کھل گئے بادبان یادوں کے

نفیسہ خان
کل تک جو مضامین میں لکھتی رہی تو کسی واقعہ نے تحریک دی اور نفیسہ خان کا قلم چل نکلا لیکن آج مضمون لکھنے بیٹھی ہوں تو یوں لگتا ہے کہ میں اپنے اباجان کی بیٹی نفیسہ سعید ہوں جو اپنے دفتر ماضی کی بکھری فائلوں کو جمانے بیٹھ گئی ہے ۔ ’’بیٹا کیسی ہو؟ کتنے سال بعد تمہاری آواز سن رہی ہوں کس قدر خوشی ہورہی ہے ۔ مجھے‘‘ ۔ ذکیہ آپا کے ان الفاظ میں محبت و خلوص کا دریا موجزن تھا ۔ میں نے پچھلے ادوار کے گم گشتہ دنوں و واقعات کو بہت سنبھال کر رکھا ہے کہ کہیں یہ ماضی کے اندھیروں میں میرے ذہن میری آنکھوں سے اوجھل نہ ہوجائیں ۔ ذکیہ آپا کی شفقت و محبت سے سرشار ہو کر میں وہی پندرہ سولہ سال کی لڑکی بنی امنگوں کے جھولے میں جھولنے لگی ۔ اپنی دو لمبی چوٹیوں کو جُھلاتی ہوئی کلیہ اناث عثمانیہ یونیورسٹی کوٹھی کے وسیع و عریض سبزہ زار پر اودھم مچانے لگی ۔ تصورات کی راہداریاں گذرے وقت کے زینے چڑھنے لگیں ۔ اکثر ایسا ہوتا ہیکہ ماضی کے تمام دریچے بند کردینے کے باوجود کچھ یادیں روشنی کی کرنوں کی طرح کسی روزن سے چھن چھن کر آہی جاتی ہیں ۔ کوئی بھولا بسرا واقعہ ہوا کے خوشگوار جھونکے کی طرح چھو کر گذر جاتا ہے ۔وقت کی گرد میں دبے چہرے اپنی گرد جھاڑ کرسامنے آکھڑے ہوجاتے ہیں ۔ آج ذکیہ آپا اسی طرح میرے روبرو ہیں ان کی شخصیت میں چھپا وہی خلوص ، آواز میں پنہاں اپنائیت ہے جیسے ہم کبھی جدا نہ ہوئے ہوں وقت کے اتنے لمبے سفر کے ہم ساتھی رہے ہوں ۔ ایک منٹ میں گویا تمام ماہ و سال برف کی طرح پگھل گئے ۔ ذکیہ آپا مجسم التفات بنیں میرے سامنے آکھڑی ہوگئیں اور ؎
ایک لمحے میں سمٹ آیا ہے صدیوں کا سفر
زندگی تیز بہت تیز چلی ہو جیسے !!
میرا ذہن حال سے کنارہ کش ہو کر خیالات کے ازدھام میں بھٹکنے لگا ہے ۔ نظر کے سامنے خوبصورت یادیں رقصاں ہیں ۔ نامپلی گرلز ہائی اسکول میں ہم نے یوروپین نژاد پرنسپال مس اڈالفس کے سخت ترین اصولوں و قوانین پر چلتے ہوئے صغیر سے میٹرک تک کی تعلیم مکمل کرکے جب ویمنس کالج کوٹھی کی عالیشان ریذیڈنسی کی خوبصورت عمارت میں قدم رکھا تو چوبی فرش پر اپنے قدموں کی آہٹ سے خود خوفزدہ ہوجایا کرتے تھے ، لیکن یہاں کے خوبصورت باغات ، ہریالی ، گھنے جھاڑوں کی آرام دہ چھاؤں ہمیں مسحور کرتی گئی گویا ہم کسی پنجرے سے نکل کر کھلی ہوا میں پرواز کررہے تھے ۔ یوں لگتا زنداں سے نکل کر جنت میں آگئے ہوں۔ کالج کے ساتھی ، کالج کا ماحول ، ناچ گانوں کے انٹرکلاس مقابلے ، کلچرل پروگرام ، کالج ڈے ، جیوگرافی کانفرنس ، بیت بازی ، افسانہ نویسی کے انٹر کالج مقابلے بھلائے نہیں بھولتے گویا کالج کی یادیں دل و جگر میں پیوست ہوگئی ہوں ؎
دل کی گلیوں سے تیری یاد نکلتی ہی نہیں
سوہنی پھر اسی پنجاب میں آجاتی ہے
جب ہمارا تعارف اپنے لکچررس سے ہونے لگا تو انگلش پڑھانے والیوں میں مس شریف ، مسز سوزی جیکب ، صبیحہ آپا تھیں ۔ اردو کیلئے زینت ساجدہ صاحبہ ، رفیعہ آپا ، ثمینہ شوکت صاحبہ ، معاشیات پڑھانے شہنشاہ آپا ، سلامت آپا ، جغرافیہ پڑھانے کیلئے ذکیہ آپا ۔ افضل محمد صاحب ، انعام الحق صاحب ہوا کرتے تھے۔ ذکیہ آپا ، افضل محمد صاحب اور ثمینہ شوکت صاحبہ دوسرے لکچررس کے مقابل کم عمر تھے اور کنوارے بھی تھے ۔ اور ان کا پہلا تقرر ویمنس کالج پر ہوا تھا ۔ ثمینہ آپا اردو کے رومانی اشعار کا مفہوم سمجھاتے ہوئے خود ہی شرم سے دہری ہوئی جاتی تھیں ۔ افضل محمد صاحب تھے تو جغرافیہ کے لکچرار لیکن اردو ادب سے جنون کی حد تک لگاؤ تھا اور ذکیہ آپا انگلش میڈیم اسٹانلی گرلز ہائی اسکول کی طالبہ تھیں ۔ لیکن انہوں نے مجھے بتایا کہ جب وہ انٹر میں داخلہ لینے کیلئے کلیہ اناث آئی تھیں تب ہندی اختیاری مضمون چنا تھا ، لیکن ایک بار وہ زینت آپا کی کلاس سے گذرتے ہوئے ان کے دلکش انداز سے اس قدر متاثر ہوئیں کہ انہوں نے فوراً آفس جا کر اپنے فارم سے ہندی ہٹا کر اردو لکھ دیا اور انٹر کے یہ دو سالوں نے ذکیہ آپا کو نہ صرف زینت آپا کا گرویدہ بنالیا بلکہ اردو کا دلدادہ بنادیا پھر انہوں نے انیسؔ اور دبیرؔ کے مرثیوں کے ساتھ تمام منتخب شعراء کے مجموعہ کلام کھنگال ڈالے اور اپنی انگریزی دانی کو اردو کا لباس فاخرہ پہنادیا اور آج بھی کف افسوس ملتی ہیں کہ کاش وہ جغرافیہ کے بجائے اردو ہی کو گلے لگالیتیں تو ان کی قابلیت و نام صرف ذاکرہ کے علاوہ ایک مشہور و معروف ادیبہ کے طور بھی منظر عام پر آسکتا تھا ۔ ذکیہ آپا اور زینت آپا سے میرا تعلق خاطر زیادہ رہا کیونکہ ان دونوں کی چھوٹی بہنیں میری بہترین دوستوں کی فہرست میں شامل تھیں اس لئے نہ صرف کالج بلکہ ان کے گھروں اور خاندانی تقاریب تک میری رسائی تھی ۔ اس زمانے کے عام گھرانوں کی طرح ذکیہ آپا کا گھر اور گھر والے سادگی پسند تھے ۔ فرش پر دسترخوان بچھائے چھوٹے بڑے ساتھ بیٹھ کرکھانا کھایا کرتے تھے ۔ ذکیہ آپا کی شادی میں بھی میں شریک رہ چکی ہوں ۔ سیدھی سادی تقاریب ہوا کرتی تھیں ۔ آجکل کی طرح شاہانہ ٹھاٹ باٹ ، لوازمات ، آرائش و زیبائش نہ تھی ۔ ذکیہ آپا ایسے خاندان کی پروردہ ہیں جہاں لڑکیوں کی تعلیم و آگے بڑھنے کے مواقع کو محدود نہیں کیا جاتا تھا بلکہ مسائل کو حل کرنے راہیں ہموار کی جاتی ہیں ۔ اس لئے ذکیہ آپا نے اپنے وجود کو سمیٹ لینا نہیں سیکھا ۔ ایسے ہی لکچررس کی یادوں کے نقوش میری زندگی کی راہگذر پر اپنے آن مٹ نشان چھوڑ گئے ہیں جتنا میں مٹانے کی کوشش کرتی ہوں اتنا ہی ابھر آتے ہیں ۔ ہمارے لکچررس پوری ایمانداری و تندہی سے اپنے فرائض کی تکمیل کیا کرتے تھے ۔ہمیں ہمیشہ کامیاب و کامران دیکھنے کے متمنی تھے ۔ ہم انٹر کلاس و انٹر کالج مقابلے خواہ تقریری ہوں یا تحریری ، افسانہ نویسی کے ہوں یا بیت بازی کے ہر ایک میں حصہ لیا کرتے تھے ، کبھی آرٹس کالج تو بھی محبوب کالج تو کبھی ریڈیو اسٹیشن کو ہمیں لے جایا جاتا تھا اور ہمیں کامیابی کی منزلوں کی طرف آگے ہی آگے بڑھنے کیلئے رہنمائی کی جاتی تھی ۔ ہمیں سرنگوں نہیں بلکہ سربلند دیکھنے کے وہ متمنی ہوا کرتے تھے ۔ ان کی قابلیت کے ذخیرہ میں وسیع معلومات ، بہترین خیالات کی آویزش ، الفاظ کی بہتات اور روانی گفتگو تھی تو پھر ہماری سماعتیں کیوں اس سے محروم رہتیں ۔ ہمہ تن گوش ایک ایک لفظ کو اپنے آپ میں جذب کیا کرتے تھے ۔ ان لکچررس کی زندگی کا مقصد ہمیں زیور تعلیم سے آراستہ کرنا تھا اور ہماری حیات کا حاصل یہ تھا کہ ان کی زبان سے نکلے ہر خیال ہر بات کو اپنے دل و دماغ پر نقش کرلیا کریں ۔ اس طرح ہم ان کے علمی و عملی کردار وقار بہت سے نہ صرف یہ کہ مستفید ہوتے رہے بلکہ معتقد و مرید بھی ہوگئے تھے ۔ ان کی شخصیت کا اثر ہم پر بہت گہرا پڑا ہے ان لکچررس کی شخصیتیں یکتائے زمانہ تھیں ۔ جب سرکار نے وظیفہ پر سبکدوش کردیا تب بھی وہ اپنی سماجی و علمی خدمت سے سبکدوش نہیں ہوئے ۔ زینت آپا کی بینائی انتہائی کمزور ہوگئی تھی کہ وہ لکھنے پڑھنے سے محروم ہوگئی تھیں لیکن جب میں 1987 میں ایم اے کے امتحان دینے کی تیاری کرنے لگی اور ان کی رہنمائی ضرورت پڑی تو خندہ پیشانی سے اپنے گھر بلایا اور کہنے لگیں ’’میری آنکھیں کام نہیں دے رہی ہیں تو کیا ہوا ، میرا ذہن میری زبان تو ساتھ دے رہے ہیں ، میں بولتی جاؤں گی تم لکھتی جانا ۔ اس طرح میں نے ایم اے میں امتیازی کامیابی حاصل کی اور اب ذکیہ آپا نے تو اپنی زندگی کو ایک ایسی سمت کی طرف موڑ دیا ہے جہاں قول کے ساتھ فعل و عمل بھی ہے کہ ؎
انہیں کے دم سے فروزاں ہیں ملتوں کے چراغ
زمانہ صحبت ارباب فن کو ترسے گا
ذکیہ آپا کے گھر میں جن بیجوں کی آبیاری ہوئی تھی وہ کونپلیں تناور درخت کے روپ میں سب کو سایہ دے رہی ہیں ۔ اس لئے کہ ملک و بیرون ملک اعلی تعلیم کے حصول کی بھرپور کوشش جو کی گئی تھی کیونکہ ان کے گھر کا ماحول قدامت پسند یا دقیانوسی نہ تھا بلکہ مذہبی رواداری و میل جول کا ماحول تھا ۔ مذہبی انتہا پسندی سے ذکیہ آپا کو نفرت ہے اسلئے ذکیہ آپا کے پڑوسی شیام اور لتا سے ذکیہ آپا کی بہت دیرینہ و دیرپا دوستی ہے اور یہ ان دونوں سے ہمارے خاندان کا گہرا لگاؤ بھی ہے ۔ چچا جان نے ایک معصوم بچی یعنی ہماری آپمان (ہنسا جاتی) کواپنی حقیقی اولاد کی طرح پالا لیکن اپنے دوست سے کئے گئے وعدہ پر قائم رہے کہ اس کی پرورش ہندو مذہب و عقائدکے مطابق کی جائے گی اور شادی بھی ہندو خاندان ہی میں ہوگی ۔ لتا آج بھی ذکیہ آپا کی شفقت و محبت سمیٹ رہی ہیں ۔ ایک طرف ذکیہ آپا ضرورت مندوں کی مدد کررہی ہیں تو دوسری طرف دردمندوں کا درد بانٹ رہی ہیں جبکہ عمر کی اس منزل پر زندگی ایک تضاد پیہم ہے اور ہر معمر بندے کو اس سے برسرپیکار ہونا پڑتا ہے ۔ ہمارے لکچررس پر بڑھتی عمر اثر انداز نہ ہوسکی کہ اگر زندہ ہیں تو کچھ تو مقصد حیات ہو اگر زندگی کا حاصل ہی کچھ نہ ہو تو عمر خضر لیکر بھی ہمیں کیا کرنا ہے ؟ روز اپنی زندگی کے رات و دن سے کوئی نیا درس ہمیں ملتا ہے ہم اس سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں اور دوسروں کو سکھاسکتے ہیں اس کے باوجود ہماری زندگیاں غیر ضروری کاموں میں اتنی مصروف ہوگئی ہیں کہ خدمت خلق کیلئے ہمارے پاس وقت ہی نہیں ہے ۔ ملت کی بقا کا تصور بھی نہیں ہے ۔ عام آدمی سے لیکر سیاستداں اور بڑے بڑے مذہبی رہنما دھواں دھار تقاریر کرتے ہیں لیکن خود مادیت کا پیکر بنے روحانی علم کی تشہیر کرتے ہیں جبکہ روحانیت کے عمل سے خدا واسطے کا بیر ہے اور وہ اس بات سے نیاز ہیں اور اپنے آپ کواپنے ضمیر کو اپنے رب کو دھوکہ دیتے ہیں ۔ ہمارے زمانے کے استاد خواہ اسکول کے ہوں یا کالج کے ہمارے لئے مشعل راہ بنے رہے ۔ تصنع سے بیگانہ سیدھی سادی زندگی گذارنے کا درس ہم نے ان ہی سے سیکھا ہے ۔ ذکیہ آپا ماشاء اللہ آج بھی اس قابل ہیں کہ قوم و ملت کی بہتری کیلئے تگ و دو کررہی ہیں ۔ انہوں نے تسلیم و رضا کی عادت ڈال لی ہے اسلئے خدا کی رحمتوں نے انہیں سنبھال رکھا ہے ۔ آجکل کے بے شمار خاندانوں کی طرح ذکیہ آپا کا خاندان بھی بکھر چکا ہے ، شریک حیات کا ساتھ چھوٹنا یہ خدائے برتر کی مرضی تھی لیکن اولاد کاساتھ چھوڑ جانا روشن مستقبل کی چکاچوند کردینے والی روشنیوں کا بلاوا تھا اور آج وہ اس عمر میں محبت کے خانوں میں بٹ گئی ہیں ۔ ایک میں خونی رشتے ، اولاد ناتے ناتیوں کی الفت وتڑپ ہے تو دوسری میں وہ ملک وہ حیدرآباد وہ اسی شہر کا وہی پرانے محلے کا آبائی مکان جہاں بچپن ، لڑکپن ، جوانی کی بے شمار یادیں دفن ہیں ۔ جہاں اب بھی پرانے ساتھی ہیں ۔اپنے مذہب ، اپنے مسلک سے خود کو وابستہ رکھنے کے مواقع ہیں اور ہمیں دلی و وحانی سکون حاصل ہوتا ہے ۔ یہاں امریکہ ، لندن جیسی صفائی ستھرائی نہیں ، ہوا پانی ماحول سب کچھ پراگندہ اور آلودہ ہے لیکن اپنے گھر کی سوندھی مٹی کی خوشبو اور گذرے وقتوں کی مہک سے معطر فضا خود کو آسودہ کرنے کیلئے کافی ہے وہاں کے محبوس ماحول میں خود کو مقید پرندہ محسوس کرنے کی بجائے آزاد پنچھی بن کر اپنی اڑان اپنی پرواز کو دائم و قائم رکھنا ذکیہ آپا کا مصمم ارادہ ہے ۔ اپنی شخصیت کو صرف دنیوی رشتوں کے بندھنوں میں باندھنے کے بجائے ایک ذاکرہ بن کر دین و ملت کی خواتین کی ذہنی نشو و نما کرتے ہوئے ثواب کمارہی ہیں ۔ ایک ماں کے فرائض سے سبکدوش ہو کر بہت حد تک حیدرآباد و امریکہ کے فاصلوں کو سمیٹ کر صرف دین کے کاموں کیلئے اپنے آپ کو وقف کردینے میں انہیں دلی سکون میسر آتا ہے ، کیونکہ قیمتی وقت کا بہترین مصرف بھی انہیں حاصل ہورہا ہے ورنہ ہماری عمر کے اس دور میں ہم سب صحت بیماریوں و کمزوریوں کے شکنجے میں کستے جارہے ہیں ۔ اب عناصر میں وہ اعتدال نہیں ، گویا سفینہ حیات میں چھید پڑگئے ہیں اور یہ ڈانواڈول ہورہا ہے ۔ کسی وقت بھی ڈوبنے کا اندیشہ ہے اس کے باوجود ذکیہ آپا جیسی باہمت خواتین موت سے خائف نہیں ہیں ۔ اپنی عمر کا ماباقی حصہ کچھ کرکے دکھانے کی قائل نہیں گویا ہم اپنے گنے چنے دنوں کو رائیگاں نہیں کررہے ہیں حالانکہ اس عمر میں گردش ایام کی شورش پریشان کردیتی ہے تب اولاد بے انتہا یاد آتی ہے لیکن لامتناہی فاصلے طے کرتے ہوئے اس عمر میں کمر اورگھٹنے ٹوٹ کر رہ جاتے ہیں ۔ ایسے میں دل کو مسوس کر خدا کی طرف لَو لگانا اور سب سے بچھڑ جانے کا خود کو خوگر بنالینا بہت ضروری ہے ۔ خزاں رسیدہ موسم میں بہاروں کی سرسبزی و پھولوں کی تمنا اب عبث معلوم ہوتی ہے لیکن کبھی کبھی منظر اپنی اولاد سے ہٹ کر احباب کی دلداری ، خلوص و محبت کی وجہ سے یکلخت بدل جاتے ہیں کہ یوں محسوس ہوتا ہیکہ یہ تاریک رات جیسی ضعیفی جو کبھی ڈھلنے والی نہیں ہے اور روشن اجالا اسکا نصیب نہیں اس لئے شاید ہی ایسی صبح نمودار ہوپائے کہ سارا مایوسی کا منظر بدل کر رکھ دے تب اچانک ذکیہ آپا کے جشن جیسا تر و تازہ خلوص کے جھونکوں کے ساتھ روشن صبح صادق کا آفتاب طلوع ہوجاتا ہے جو مایوسی کے اندھیروں ، تیرگی و تاریکی کو مٹا کر احساس دلا جاتا ہے کہ اب بھی چاہنے والے سکون دل فراہم کرنے ہمارے آس پاس موجود ہیں جو ہمیں تنہائی کا احساس نہیں ہونے دیں گے ۔ اولاد تو آخر اولاد ہے فاصلوں میں بھی انکی قربت کی آنچ محسوس کی جاسکتی ہے ۔ ایک حرارت ایک تپش محبت کے احساسات کو زندہ و جاوید رکھتے ہیں ۔ ذکیہ آپا ایک بیوی ایک ماں بن کر تمام مرحلوں سے گذر چکی ہیں ۔ اپنے جذبات کو دل کے نہاں خانے میں چھپائے رکھا ہے ، لیکن ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کی فسوں کاریاں ان کے ہر جذبے کی عکاسی میں عمر کے ساتھ ریزہ ریزہ ہو کر بکھرتی زندگی ہر مرد و عورت کا نصیب ہوتی ہیں لیکن عمر دو روزہ کو رائیگاں کرنا کم عقلی ہے ۔ ہر ایک کو زندگی کو سمجھنے اس کو ڈھنگ سے گذارنے کا سلیقہ بھی تو چاہئے یہ فن ذکیہ آپا کو بخوبی آتا ہے روز و شب کے بے شمار لمحوں میں جہاں شیرینی و مٹھاس ہوتی ہے وہاں تلخیاں و کڑواہٹیں بھی رہتی ہیں لیکن تلخیوں کو مٹھاس پر غالب نہ آنے دینا بھی ایک آرٹ ہے ۔ زندگی کی جولانیوں کو ماند پڑنے نہ دیں اس کی جستجو تادم آخر کرنی چاہئے ۔ اب نہ تو رفاقتوں کے احساس سے خوشی ہوتی ہے نہ جدائیوں کا دکھ محسوس ہوتا ہے ۔ رہا سوال یادوں کا تو وہ تو تہہ در تہہ جسم و جان میں پیوست ہیں اس سے فرار کب ممکن ہے ، لیکن سماج سے کٹ جانا اچھی بات بھی تو نہیں اپنی شخصیت کے صحت مندانہ نشو و نما کیلئے مہلک بھی ہوتاہے ۔ سماجی تفریح کا عملی پروگرام بنانا ایک قطعی و لازمی ضرورت ہے ۔ ہر ایک کی ایک تصوراتی دنیا ہوتی ہے جس میں وہ منفی خیالات کیلئے یا تو جلتا ، سلگتا ، جھلستا رہتا ہے یا پھر مثبت سوچ میں اپنے آپ کو محو رکھ کر سرشار ، مست و مسحور رہتا ہے اور یہی کامیاب زندگی گذارنے کا آسان نسخہ ہے کہ خود خوش و مطمئن رہے اور دوسروں سے اپنی ذات اپنے وجود کو منواکر داد و تحسین وصول کرے ۔ پر پھول یہ جانتا ہے کہ کلی سے پھول بن کر مہکنے کے بعد اس کی پنکھڑیوں کا بکھرنا طے ہے پھر بھی فنا سے پہلے پھول خندہ زن رہتا ہے کیا یہ سبق ہمارے لئے کافی نہیں ہے کہ موت سے پہلے بھرپور زندگی گذاری جائے گو کہ ہماری زندگیوں کی ڈگر بدل گئی ہے ہم میں بیشمار تبدیلیاں وقوع پذیر ہوگئی ہیں پھر بھی ؎
وقت بدلا ، لوگ بدلے ، میں بھی بدلا ہوں مگر
ایک موسم مجھ میں ہے جو آج تک بدلا نہیں
ذکیہ آپا ایک ذاکرہ بن گئی ہیں اور میں اپنی زندگی کو کاغذ پر جینے کا ڈھنگ سکھارہی ہوں ۔ آج ذکیہ آپا کیلئے اپنے دلی جذبات کے اظہار کی میں نے مخلصانہ کوشش کی ہے جن کیفیات کو جس طرح محسوس کیا اسی طرح سادگی سے پیش کردیا ہے کیونکہ ریاض فاطمہ تشہیر کی خواہش اور ذکیہ آپا سے فون پر گفتگو کے بعد مجھے یوں محسوس ہوا کہ ؎
پانی کی طرح بہہ گئیں صدیاں کبھی کبھی
اکثر ہوا ہے یوں بھی کہ لمحہ ٹھہر گیا
اور اسی ایک ٹھہرے ہوئے لمحے کا عکس آپ کی نظروں کے سامنے ہے ۔