کچھ یادیں کچھ شخصی تجربے

میرا کالم              امتیاز الدین
ہمارا خیال ہے کہ ہر صحیح الدماغ اور صحیح الاعضاء آدمی کو سیکل چلانا آنا چاہئے ۔ زندگی میں ہم جتنی سواریاں چلاتے ہیں (ہوا بازی اس میں شامل ہے یا نہیں ہم نہیں جانتے) ان میں کہیں نہ کہیں سیکل سواری کو بنیادی اہمیت حاصل ہے ۔ آدمی کو توازن کی برقراری کا اصل تجربہ سیکل کی سواری سے ہوتا ہے ۔ اپنی اور دوسروں کی جان کی حفاظت کا خیال سیکل کی وجہ سے دل میں آتا ہے ۔ سیکل کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ فضائی آلودگی سے بالکل پاک ہوتی ہے ۔ایک بار ایک سیکل خریدلیں تو پھر آپ کو کوئی خرچ اٹھانا نہیں پڑتا ۔ ہمارے بچپن میں تو لوگ پنکچر جوڑنے کا سامان اور پمپ ساتھ رکھا کرتے تھے بلکہ ضرورت پڑنے پر عالمی سفر کے لئے بھی تیار رہا کرتے تھے ۔ بہترین سیکل راں وہی ہوتے تھے جو ماں باپ کی اجازت کے بعددوسروں کی سیکل چوری چھپے چلاتے تھے اور دو چار بار گر پڑکے اس فن میں طاق ہوجاتے تھے ۔ ہمارا ذاتی خیال تو یہ ہے کہ بائیسویں صدی میں فضائی آلودگی یا پولیوشن اتنا بڑھ جائے گا کہ سڑکوں پر دوسری سواریوں کی تعداد کم ہوجائے گی اور سائیکلوں کی تعداد بڑھ جائے گی اور کیا عجب حکومت سیکل سواروں کو ترغیبی انعامات دینے لگے گی ۔ ایک زمانہ تھا کہ لاہور ، پونہ اور حیدرآباد جیسے شہر سیکلوں کی تعداد کے اعتبار سے صف اول کے شہر مانے جاتے تھے ۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ اور اساتذہ نہایت اطمینان اور شوق سے سیکل چلاتے تھے  ۔جب ہم عثمانیہ یونیورسٹی کے انجینئرنگ کالج میں پڑھتے تھے ، انجینئرنگ کالج کے قریب ہی پروفیسر مسعود حسین خاں صاحب کا مکان تھا جو علی گڑھ سے تشریف لائے تھے ۔ موصوف آرٹس کالج سے اپنے گھر سیکل پر آتے جاتے تھے ۔ ہم ان کے نامِ نامی اور ادبی کارناموںسے واقف تھے لیکن ہمارے بہت سے دوست بھی جو ان سے واقف نہیں تھے ان کو نہایت دلچسپی سے دیکھتے تھے ۔ کیونکہ مسعود حسین صاحب اکثر سوٹ میں بھی ہوتے تھے اور ان کے سیکل چلانے کا انداز بھی منفرد تھا ۔ تین چار دفعہ پیڈل مارنے کے بعد وہ کچھ وقفہ تک سیکل کو خود سے بھی چلنے دیتے تھے ۔ جب سیکل کی طاقت کم ہونے لگتی تو وہ پھر سے پیڈل مارنے لگتے ۔ ہم کو تو ایسا لگتا جیسے پروفیسر صاحب سیکل نہیں چلارہے ہیں شعبۂ اردو چلارہے ہیں۔

خود ہم نے بھی سیکل چلانا بہت دیر میں سیکھا۔ سچ پوچھئے تو ہم کو سیکل چلانا سکھایا گیا ۔ ہمارے ساتھ ایک مصیبت یہ تھی کہ ہم اسی طرف سیکل لے جاتے تھے جہاں ہم جانا نہیں چاہتے تھے ۔ ایک مرتبہ ہم اپنے محلے کی ایک سنسان گلی میں سیکل کی مشق کررہے تھے ۔ دور سے ایک بزرگ ہاتھ میں سودے کی تھیلی لے ہوئے چلے آرہے تھے ۔ ہم بالکل ان کی سیدھ میں اپنی مرضی کے خلاف سیکل چلاتے ہوئے پہنچ گئے ۔ خوش قسمتی سے لبِ سڑک ایک مکان تھا جس سے لگی ہوئی دو تین سیڑھیاں تھیں ۔ وہ بزرگ ان میں سے سب سے اونچی سیڑھی پر چڑھ گئے ۔ ہم سیدھے ان  سیڑھیوں سے ٹکرائے اور ان کے قدموں میں گرگئے ۔ ان صاحب نے کہا ’’میاں پوری سڑک خالی پڑی ہے ۔ آپ اس طرف کیوں چلے آئے‘‘ ۔ ہم کھسیانی ہنسی ہنس کر رہ گئے ۔

جب ہم تعلیم ختم کرکے ملازمت میں داخل ہوئے تو ہماری پوسٹنگ ایک دیہاتی علاقے میں ہوئی جو کم و بیش چالیس کیلومیٹر پر پھیلا ہوا تھا ۔ اس علاقے میں ٹیلی فون تقریباً نہ ہونے کے برابر تھے ۔ ہمارے افسر کی ضد تھی کہ ہم کسی صورت ایک موٹر سیکل خریدیں ورنہ اپنے علاقے سے باخبر رہنا ممکن نہیں تھا  ۔ مجبوراً ہم نے ایک جاوا موٹر سیکل خریدی اور کم و بیش پندرہ دن کی مشق کے بعد اس قابل ہوئے کہ موٹر سیکل پر دفتر آنے جانے لگے ۔ ایک بار ہمارے آفیسر کی جیپ خراب ہوگئی ۔ اس نے ہم سے ابراہیم پٹن چھوڑنے کے لئے کہا ۔ ہم اس فرمائش پر پریشان تو ہوئے لیکن حکم حاکم مرگ مفاجات کے مصداق اسے لے کر نکلے ۔ بمشکل چھ سات کیلومیٹر گئے ہوں گے کہ راستے میں ایک ایسا موڑ آیا جو ہمارے وہم وگمان میں نہیں تھا ۔ ہم موڑ کے مطابق گاڑی کو موڑ نہیں سکے جس کے نتیجے میں ہم اور ہمارے افسر بری طرح گرگئے ۔ چوٹ ہم کو زیادہ آئی ۔ ہمارے افسر کو زیادہ چوٹ نہیں آئی لیکن اس کی ہیٹ قریب ہی پڑے ہوئے گوبر میں گرگئی اور اس کی دستی گھڑی بھی دور جا پڑی  ۔ ہم نے سمجھا تھا کہ ہمارا افسر ہم پر خفا ہوگا لیکن اس نے نہایت شرمندہ لہجے میں ہم سے کہا کہ ہم جس وقت نکلے تھے وہ شبھ گھڑی نہیں تھی ۔ ہمیں آدھا گھنٹہ ٹھہر کر نکلنا چاہئے تھا ۔ اس نے مزید خوش خبری یہ سنائی کہ وہ منحوس گھڑی گزر چکی ہے اس لئے اب ہم گھر واپس ہوجائیں اور وہ خود بھی ایک چلتی ہوئی بس روک کر ابراہیم  پٹن رخصت ہوگیا ۔

موٹر سیکل کے دو تین ہلکے پھلکے حادثات سے گزرنے کے بعد ہم نے فیصلہ کرلیا کہ گاڑی حتی الامکان آہستہ چلائیں گے اور کسی کو گاڑی چلانا نہیں سکھائیں گے کیونکہ ہم خود تو گِر کر صبر کرسکتے ہیں لیکن دوسروں کی مدد سے گرنا نہیں چاہتے ۔ اس بات کا خیال ہمیں اس وقت آیا جب ہم خیریت آباد کے قریب اپنے ہیڈ آفس میں برسرکار تھے اور ہمارے پڑوسی بیگ صاحب کا دفتر فتح میدان کے قریب تھا ۔ ہم ان کو ہر روز ان کے دفتر چھوڑتے ہوئے جاتے اور واپسی میں بھی انھیں ساتھ لے کر آتے ۔ ایک دن ہم حسب معمول شام میں انھیں لینے کے لئے ان کے دفتر پہنچے تو دیکھا کہ وہ ایک صاحب سے بات چیت کرتے بیٹھے ہیں ۔ بیگ صاحب نے ہمیں بتایا کہ موصوف کسی مرکزی دفتر میں ملازم ہیں اور اب تبادلہ کی وجہ سے شمالی ہند کے کسی شہر جارہے ہیں ۔ جاتے جاتے بعض غیر ضروری سامان یہیں فروخت کرنا چاہتے ہیں جس میں ایک اسکوٹر بھی ہے اور وہ اسکوٹر ہمارے دوست نے خرید لی ہے ۔ رقم ملنے کے بعد وہ صاحب نہایت تیزی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور رخصت چاہی ۔ ہمارے دوست بیگ صاحب نے بہت ادب سے ان سے کہا کہ وہ اسکوٹر کو ان کے گھر پہنچادیں کیونکہ وہ گاڑی چلانا نہیں جانتے ۔ ان صاحب نے کہا ’’نہیں جی مجھے گھر جاکر سامان باندھنا ہے ۔ آپ ذرا باہر آیئے میں اسکوٹر چلانے کا طریقہ بتادیتا ہوں ۔ دیکھئے یہ کِک ہے ۔ گاڑی کو نیوٹرل کیجئے ۔ اسٹارٹ ہوجائے تو کلچ دبا کر گیر بدلئے ۔ حسب ضرورت گیر بدل کر رفتار کو کم زیادہ کرتے رہئے ۔ اگر کوئی نالائق سامنے آجائے تو بریک دبایئے یا ہارن بجایئے ۔ اگر آپ کو کہیں اور جانا نہ ہو تو سیدھے گھر چلے جایئے ۔ ہیپی جرنی (Happy Journey) ۔ اچھا میں چلتا ہوں‘‘ ۔ ہم ان صاحب کی باتیں سن کر حیرت زدہ تھے اور ہمارے دوست تو خیر اسکوٹر چلانے کے تصور سے ہی وحشت زدہ تھے ۔ وہ تو کہئے کہ ان کا ایک چپراسی ان کو اسکوٹر پر گھر چھوڑنے پر آمادہ ہوگیا اور یوں پہلا مرحلہ طے ہوگیا ۔ اگلے دن صبح سویرے ہمارے دوست ہمارے گھر آئے اور کہنے لگے ’’میں آج آپ سے اسکوٹر ڈرائیونگ کا پہلا سبق لینا چاہتا ہوں‘‘ ۔ ہم نے کہا ’’بھائی صاحب ۔ میرے پاس موٹر سیکل ہے اور آپ کی اسکوٹر  ۔ مجھے اسکوٹر کا کوئی تجربہ نہیں ۔ آپ محلے کے کسی لڑکے کو ہموار کیجئے اور اس سے سیکھئے‘‘ ۔ بات ان کی سمجھ میں آگئی اور وہ چلے گئے ۔ جب ہم دفتر کے لئے نکلنے کو تھے کہ ان کی بچی ہانپتی کانپتی آئی اور کہنے لگی کہ ابا صبح کے گئے اب تک نہیں آئے ۔ ذرا ادھر ادھر جا کر دیکھئے کہاں ہیں ۔ ہم بھی پریشان ہو کر نکلے ۔دور سے ہمارے دوست نظر آئے ۔ اس حالت میں کہ بال بکھرے ہوئے ۔ پاجامہ پھٹا ہوا اور پیروں پر زخموں کے نشان ۔ ساتھ میں محلے کا ایک لڑکا جس کے ہاتھ میں ان کی اسکوٹر تھی اور ان دونوں کے پیچھے ایک دودھ والا جس کے ہاتھ میں ایک سیکل تھی جس کے ڈنڈے سے ایک پیتل کا دودھ کا گھڑا جو خالی معلوم ہورہا تھا (بندھا ہوا تھا) ۔ ہم نے اپنے دوست کی خیریت دریافت کی ۔وہ کہنے لگے کیا بتاؤں ایک گھنٹے کی مشق کے بعد مجھے اسکوٹر چلانا آگیا تھا اور میں چلا بھی رہا تھا نہ جانے کہاں سے یہ دودھ والا آگیا۔ اس نے اپنی سیکل کو میری اسکوٹر میں گھسادیا ۔ شاید میرے ہینڈل کا کچھ حصہ اس کے دودھ کے گھڑے میں اٹک گیا ۔ اس کی سیکل کے پیڈل سے میرا پاجامہ جگہ جگہ سے پھٹ گیا ۔ کمبخت کہہ رہا ہے کہ دس لیٹر دودھ بہہ گیا ۔ قیمت مانگتا ہے لنگڑا کر چل رہا ہے ۔ علاج معالجے کے پیسے الگ ۔ مجھے تو سب بہانہ بازی لگ رہی ہے ۔ آج تو دفتر آنا بھی مشکل ہے ۔ ہفتے دو ہفتے کے بعد ہمارے پڑوسی اسکوٹر چلانے کے قابل ہوئے لیکن ہم نے ان سے کبھی لفٹ نہیں لی ۔

ہماری زندگی کا آخری مرحلہ کار ڈرائیونگ کا تھا ۔ لیکن کار چلانے کا خیال ہمیں اس وقت آیا جب ہمارے بے کار بیٹھنے کے دن قریب آگئے تھے۔ ہمارا مطلب یہ ہے کہ ہم ریٹائر ہونے کی منزل میں تھے ۔ ہم نے ایک کار ڈرائیونگ اسکول جوائن کیا ۔ ہم کو ہمارا کوچ علی الصبح لے کر نکلتا جبکہ سڑک پر ٹریفک برائے نام رہتی ۔ کار کی باگ ڈور ہمارے کوچ کے ہاتھ میں رہتی ۔ ہم بچکانہ انداز میں ہاتھوں اور پیروں کو جنبش دیتے جس سے کوئی خاص فرق پڑتا ہوا ہمیں دکھائی نہ دیتا ۔ پھر بھی ہم جب تک ڈرائیونگ کا سبق ختم نہ ہوجاتا ڈرے ہوئے رہتے ۔ پندرہ بیس دن کی ناکام کوشش کے بعد ہم نے سوچ لیا کہ کار ڈرائیونگ کے بغیر بھی زندگی چل رہی ہے اور ہماری عمر برق رفتاری کی نہیں سلامت روی کی ہے اس لئے بہتر ہے یہی کہ نہ دنیا سے دل لگے ۔ اسی لئے ہم آپ سب کو مشورہ دیں گے کہ آپ کو جو کچھ سیکھنا ہو نوعمری میں سیکھ لیں ۔ تعلیمِ بالغان کی بات اور ہے ۔ اس کے لئے عمر کی قید نہیں ۔