کچھ دارالترجمہ جامعہ عثمانیہ کے بارے میں

میرا کالم            سید امتیاز الدین
(اتوار 26 فروری 2017 ء کو سالار جنگ میوزیم کے کانفرنس کے کانفرنس ہال میں ڈاکٹر سید داؤد اشرف کی کتاب ’’مشاہیر دارالترجمہ جامعہ عثمانیہ کی رسم اجراء انجام پائی ۔ دارالترجمہ ،عثمانیہ یونیورسٹی کے اردو ذریعہ تعلیم کیلئے بنیاد کی حیثیت رکھتا تھا ۔ حسن اتفاق سے 2017 ء عثمانیہ یونیورسٹی کے قیام کی صد سالہ تقاریب کے آغاز کا سال بھی ہے ۔ کتاب کی رسم اجراء کے موقع پر میں نے جو مضمون پڑھا تھا اسی مضمون کو میں نے قارئین کی دلچسپی اور معلومات کیلئے بطور ’میرا کالم‘ پیش کرنا مناسب سمجھا اور قارئین ’سیاست‘ کی نذر کرتا ہوں)
داؤد اشرف صاحب نے سلطنتِ آصفیہ اوربالخصوص آصفِ سابع کی انتظامی اصلاحات اور علمی کارناموں پر کئی معلومات افزاء کتابیں لکھی ہیں۔ اس موضوع پر ان کے مضامین روزنامہ سیاست میں کئی سال سے تقریباً ہر ہفتے شائع ہوتے ہیں۔ ایسے قارئین جن کو عہدِ آصفی سے ایک طرح کی دل بستگی ہے ان کو دا ؤد اشرف کے معلومات افزا اور مستند مضامین سے بے حد دلچسپی ہے ۔ خود مجھے بھی عہدِ آصفی کے کارناموں سے ایک طرح کا قلبی تعلق ہے ۔ داؤد اشرف ایک اچھے ادیب بھی ہیں، محقق بھی اور مورخ بھی ۔ داؤد اشرف کے مضامین اس اعتبار سے بھی مستند ہیں کہ وہ ہر مضمون ریاستی آرکائیوز میں محفوظ ریکارڈ سے اخذ کردہ مواد کی بنیاد پر ترتیب دیتے ہیں جس سے نہ صرف صحتِ بیان پر کسی قسم کا شبہ نہیں رہتا بلکہ بسا اوقات بعض غلط فہمیوں کا ازالہ بھی ہوتا ہے ۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ کوئی بھی کتاب محض دفتری ریکارڈ کے سہارے نہیں لکھی جاسکتی۔ جب تک ہرسرکاری حکم یا فرمانِ خسروی کا واقعاتی پس منظر پیش نظر نہ ہو ۔ کتاب میں ہر مضمون کے آخر میں فرمان کا عکس بھی شامل ہے۔
مشاہیر دارالترجمہ میں ہرایک عالم بے بدل تھا ۔ آج بانی جامعہ عثمانیہ کو گزرے ہوئے نصف صدی بیت چکی ہے ۔ اس یونیورسٹی کی امتیازی شان اس کا اردو ذریعہ تعلیم تھا جو سارے ملک کیلئے ایک دلیرانہ تجربہ تھا ۔ عثمانیہ یونیورسٹی کے قیام کی تحریک سر نظامت جنگ کے والد رفعت یار جنگ اول کے زمانے سے شروع ہوگئی تھی ۔ برطانوی پارلیمنٹ اور وائسراے کی تائید بھی اسے حاصل تھی ۔ ریاست حیدرآباد کے وزیر تعلیم فخرالملک بہادر اور معتمد تعلیمات عزیز مرزا صاحب بھی اس کے قیام کیلئے کوشاں تھے لیکن دفتری لیت و لعل کے باعث کام میں تیزی پیدا نہیں ہوئی ۔ سر اکبر حیدری 1911 ء میں معتمد تعلیمات مقرر ہوئے اور یہ اُن کی حرکیاتی شخصیت کا کرشمہ تھاکہ اس تاریخ ساز تحر یک میں جان پڑی اور بالآخر یونیورسٹی کے قیام کے بارے میں ایک تفصیلی اور مدلل یادداشت میر عثمان علی خاں والی دکن کی خدمت میں پیش ہوئی اور انہوں نے صرف چار دن میں یعنی 26 اپریل 1917 ء کو اس کی منظوری بذریعہ فرمان دے دی کہ ذریعہ تعلیم اردو رہے گا لیکن انگریزی بحیثیت لازمی زبان شامل رہے گی ۔ سر اکبر حیدری نے ملک کے ما ہرین تعلیم کو بھی اس سلسلے میں خطوط لکھے اور ان کی رائے اور مشورے طلب کئے ۔ بیشتر ماہرین نے اس فیصلے کو سراہا۔ اس سلسلے میں رابندر ناتھ ٹیگور نے جو جواب بھیجا وہ زرین حروف میں لکھے جانے کے لائق ہے ۔ شا ید سر اکبر حیدری نے انہیں لکھا تھا کہ ابتداء میں یہ یونیورسٹی تجرباتی طور پر کام کرے گی ۔ ٹیگور نے جہاں اردو ذریعہ تعلیم کی اس یونیورسٹی کی بھرپور تائید کی وہیں یہ بھی لکھا کہ اس کو تجرباتی نوعیت مت کہئے ۔
’’ہمارا عزم مصمم ہونا چاہئے اور عقیدہ قوی ہونا چاہئے‘‘۔ (ایسی بات کوئی سچا خیر خواہ ہی لکھ سکتا ہے) داؤد اشرف نے خط کا عکس بھی کتاب میں شامل کیا ہے ۔
حالات کے تغیر و تبدل کی وجہ سے جامعہ عثمانیہ کا اردو ذریعہ تعلیم تو باقی نہیں رہا لیکن مصنف نے حال کو ماضی کا آئینہ دکھایا ہے۔ جامعہ عثمانیہ کے تعلیمی سفر کے آ غاز کی بنیاد دارالترجمہ تھا کیونکہ تمام علوم و فنون کی کتابیں جب تک اردو میں موجود نہ ہوتیں تعلیم و تدریس کا آغاز ہی ممکن نہ تھا ۔ ایک مختصر عرصہ میں قابل مترجمین کو جمع کرنا اور کتابوں کو مختصر عرصہ میں تیار کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا ۔ یہ کام دارالترجمہ کے قابل مترجمین نے جس خوبی اور سرعت سے انجام دیا ، اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے ۔ آج کل کوئی ادارہ قائم ہو اور اس کیلئے کام کرنے والوں کی ضرورت ہو تو سفارشوں ، رشوتوں اور نااہل لوگوں کی بھرتی کا جو بازار گرم ہوجاتا ہے ، وہ کسی سے مخفی نہیں ہے ۔ لیکن اس دور میں جس جاں فشانی اور باریک بینی سے اہل علم کا انتخاب کیا گیا اور ان کو دور دور سے بڑی بڑی تنخواہوں پر بلوایا گیا ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بادشاہ وقت فیاض تھا اور علم دوست بھی اور اس کے اعلیٰ عہدیدار اس کے بہترین مشیر تھے ۔

بابائے اردو مولوی عبدالحق اگرچہ کہ صدر مہتمم تعلیمات تھے لیکن وہ کچھ عرصہ تک ناظم دارالترجمہ بھی رہے ۔ اُن کے دور میں ایک تالیف اور چھ ترجمے شائع ہوئے۔ سید ہاشمی فرید آبادی بھی ایک غیر معمولی عالم تھے اور وہ عبدالحق صاحب کے رفیق کار رہے۔ انہوں نے دارالترجمہ کیلئے 13 کتابوں کا ترجمہ کیا اور 5 کتابیں تالیف کیں۔ ان کے ساتھ قاضی محمد حسین ریاضی کیلئے ، برکت علی صاحب سائنس کی کتابوں کیلئے ، مولانا عبدالماجد دریابادی فلسفے کیلئے اور مولوی الیاس برنی اقتصادیات کے ترجمہ اور تالیف کے لئے مامور تھے ۔
مولانا عبدالماجد دریابادی جب حیدرآباد آئے تھے تو ان کے مذہبی عقائد کے بارے میں علماء کو اختلاف تھا لیکن بعد میں اُن کے کارہائے نمایاں کے عوض ان کو حکومت آصفیہ سے ماہانہ وظیفہ مقرر ہوا ۔ مولانا عبدالماجد دریابادی کو مفسر قرآن بننے کی سعادت بھی حاصل ہوئی ۔
مولانا ظفر علی خاں نہ صرف ایک بہترین شاعر بلکہ نہایت دلیر صحافی بھی تھے۔ انہوں نے عدالت میں مترجم کے فرائض انجام دیئے ۔ مولانا ظفر علی خاں کی برٹش گورنمنٹ سے ہمیشہ ٹھنی رہتی تھی ۔ برطانوی حکومت کے کہنے پر مولانا کو حیدرآباد چھوڑنا پڑا لیکن آصف سابع نے اپنی مجبوریوں کے باوجود ظفر علی خاں اور ان کے فرزند کی ہر ممکن مدد کی ۔ مولانا ظفر علی خاں آصف سابع کے اتالیق رہ چکے تھے اور آصف سابع اپنے استاد کی نہ صرف عزت کرتے تھے بلکہ ناسازگار حالات کے باوجود استاد کیلئے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتے تھے ۔

ریاست حیدرآباد کی دریا دلی کی ایک مثال حیدر نظم طبا طبائی بھی تھے جن کو ان کی مقررہ تنخواہ اور پنشن کے علاوہ اُن کی اعلیٰ صلاحیتوں کے اعتراف میں تین ہزار روپئے کا انعام بھی دیا گیا ۔
مولانا عبداللہ عمادی بھی ایک بے مثال عالم تھے ۔ ان کی خدمات سے بھی دارالترجمہ کو بہت فائدہ ہوا ۔ مشہور ادیب اور ناول نگار مولوی عبدالحلیم شرر کو آصف سابع کی سوانح عمری لکھنے کیلئے بلایا گیا تھا اور تمام سرکاری دفاتر کو ہدایات دی گئی تھیں کہ آصف سابع کے عہد کے کارناموں کی تفصیلات انہیں فراہم کی جائیں لیکن جب عبدالحلیم شرر کا نام تاریخ اسلام لکھنے کیلئے پیش ہوا تو آصف سابع نے اپنی سوانح عمری کا کام رکوادیا اور عبدالحلیم شرر کو تاریخ اسلام لکھنے کیلئے مامور کردیا ۔ اس سے بھی آصف سابع کے کردار کی بلندی کا اندازہ ہوتا ہے ۔ کتاب کے آخری مضمون میں جوش ملیح آبادی کے دارالترجمہ میں تقرر اور ناظر ادبی کے طور پر خدمات انجام دینے کا ذکر ہے ۔ جوش صاحب یہاں تقریبا ً دس سال برسر کار رہے لیکن اعلیٰ حضرت کی سالگرہ کے موقع پر انہوں نے ایک نظم ’’جشن سالگرہ‘‘ کہی تھی جو ایک روزنامہ میں شائع ہوئی تھی ۔

نظم کا آخری شعر تھا     ؎
کبھی جوش کے جوش کی مدح فرما
کبھی دلبروں کی ثنا خوانیاں کر
یہ شعر آصف سابع کو بہت ناگوار گزرا۔ پہلے سے بھی جوش صاحب کی شخصی زندگی کے بارے میں شاہِ دکن کو اطلاعات مل رہی تھیں اور وہ ناخوش تھے۔ اعلیٰ حضرت میر عثمان علی خاں نے اُن کو حیدرآباد سے چلے جانے کے احکامات صادر کردیئے ۔ اس کے بعد جوش صاحب نے بارگاہِ خسروی میں مختلف  ذرائع سے حیدرآباد میں دوبارہ داخلے کیلئے گزارشات پیش کیں لیکن نواب میر عثمان علی خاں آصف سابع نے ان کو ریاست میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی۔ بالآخر جب 1948 ء میں ریاست حیدرآباد انڈین یونین میں ضم ہوگئی تو جوش 1951 ء میں حیدرآباد آئے۔
یہاں تک میں نے ڈاکٹر سید داؤد اشرف کی نہایت عمدہ اور معلوماتی کتاب ’’مشاہیر دارالترجمہ جامعہ عثمانیہ ‘‘ پر تبصرہ لکھا ہے جس سے آپ کو کتاب کی افادیت کا اندازہ ہوا ہوگا۔
اب آخر میں مجھے اجازت دیجئے کہ میں جوش صاحب کی وہ نظم پیش کردوں جو 1951 ء میں جوش نے سلطنت آصفیہ کے ہندوستان میں ضم ہوجانے کے بعد دوبارہ حیدرآباد آنے پر کہی تھی اور یہاں ان کے اعزاز میں منعقدہ ایک مشاعرے میں سنائی تھی ۔ یہ نظم انہوں نے فی البدیہ دہلی سے حیدرآباد آتے ہوئے ہوائی جہاز میں دوران سفر کہی تھی ۔ یہ حیدرآباد اور اہل حیدرآباد کو جوش کا خراج بھی ہے اور اس شہرِ نگاراں سے جوش کی محبت کا ثبوت بھی ۔

حیدرآباد اے نگارِ گل بداماں السلام
السلام اے قصہ ماضی کے عنواں السلام
میرے قصرِ زندگی پر اے دیارِ محترم
تونے ہی کھولا تھا ذوقِ علم کا زریں علم
تو نے ہی بندے کو بخشی تھی کلید اسرار کی
تونے ہی زلفیں سنواری تھیں مرے افکار کی
ولولوں میں تیرے نغموں کی روانی آئی تھی
تیرے باغوں میں ہوا کھا کر جوانی آئی تھی
السلام اے بزم یاراں اے دیارِ دوستاں
آج اٹھارہ برس کے بعد آیا ہوں یہاں
دہی ہے رخشِ عمر کو گردوں نے اک مدت میں ایڑ
کل جواں رخصت ہوا تھا آج پلٹا ہوں ادھیڑ
آج کھچڑی بال ہیں اور شکل مرجھائی ہوئی
کل تھی اس سرپر جوانی کی گھٹا چھائی ہوئی
آج آب و رنگ ویراں چشم و ابرو ہیں تباہ
کل نہ اس چہرے سے ہٹتی تھی حسینوں کی نگاہ
حیف یہ لب جن میں اب باقی نہیں آب و نمک
کل تلک آتی تھی ان سے سرخ ہونٹوں کی مہک
کیا بتاؤں اے دکن میں زشت ہوں یا خوب ہوں
شہر کا محبوب ہوں اور شاہ کا معتوب ہوں
لیکن اے میرے چمن میری جوانی کے چمن
اے دکن نسریں دکن سنبل دکن سوسن دکن
تجھ میں مخلصاں ہے مرے دل کی جوانی آج بھی
ہر فشاں تجھ میں ہے میری نوجوانی آج بھی
اب بھی ہے عثمان ساگر کی ہواؤں میں خروش
اب بھی آتی ہیں پہاڑوں سے صدائیں جوش جوش
اس فضا میں ہے قیامت کا ترنم آج بھی
ثبت ہے اک دشمن جاں کا تبسم آج بھی
ولولے ناچے تھے جو گھنگھرو پہن کر پاؤں میں
آج بھی رقصاں ہیں تیری بدلیوں کی چھاؤں میں
آو سینے سے مر ے لگ جاؤ یاران دکن
پیشتر اس کے کہ روئے جوش کو ڈھانپے کفن