیان تلنگانہ میں بی جے پی کے عزائم کا بھی مضبوط اشارہ ملاہے۔ توگڑیا کے بعد بی جے پی صدر امیت شاہ نے حیدرآباد کے دورہ کا ارادہ کیا ہے۔ ماضی میں سیاستدانوں کی سازشوں کو بھانپ لینے کیلئے موجودہ میڈیا کی طرح چالاک نہیں تھا۔ اب میڈیا وقت سے پہلے کے حالات کو بھانپ لیتا ہے۔ پرانے سیاستدانوں کی کارکردگی کی مثال دی جائے تو اس وقت میڈیا محدود تھا اس لئے کبھی بات چھپ جاتی یا کبھی چھپائی جاتی تھی اور کبھی اس کو زبردستی یا مجبوراً رکوالیا جاتا تھا۔ لیکن موجودہ حالات میں اب جو کچھ چھپانا یا ٹیلی کاسٹ کرنا ممکن ہے نہ حقیقت سے منہ موڑنا مشکل ہے ، اب آپ کے ہاتھ میں موبائیل فون کی صورت میں چلتا پھرتا میڈیا موجود ہے ، سب کچھ ریکارڈ ہورہا ہے ، جو کچھ سامنے آجاتا ہے اس کی وضاحت دی جائے تو بھی لوگ یقین نہیں کرتے۔ حکمراں ٹی آر ایس اپنے حق میں لاکھ صفائی دے بی جے پی کی وسعت پذیری میں اس کا رول کتنا ہے یہ موبائیل فون یا اسمارٹ فون کے اس دور میں چھپانا مشکل ہے۔
ٹی آر ایس کو بی جے پی سے بظاہر خوف ہے مگر اندر ہی اندر اس کے من میں کیا پھوٹ رہا ہے یہ وقت ہی بتائے گا۔ ٹی آر ایس نے اپنی داخلی طاقت کو مضبوط کرنے ریاستی سطح سے لیکر بین الاقوامی سطح تک رکنیت سازی مہم میں شدت پیدا کردی ہے۔ ٹی آر ایس کی رکنیت مہم لندن، امریکہ اور دیگر ملکوں میں مقیم تلگو عوام میں چلائی جاکر کئی نوجوانوں کو رکنیت دی جارہی ہے۔ امریکہ کے تمام بڑے شہروں میں ٹی آر ایس کی رکنیت حاصل کرنے والوں نے پارٹی کے حق میں کام کرنے کا عہد کیا ہے ۔ امریکہ میں اب تک 2500 این آر آئیز نے ٹی آر ایس کی رکنیت حاصل کی ہے۔ ٹیکساس، کیلی فورنیا، نیو جرسی، لاس اینجلس اور شکاگو کے علاوہ لندن اور بحرین میں بھی ٹی آر ایس کے کارکنوں کی تعداد زیادہ دیکھی گئی ہے۔ پارٹی کی مقبولیت کو دیکھ کر یہ گمان نہیں ہونا چاہیئے کہ تلنگانہ کے 2019 کے انتخابات میں بی جے پی یا کسی اور پارمی کو ووٹ ملیں گے۔ کئی این آر آئیز نے 2019 کے اسمبلی انتخابات کے موقع پر ریاست میں کیمپ کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ ٹی آر ایس کو این آر آئیز کی بھرپور حمایت ملنے کے بعد دوسری میعاد کے لئے حکمرانی یقینی سمجھی جارہی ہے۔ لیکن ٹی آر ایس قیادت نے ازخود یہ اعلانات بھی شروع کردیئے ہیں کہ اگر ٹی آر ایس نے اپنے 2014 کے منشور میں کئے گئے وعدوں کو پورا نہیں کیا تو وہ 2019 کے انتخابات میں حصہ نہیں لے گی۔ ٹی آر ایس کا یہ اعلان آیا واقعی ’’ سچ ‘‘ ہے۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے کہا ہے کہ ان کی حکومت گریٹر حیدرآباد میں ڈبل بیڈروم کے ایک لاکھ مکانات تعمیر کرے گی اور سال 2017-18 کے دوران دیہی علاقوں میں دو لاکھ مکانات تعمیر کرے گی۔ اگر یہ وعدہ پورا کرنے میں ٹی آر ایس ناکام ہوتی ہے تو وہ آنے والے انتخابات میں عوام سے ووٹ نہیں مانگے گی۔
چیف منسٹر صاحب کا یہ جذبہ اور دیانتداری قابل ستائش ہے اگر فی الواقعی وہ دیانتداری سے مکانات بناتے ہیں تو پارٹی کے لئے اچھی خبر ہوگی۔ اگر مکانات بنانے میں ناکام ہوجائیں تو پھر انتخابات میں حصہ نہ لینے کا عہد عین وقت پر کیا صورت نکالے گا یہ خود چیف منسٹر کی چالاک سیاسی سوچ کے تابع ہوگا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مکانات کی تعمیر یا اس طرح کے وعدے صرف کاغذی گھوڑے ثابت ہورہے ہیں۔ بظاہر یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ تقریباً 30 ہزار مکانات کی تعمیر جاری ہے۔ ماباقی مکانات کی تعمیر میں تاخیر اس لئے ہورہی ہے کیونکہ کنٹراکٹرس آگے نہیں آرہے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ کنٹراکٹر اس گھاٹے کے سودے میں ہاتھ کیوں ڈالیں گے۔ حکومت اپنے وعدوں کی تکمیل کیلئے پھرتی کا مظاہرہ کررہی ہے مگر رقومات کی اجرائی کا جب مرحلہ آتا ہے تو کنٹراکٹرس کی چپل گِھس جاتی ہے۔ حیدرآباد میٹرو ریل پراجکٹ کو ہی لیجئے،  فنڈس کی عدم اجرائی کی شکایت کرنے والے کئی ذیلی کنٹراکٹرس کی وجہ سے یہ کام سُست روی سے جاری ہیں اور کہیں تو کام ٹھپ ہیں ورنہ 2017 میں دونوں شہروں میں میٹرو ریل چلانے کا وعدہ کیا گیا تھا، اب اس تاریخ میں توسیع کرکے اگسٹ 2018تک ریل چلانے کا پھر وعدہ کیا گیا ہے۔ خیر آئندہ ایک سال میں شہر کے حالات اور حکومت کا بجٹ کیا رُخ لیتا ہے یہ دیکھا جائے گا۔
سرِدست تو بی جے پی کی مرکزی قیادت نے تلنگانہ میں دلچسپی لینا شروع کردیا ہے خاصکر حیدرآباد کے پرانے شہر پر اس کی نظر ہے۔ آئندہ اسمبلی انتخابات میں سیاسی مقابلہ سے زیادہ بی جے پی اپنے منصوبوں کو کامیاب بنانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگائے گی۔ حیدرآباد لوک سبھا حلقہ سے 1984 سے مسلسل کامیاب ہوتی آرہی مجلس کو ناکام بنانے کا عہد کرنے والی بی جے پی قیادت نے اپنے لیڈرس کو متحرک کردیا ہے۔ اترپردیش کے آدتیہ ناتھ یوگی کی طرح لیڈر کو فلاش کرنے میں اسے کوئی مشکل نہیں ہوگی کیونکہ شہر حیدرآباد میں بی جے پی کو یوگی جیسے کردار کئی مل جائیں گے۔ تلنگانہ سے کانگریس اور تلگودیشم کنارے پر پہنچ چکی ہیں۔ بی جے پی کی مرکزی قیادت نے کئی ارکان کو تلنگانہ میں سرگرم کردیا ہے۔ مرکزی وزراء بھی مصروف کردیئے گئے ہیں۔ بی جے پی کے اسٹیٹ اگزیکیٹیو ضلع صدر اور جنرل سکریٹری کے بشمول 400سے زائد بی جے پی لیڈرس سرگرم ہیں۔ اس ریاست پر جب مرکزی حکومت کی ہی خاص نظر ہے تو آگے دیکھتے ہیں ہوتا ہے کیا۔ بی جے پی کو طاقت فراہم کرنے والی پالیسیوں میں سب سے اہم پالیسی مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے کی ہے اور بی جے پی اس میں صدفیصد کامیاب بھی دکھائی دے رہی ہے۔ طلاق ثلاثہ، گاؤکشی، مسالخ پر تالے لگانے، مسلمانوں کو تحفظات دینے کے خلاف احتجاج جیسے حربوں نے فرقہ پرستوں کا کام آسان کردیا ہے۔
رام نومی شوبھا یاترا جلوس اور جلسہ عام میں بظاہر حیدرآباد کے سیکولر عوام نے کوئی خاص جوش و خروش نہیں دکھایا اور نہ ہی بی جے پی کے مرکزی قائدین کی میٹنگوں سے کوئی خاص نتیجہ برآمد ہوا ہے۔ توگڑیا کے حالیہ دورے اُن کیلئے مایوس کن ثابت ہوئے ہوں گے۔ تلنگانہ کے سیکولر رائے دہندوں کو گمراہ کرنے میں وہ ہرگز کامیاب نہیں ہوگی اگر حکمراں ٹی آر ایس نے دیانتداری سے سیکولر کردار کو فروغ دیا تو پھر تلنگانہ میں سیکولر ماحول کو ہی برتری حاصل ہوگی۔
kbaig92@gmail.com