کچھ علامہ اقبال کی خاص باتیں

ڈاکٹر مسعود جعفری

شاعر مشرق اقبال اس دنیا میں 61 برس تک ہی رہے۔ پیدا ہوئے سیالکوٹ میں اور وفات ہوئی لاہور میں۔ 21 اپریل 1938 ء کی رات سینے میں درد کی شکایت کی ۔ وہ فجر کی اذاں کے بعد چل بسے ۔ جاوید منزل میں انہوں نے آخری سانس لی ۔ ان کے گزر جانے کی خبر پھیلتے ہی لوگوں کا ہجوم ان کا آخری دیدار کرنے جاوید منزل پہونچنے لگا ۔ غسل گھر پر ہی دیا گیا۔ ہر شخص ان کے جنازے کو کاندھا دینا چاہتا تھا ۔ اس لئے ان کی چار پائی کے کنارے لامبے بانس باندھے گئے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ ان کی میت کو کاندھا دے سکیں ۔ اقبال کی نماز جنازہ دو بار پڑھی گئی ۔ پہلی اسلامیہ کالج کے میدان میں اور دوسری بادشاہی مسجد کے صحن میں ۔ بعض اصحاب نے دہری نماز جنازہ پر اعتراض کیا ۔ اقبال کے ایک ہندو مداح نے کہا کہ مسلمانوں کو اقبال کے مقام کا اندازہ نہیں ہے ۔ ان کی کئی نماز جنازہ پڑھی جاسکتی ہیں۔
اقبال کی رحلت پر ان کی جائے تدفین کا سوال اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ آخر انہیں کہاں سپرد خاک کیا جائے ۔ اقبال کے انتقال پر ایک اقبال میموریل کمیٹی تشکیل دی گئی تھی ۔ چودھری محمد حسین اس کمیٹی کے صدر تھے ۔ اس کمیٹی نے اقبال کو لاہور کی بادشاہی مسجد کے پاس دفن کرنے کی تجویز رکھی ۔ اجازت کے لئے پنجاب کے وزیر اعلیٰ سکندر حیات خاں کے پاس برقی تار بھیجا گیا ، وہ اس وقت کلکتہ میں ہونے والی مسلم لیگ کی میٹنگ میں گئے ہوئے تھے ۔ انہوں نے بادشاہی مسجد میں تدفین سے منع کردیا ۔ کہا کہ وہ تاریخی عمارت ہے۔ اس میں اقبال کو دفن نہیں کیا جا سکتا۔ اس پر کمیٹی نے پنجاب کے انگریز گورنر سے وفد کی شکل میں ملاقات کرتے ہوئے انہیں عرض داشت دی تو انگریز گورنر نے بادشاہی مسجد میں تدفین کی اجازت دے دی ۔ اس طرح اقبال کو وہاں دفن کیا گیا ۔ وزیرستان سے اقبال کے کچھ رشتہ دار آنے تک انتظار کیا گیا ۔ ان کے آنے اور اقبال کا چہرہ دیکھنے کے بعد رات دس گیارہ بجے کے قریب ان کی تجہیز و تکفین کی گئی ۔ اقبال کی طبیعت کچھ دنوں سے خراب تھی ۔ یونانی دوائیوں کا علاج معالجہ تھا ۔ اس زمانے میں گولیاں نہیں تھیں۔ اقبال کو یونانی دوا کا عرق پلایا جاتا تھا ۔ وہ بہت کمزور اور نحیف ہوگئے تھے ۔ ان کے شانے نہایت کمزور ہوگئے تھے ۔ نہرو نے اسی روایت کو ز ندہ کیا ۔ وہ شاید اقبال کو ایک گرو کا درجہ دے رہے تھے۔ نہرو اقبال کی فلاسفی کی قدر کرتے تھے ۔ دونوں کا انگلستان میں تعلیم حاصل کرنے کا ایک ہی عرصہ تھا یعنی 1905 ۔ اقبال اور نہرو دونوں نے کیمرج یونیورسٹی ہی سے بیرسٹری کی ڈگری لی ۔ نہرو کے ہاں اقبال کی حب الوطنی مسلمہ تھی ۔ کسی صحافی نے نہرو سے پوچھا کہ وہ جناح اور اقبال کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔ نہرو نے کہا کہ جناح ایک سیاستداں ہیں اور اقبال ایک محب وطن ۔
ایک شب بارہ ایک بجے کے قریب اقبال نے اپنے ملازم علی بخش کو آواز دی وہ اپنے کمرے سے باہر آیا دیکھتا ہے کہ ایک بزرگ سبز لباس میں ملبوس ، بال بکھرے ہوئے اقبال کے سامنے صوفے پر بیٹھے محو گفتگو ہیں ۔ اقبال ان کے پاؤں داب رہے ہیں۔ اقبال نے خدا بخش سے لسی لانے کیلئے کہا بہت رات ہوچکی تھی ۔ تاہم وہ باہر نکلا دیکھتا ہے کہ ایک لسی کی دکان کھلی ہوئی ہے ۔ وہاں وہ گیا اور لسی لے آیا جب اس نے اس بزرگ کو پیسے دینے کی کوشش کی تو انہوں نے یہ کہہ کر پیسے نہیں لئے کہ ان کا لین دین اقبال سے چلتا رہتا ہے۔ علی بخش لسی کے گلاس اقبال کو دے کر اپنے کمرے میں سونے چلا گیا ۔ ایک گھنٹے کے بعد اقبال نے علی بخش کو آواز دی اور اس سے کہا کہ وہ باہر جاکر وہ بزرگ کو واپس بلا لائے جو یہاں کمرے میں ان کے پاس بیٹھے تھے ۔ جب خدا بخش دروازے کے پاس گیا تو دروازہ اندر سے بن تھا ۔ دوسرے دن علی بخش اقبال سے اس بزرگ باریش و سبز پوش کے بارے میں پوچھنے لگا اقبال نے سنی ان سنی کردی جب وہ مسلسل پوچھنے لگا تو اقبال نے اس سے کہا کہ وہ اقبال کی حیات میں اس بات کا ذکر کسی سے بھی نہیں کرے گا۔ پھر اقبال نے کہا کہ وہ بزرگ خواجہ اجمیری تھے اور باہر دکان پر لسی بنانے والے بزرگ داتا گنج فرید شکر تھے ۔ یہ سن کر علی بخش حیرت زدہ ہوگیا ۔ منیرہ اقبال کی بچی کہتی ہے کہ اقبال عیدالاضح کے موقع پر بکرے کا ذبح ہوتا ہوا خون آلود منظر نہیں دیکھ سکتے تھے ۔ وہ کمرے کے اندر چلے جاتے تھے ۔ ویسے ان کی شاعری انقلابی فکر سے بھری پڑی ہے۔ بعض مصرعے تیغ فشاں بھی ہیں اور بعض شمشیر و سناں سے معمور ہیں۔ اقبال کے گھر کا ڈسپلن مثالی تھا۔ جاوید اقبال کو ہدایت تھی کہ وہ غروب آفتاب کے بعد گھر میں رہیں۔ رومی ٹوپی پہنیں۔ شلوار قمیض زیب تن کریں۔ آٹھ روپئے سے زیادہ قیمت کا جوتا نہ لیں۔ چڈی نہ پہنیں۔ ایران میں بچہ بچہ اقبال کی شاعری سے عشق کرتا ہے ۔ اب پاکستان کی تعلیم گاہوں میں اقبال کی شاعری کو نہیں پڑھا جارہا ہے۔ چراغ تلے اندھیرا والی بات ہے ۔ اقبال اپنے ہی گھر میں بے گھر ہوگئے ہیں۔