کہ جاتی ہے اردو زباں جاتے جاتے

میرا کالم            مجتبیٰ حسین
اردو شعراء میں مرزا داغ دہلوی کو اردو زبان کی عظمت ، شان وشوکت اور جاہ وحشمت پر کچھ اتنا ناز تھا کہ موقع ملتے ہی اس زبان کی معنی آفرینیوں ، تہہ داریوں ، نکتہ سنجیوں ، نازک خیالیوں اور شوخ معاملہ بندیوں کے باب میں نہ صرف رطب اللسان ہوجاتے تھے بلکہ اس زبان کے شاعر ہونے پر کھلے بندوں نہایت پرتعلی ناز کرتے ہوئے ہر دم اس زبان کے قصیدے گایا کرتے تھے ۔ ان کے حسب ذیل دو شعر تو اردو کے آج کے دور ابتلا میں بھی زباں زد خاص و عام ہیں ۔
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ
ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
اور
نہیں کھیل اے داغؔ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زبان آتے آتے
اپنی بات کو آگے بڑھانے سے پہلے ہم شروع میں ہی یہ واضح کردینا چاہتے ہیں کہ داغ دہلوی نے اردو زبان کی شان میں جتنے قصیدے اپنی شاعری میں گائے ہیں کم و بیش اتنے ہی مرثیے ہم نے اردو کی موجودہ زبوں حالی پر اپنی نثر میں اور وہ بھی مزاح میں لکھے ہیں ۔ یہ سب وقت وقت کی بات ہے ۔ دنیا کی کسی بھی زبان پر ایسا برا وقت کبھی نہ آیا ہوگا کہ سو ، سوا سو سال پہلے جس زبان کی شان میں قصیدے لکھے جاتے تھے دیکھتے ہی دیکھتے اس زبان کا نوحہ لکھنے کی بھی نوبت آجائے گی ۔ مزید آگے بڑھنے سے پہلے آپ وہ معمولی سی تحریف بھی ملاحظہ فرمالیں جو ہم نے داغؔ دہلوی کے مندرجہ بالا دو شعروں کے ایک ایک مصرعے میں کی ہے ۔
اردو ہے جس کا نام ’نہیں‘ جانتے تھے داغؔ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
نہیں کھیل اے داغؔ یاروں سے کہہ دو
کہ ’جاتی‘ ہے اردو زباں جاتے جاتے
داغؔ نے جب اول الذکر شعر کہا تھا تو دوسرے مصرعہ میں آج کے ’’سارے جہاں‘‘ کی بجائے صرف ’’ہندوستاں‘‘ کو شامل رکھا تھا مگر پچھلی نصف صدی میں جب برطانیہ ، امریکہ اور خلیجی ممالک وغیرہ میں اردو کی نئی بستیاں آباد ہونے لگیں تو یاروں نے اس مصرعہ کو حسب حال بنانے کی خاطر ’’ہندوستاں‘‘ کو ہٹا کر ’’سارے جہاں‘‘ کو شامل کرلیا تھا ۔ بے شک داغؔ نے اپنے پرتکلف مگر شوخ و طرار انداز بیان میں اردو شاعری کو حسن کی جن عشوہ طرازیوں ، چونچلوں ، چنچل اداؤں اور ناز و نخروں کے علاوہ عشق کی جولانیوں ، بے باکیوں بلکہ شوخ بے اعتدالیوں اور معصوم دست درازیوں سے روشناس کرایا تھا وہ انہی کا حصہ تھا اور یقیناً اس کے باعث سارے ہندوستان میں اس زبان کی دھوم سی مچ گئی تھی لیکن بے چارے داغ یہ نہیں جانتے تھے کہ سو سوا سو سال کے بعد ہی اس ترقی یافتہ بے مثال زبان پر وہ وقت بھی آئے گا جب وہ دنیا میں پھیل تو جائے گی لیکن اس کی گہرائی اور گیرائی اُتھلے پن میں تبدیل ہوجائے گی ۔ اس کے لفظوں کی تہہ داریاں سپاٹ ہوجائیں گی ، یہاں تک کہ ان لفظوں کے معنی ، املا اور تلفظ تک بدل جائیں گے ۔ نہ وہ عشق میں رہیں گی گرمیاں اور نہ وہ خم رہے گا زلف ایاز میں ۔ اور یوں وہ اردو زبان جو داغ کے زمانہ اور خود ان کے فن میں آتے آتے آگئی تھی اب جاتے جاتے جانے کے سفر پر روانہ ہوتی ہوئی دکھائی دینے لگی ہے ۔

آج ہمیں اچانک داغ دہلوی کی یاد اس لئے آگئی کہ ممبئی کے اردو اخبار ’’اردو ٹائمز‘‘ میں کسی صاحب قلم نے ’’ن ص‘‘ کے مخفف قلمی نام سے ایک مضمون ’’اردو ہے جس کا نام کہاں جانتے ہیں ہم‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے جس میں اردو کے موجودہ ریسرچ اسکالروں کی زبان دانی اور ان کی علمی لیاقت پر روشنی ڈالنے کی غرض سے دلچسپ واقعات قلمبند کئے ہیں ۔ دو واقعات آپ بھی ملاحظہ کریں ۔ مشہور شاعر قاضی سلیم کی رحلت پر اورنگ آباد میں ایک تعزیتی جلسہ منعقد ہوا تو اردو کے ایک ریسرچ اسکالر نے اپنی تقریر کا آغاز اس جملہ سے کیا ’’جب مجھے قاضی سلیم کے انتقال پرملال کی اطلاع ملی تو میرا دل بلیّوں اچھل گیا‘‘ ۔ اس جملہ سے آپ قاضی سلیم کی رحلت پر اس ریسرچ اسکالر کے گہرے رنج و ملال کی شدت کا اندازہ لگاسکتے ہیں ۔ ہمیں یہ بھی یقین ہے کہ اس ریسرچ اسکالر نے محاورے کی ’’بلَیوں‘‘ کا تلفظ ’’بِلیّوں‘‘ کی طرح ادا کیا ہوگا کیونکہ اول تو یہ محاورہ شمالی ہند میں زیادہ مروج ہے اور دوسرے یہ کہ اس کا استعمال خوشی کے جذبات کے اظہار کے لئے کیا جاتا ہے ۔ اورنگ آباد کے ریسرچ اسکالر نے شمالی ہند کی ’’بلَیوں‘‘ کو تو کبھی اُچھلتے ہوئے نہیں دیکھا ہوگا (یہاں تک کہ خود ہم نے بھی کبھی نہیں دیکھا حالانکہ شمالی ہند میں ہم برسوں رہے) ۔ تاہم اورنگ آباد کے اس ریسرچ اسکالر نے ایسی بِلیّوں کو ضرور دیکھا ہوگا جو چھینکے پر لٹکتی دودھ کی ہانڈی کی طرف اُچھلنے کی تکلیف دہ کوشش تو کرتی ہیں مگر ناکام رہ جاتی ہیں اور یوں گہرے رنج و الم میں مبتلا ہوجاتی ہیں ۔ مضمون نگار نے یہ بھی لکھا ہے کہ اردو کے معروف صحافی نے ایک نئے جوڑے کو شادی کی مبارک دیتے ہوئے فرمایا تھا ’’اللہ تم دونوں کو خوشیوں اور مسرتوں کے دہانے پر پہنچادے‘‘ ۔ ویسے تو ہم تباہی اور بربادی کے دہانے تک پہنچنے کی کیفیت سے تو بخوبی واقف ہیں لیکن ایک دہانہ خوشیوں اور مسرتوں کا بھی ہوتا ہے اس سے قطعاً ناواقف ہیں۔ آج کے دور ابتلا میں مفرّس اور معّرب اردو بولنے کی کوشش میں ایسی ہی مضحکہ خیز اردو کا چلن عام ہوتا جارہا ہے ۔ بہت پرانی بات ہے ۔ امروہہ کی ایک ادبی محفل کی صدارت مولانا اسحق سنبھلی کو کرنی تھی ، وہ اپنی سیاسی مصروفیات کے باعث محفل میں وقت پر نہ آسکے ۔ نتیجہ میں منتظمین محفل نے ایک ’’کام چلاؤ صدر‘‘ کو کرسی صدارت پر بٹھادیا مگر جیسے ہی کام چلاؤ صدارت نے کرسی صدارت سنبھالی مولانا اسحق سنبھلی محفل میں پہنچ گئے ۔ اس پر ناظم اجلاس نے بوکھلاہٹ میں مائیکرو فون پر اعلان کیا ’’حضرات! شومئی قسمت سے مولانا اسحق سنبھلی محفل میں آچکے ہیں ۔ میں عارضی صدر اجلاس سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ کرسی صدارت کو خالی کردیں‘‘ ۔ ایسی ہی مضحکہ خیز اردو کی ایک مثال ہمارے دوست امجد اسلام امجد نے سنائی تھی ۔ احمد ندیم قاسمی صاحب کے ایک دوست کے فرزند کا کوئی کام کسی محکمہ کے عہدیدار بالا کے پاس پھنسا ہوا تھا ۔ انہوں نے قاسمی صاحب سے خواہش کی کہ وہ اس سلسلہ میں متعلقہ عہدیدار سے بات کریں اور اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کریں ۔ چنانچہ قاسمی صاحب نے عہدیدار بالا سے بات کی اور بالآخر ان کے دوست کے بیٹے کا کام ہوگیا ۔ اس پر قاسمی صاحب کے دوست نے شکریہ کا جو معرکتہ الآرا خط انہیں لکھا اس کا پہلا جملہ تھا ’’قاسمی صاحب! آپ کی عنایت ، کرم فرمائی ، نوازش ، سفارش اور آپ کی بے پناہ ’’ریشہ دوانیوں‘‘ کی بدولت میرے بیٹے کا کام بالآخر ہوگیا‘‘ ۔ ان دنوں اردو کے بہت سے محاوروں کا چلن یا تو ختم ہوگیا ہے یا یہ محاورے خود بے توقیر اور بے معنی ہوگئے ہیں ۔ اردو نصاب کے پرچہ میں ایک سوال تھا ’کلنک کا ٹیکہ لگوانا ‘کو جملہ میں استعمال کیا جائے ۔ ہماری زبان میں یہ محاورہ اس وقت سے رائج ہے جب کہ علم طب نے ترقی نہیں کی تھی اور ہیضہ ، چیچک اور تپ دق وغیرہ جیسی بیماریوں کے ٹیکے ایجاد نہیں ہوئے تھے ۔ لہذا ایک بھولی بھالی طالبہ نے اس محاورہ کو اپنے جملوں میں کچھ اس طرح استعمال کیا تھا ’’کل ہمارے گھر میں سارے افراد خاندان نے کلنک کا ٹیکہ لگوایا ۔ میں چونکہ گھر پر نہیں تھی اس لئے میں ایسا ٹیکہ لگوانے سے محروم رہ گئی تھی ۔ مگر آج میں کلنک کا ٹیکہ ضرور لگواؤں گی ۔ احتیاط اور حفاظت اچھی چیز ہوتی ہے‘‘ ۔

ہمارے ایک دوست تقاریب اور جلسوں کی بڑی کامیاب نظامت کرتے ہیں لیکن ان سے بھی ایک بار بڑی دلچسپ غلطی سرزد ہوگئی تھی ۔ ایک سیاسی رہنما جب تک وزارت کی کرسی پر براجمان رہے تب تک انہیں جلسوں میں ’’عزت مآب فلاں ابن فلاں‘‘ وغیرہ کہہ کر پکارا جاتا تھا ۔ لیکن جیسے ہی وہ وزارت کی کرسی سے اترے ایک محفل میں ہمارے مندرجہ بالا ناظم اجلاس نے بے خیالی میں نہیں بلکہ نہایت خیال انگیز لہجہ میں موصوف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’سابق عزت مآب جناب فلاں بن فلاں سے میری گزارش ہے کہ وہ ڈائس پر تشریف لائیں‘‘ ۔ بھلے ہی اردو زبان سارے جہاں میں پھیل گئی ہو لیکن یہ تو ماننا ہی پڑے گا کہ وہ اردوئے معلی جسے عموماً کوثر و تسنیم میں دھلوایا جاتا تھا اب ’’ڈرائی کلیننگ‘‘ پر گزارہ کررہی ہے ۔ خالص علمی اور ادبی اردو تو پس منظر میں چلی جارہی ہے البتہ تفریحی اور ثقافتی اردو کا چلن اب بھی برقرار ہے ۔ بہت عرصہ پہلے جب فلم ’’مغل اعظم‘‘ ریلیز ہوئی تھی تو کچھ عرصہ تک ہمارے سماج میں ظل الہی ، عالم پناہ ، صاحب عالم ، تخلیہ اور یلغار جیسے لفظ سنائی دیتے رہے ۔ وہ بھی اس طرح کہ ایک بار دبیر پورہ کمان کے پاس ہم سائیکل رکشا کے انتظار میں کھڑے تھے کہ ایک منچلے رکشا والے نے دست بستہ عرض کی ’’عالم پناہ! کہاں جایئے گا؟‘‘ ہم نے کہا ’’عابد روز ’سیاست‘ کے دفتر پر‘‘ ۔ نہایت مودبانہ انداز میں فرشی سلام کرتے ہوئے بولا ’’ظل الہی ! زہے نصیب ۔ قدم رنجہ فرمایئے‘‘ ۔ ہم بیٹھ گئے تو پوچھا ’’ظل الہی! غلام کو کیا کرایہ عطا فرمائیں گے؟‘‘ (اتفاق سے اس دن ظل الہی کی جیب میں صرف آٹھ آنے تھے) ۔ ہم نے چار آنے مرحمت کرنے کا وعدہ فرمایا تو حسب معمول فرشی سلام کی تکرار کے دوران بولا ’’عالم پناہ! عنایت ، مہربانی ، نوازش ، کرم! آپ کی بندہ پروری کا شکریہ‘‘ ۔ خیر ہم رکشا میں تو بیٹھ گئے لیکن رکشا چلنے کا نام نہ لے ۔ ہم نے کہا ’’میاں ! چلتے کیوں نہیں؟‘‘ بولا ’’عالم پناہ! آپ حکم دیں تو تعمیل بھی ہو‘‘ ۔ ہم نے بھی مغل اعظم کے لہجہ میں کہا ’’یلغار ہو‘‘ ۔ اب جو رکشا کی یلغار شروع ہوئی تو یوں لگا جیسے کشتوں کے پشتے لگ جائیں گے اور اس یلغار کی آڑ میں ہم موت کے غار میں پہنچ جائیں گے ۔ سو ہم ڈر کے مارے دم سادھے بیٹھے رہے ۔ غرض ’’سیاست‘‘ کے دفتر پر رکشا کی یلغار ختم ہوئی تو ہم نے ڈرتے ڈرتے اس خطرناک یلغار کی شکایت کی تو بولا ’’ظل الہی! یہ زمانہ ہمیں جینے نہیں دے گا اور ہم آپ کو مرنے نہیں دیں گے‘‘ ۔

یہ تو ہم بھی مانتے ہیں کہ ہر دور اپنی لفظیات اپنے ساتھ لاتا ہے ۔ ہمیں یہ بھی قبول ہے کہ اردو ساری دنیا میں پھیل رہی ہے لیکن آپ کو بھی یہ مان لینا چاہئے کہ اردو کے بے مثال ذخیرۂ الفاظ میں سے بہت سے لفظ غائب ہوتے جارہے ہیں اور جو الفاظ بچ رہے ہیں ان کا تلفظ یا تو بگاڑا جارہا ہے یا ان کی جنس تبدیلی کی جارہی ہے ۔ محاورہ کی ٹانگیں توڑی جارہی ہیں اور لفظوں کے معنی بدلے جارہے ہیں ۔ حد ہوگئی کہ آئے دن اردو اخباروں میں ’’کتاب کا رسم اجرا‘‘ ، ’’کتاب کی اجرا‘‘ ، ’’بات چیت کا پیش کش‘‘ ، ’’حیدرآباد کی عوام‘‘  ’’اپوزیشن کی جانب سے حکومت کی پرزور خلافت‘‘ جیسے عنوانات نہایت جلی سرخیوں میں دھڑلے کے ساتھ لکھے جانے لگے ہیں ۔ مانا کہ سماج میں جنس کی تبدیلی کے واقعات پیش آنے کے علاوہ خود ہماری حکومت بھی ہم جنسی کے پہلو پر ہمدردانہ غور کرنے لگی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ برسوں پرانے لفظؤں کی نہ صرف جنس تبدیل کرنا شروع کردیں بلکہ ان کے تلفظ ، املا اور معنی بھی بدلنے لگے جائیں ۔ ہم نے پہلے بھی کئی بار اپنے کالم میں ان باتوں کی طرف نشاندہی کی ہے لیکن ہمارے کالم کو پڑھتا کون ہے اور اگر غلطی سے کوئی پڑھتا بھی ہے تو اس پر عمل کرنے کو ضروری تصور نہیں کرتا ۔
کون سنتا ہے فغانِ درویش