کچرے کی نکاسی مشکل انٹرنیٹ کی فراہمی آسان

تلنگانہ/اے پی ڈائری           خیر اللہ بیگ
نئی ریاست کے نئے مسائل پیدا ہونا غیر متوقع واقعہ نہیں ہوتا۔ حکمراں طبقہ مضبوط ارادوں کا حامل ہو تو مسائل کو حل کرنے کی ترکیب سوچتا ہے۔ تلنگانہ کا حکمراں اسی مضبوط ارادوں کے ساتھ اپنی حکومت کا ایک سال تو مکمل کرلیا ہے مگر ریاست کی مالی حالت کے بارے میں جو رپورٹ آرہی ہے وہ افسوسناک و تشویشناک ہے۔ ریاست کی آمدنی سے زیادہ اخراجات ہوں تو نظم و نسق چلانا شکل ہوتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق نئی ریاست تلنگانہ مالی بحران سے دوچار ہے۔ ماہانہ 4000 کروڑ روپئے کی آمدنی ہے۔ اور اخراجات دوگنے ہوگئے ہیں۔ حکومت کو ایک طرف اپنے انتخابی وعدوں کی تکمیل کے لئے کوشش کرنا ہے تو دوسری طرف مالی حالات کو بہتر بنانا ہے۔ اندھادھند انتخابی وعدوں کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لوگوں کو مایوسی ہوجاتی ہے۔ شہر اور اضلاع میں بلدی ملازمین کی تنخواہوں اور ان کے مطالبات کی یکسوئی میں ناکام حکومت عوام کو انٹرنیٹ کی سہولتیں فراہم کرنے کے منصوبے بنارہی ہے۔ ہر ایک گھر سے کچرے کی نکاسی کو یقینی بنانے میں ناکام حکومت اب ہر گھر کو انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کرنے جارہی ہے۔ آئی ٹی سکریٹری جیش رنجن نے یہ خوشخبری سنائی ہے کہ ریاست میں ہر ایک گھر اور ہر فرد کو انٹرنیٹ کی سہولت دی جائے گی۔

تلنگانہ کو اسمارٹر ریاست بنانے کا خواب قابل ستائش ہے مگر جس ریاست کے گھر اور گلی کوچے کوڑے دان میں تبدیل ہوں تو وہاں عصری سہولتوں کی باتیں مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہیں۔ 4G سرویس فراہم کرنے والی حکومت کچرے اٹھانے کے لئے شہریوں فور وہیلر گاڑیاں فراہم کرنے سے قاصر ہے اس لئے وہ خانگی ڈرائیورس کی خدمات حاصل کرتے ہوئے کالونیوں اور محلوں گھروں سے کچرے کو اٹھانے کے اقدامات کرنا چاہتی ہے اس میں بھی ناکام ہے جبکہ ہر گھر سے کچرے کی نکاسی کے لئے ماہانہ 50 روپئے تا 100 روپئے وصول کئے جاتے ہیں۔ اس کے باوجود کچرہ اٹھانے والوں کا بندوبست حکومت کے بس میں نہیں ہے۔ وہ صرف کیبل وائروں کو بچھاکر سڑکوں کو کھد کھد کر چھلنی کرتے ہوئے شہریوں کو انٹرنیٹ فراہم کرنے کوشاں ہے۔ عوام کو پینے کے پانی کی سربراہی کا مسئلہ دیرینہ ہے اس کی جانب توجہ نہ دے کر دیگر سطحی کاموں پر رقم خرچ کرنے سے عوام کو یہ اندازہ ہوجائے گا کہ تلنگانہ کی باگ ڈور سنبھالنے کے لئے ایسے لیڈر منتخب کر کے انھوں نے غیر ضروری توقعات وابستہ کرکے اپنا خسارہ کرلیا ہے۔ حکومت کو بھی اپنے عوام کی عادتوں کا اندازہ ہے اس لئے وہ عوام کے یقین کو پسپاں کرکے ہی پالیسیاں بناکر بے وقوف بنانے کی چادر اوڑھارہی ہے۔ جب ریاست میں عوام کی اکثریت فلم دیکھنے کے لئے ملٹی پلکس میں پانچ سو روپئے کا ٹکٹ خریدتے ہیں اور بلیک مارکٹنگ میں 1000 روپئے میں ٹکٹ خرید کر اپنی تفریح کا انتظام کرتے ہیں اور فیس بک، واٹس آپ پر اپنی پسند کی باتیں اب لوڈ کرکے یا چھوٹے چھوٹے بچوں کو سیاستدانوں کے خلاف گالیاں سکھاکر اور انہیں ریکارڈ کرکے سوشیل میڈیا پر اپ لوڈ کرکے کہیں کہ ’’اب بچوں میں بھی شعور آگیا ہے تو‘‘ تو پھر سیاستدان کی حالت کیا ہوگی۔

جس ریاست اور شہر میں لوگ احتجاجی طور پر ٹریفک سگنل کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ ہی ٹریفک پولیس کو گالیاں دے کر گاڑیاں ہوا کے مانند اڑاتے ہیں اور سڑک حادثوں کو دعوت دیتے ہیں۔ موٹر سیکل پر کرتب دکھاکر فخر محسوس کرتے ہیں۔ راتوں میں چبوتروں  پر جاگ جاگ کر اپنے مستقبل کو تباہ کرتے ہیں۔ مسلم محلوں کی مساجد رمضان کے بعد سنسان ہوگئی ہیں اور جس ریاست اور شہر کے مسلم قائدین محض اپنی شان میں قصیدے سننے کو پسند کرتے ہیں، یعقوب میمن کو پھانسی دی جانے کی مخالفت کرتے ہیں اور جب پھانسی دی جاتی ہے تو اف اور افسوس تک نہیں کرتے۔ احتجاج درج کرانے کے لئے لوگ گھروں سے نہیں نکلتے ہوں تو اس کو مردہ قوم قرار دیا جائے تو آگ بگولہ کیوں ہوتے ہیں۔ پولیس ظلم کے سامنے تھرتھر کانپ کر لوگ ان سیاستدانوں کو گالیاں دینے کے باوجود ان کا لیڈر بند کمرے سے باہر نہ نکلے اور انٹرنیٹ پر Sunny Leone کی تصاویر کو دیکھ کر لطف اندوز ہوجاتا ہے اور  یعقوب میمن کی پھانسی کے وقت کو فراموش کرتا ہے تو ایسے لیڈر کی وقت کیا ہوگی۔ مسلم طلبہ کی اسکالرشپ نہیں ملتی ہے تو اس پر احتجاج نہیں ہوتا۔ بیرونی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے 10 لاکھ روپئے  اسکالرشپ دینے کا وعدہ کرکے آن لائین درخواستوں کے ادخال کے عمل کو بلاک کردیا جاتا ہے

اور مختلف عہدیداروں کی شرارتوں کو خاموشی سے برداشت کرلیا جاتا ہے تو اس طرح کے واقعات پر حیرت کیوں نہیں ہوتی ہے ۔ پھر عوام کو یہ معلوم کیوں نہیں ہوتا کہ ہمارے لیڈروں اور حکمرانوں کے بیانات اور اقدامات میں اس قدر احمقانہ تضاد کیوں ہوتا ہے۔ جس طرح عوام اپنے مسائل کی یکسوئی میں ہی تضادات کا شکار ہیں تو ایسے میں تضادات سے بھرپور عوام اپنا خسارہ خود کرلیتے ہیں اور ان کے گھروں سے کچرا اٹھانے سے بھی حکومت قاصر ہوجاتی ہے۔ تو پھر اس ریاست اور شہر کے عوام کو تماش بین اور ان کے لیڈروں کو جملے باز یا  لفاظ قائدین ہی کہا جانے لگے گا۔ بلاشبہ جس  ریاست اور شہروں میں عوام کے مزاج میں تماش بینی آجائے تو پھر دلیل دینے کے بجائے ان کے سامنے لفاظ لیڈروں کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ حکومت کی سطح پر یہی لفاظ لیڈر اپنا کام آسان کرلیتے ہیں۔ عوام کے حصہ میں مالیاتی بحران کی خبریں آتی ہیں۔ جس ریاست کا ماہانہ خرچ 8000 کڑور روپئے ہو اور آمدنی صرف 4000 کروڑ روپئے ہو تو اتنا فرق کس طرح دور ہوگا۔ حکومت کے نظم و نسق میں کیڑے نکالنے والے اپنی مدلل بات چیت سے بھی حکومت کو بیدار کرنے میں ناکام ہوں گے۔ ہر پارٹی کا لیڈر ایک ہی بات سچ بولتا ہے کہ مخالف یا حریف لیڈر چھوٹ بول رہا ہے۔ یہی جھوٹ اور سچ کی لفاظی میں سرکاری نظم و نسق کراہیت، بدنظمی کا شکار ہوجاتی ہے۔ یکساں شخصی اصولوں پر استوار سیاسی پارٹیوں میں چاہے وہ تلنگانہ راشٹرا سمیتی کے لیڈر ہوں یا تلگودیشم ، کانگریس کے قائدین ہوں اپنے سیاسی مسلک  اور شخصیت پرستی میں ہی مگن رہتے ہیں۔ تلنگانہ بنائے جانے سے پہلے مالیہ پر نظر رکھنے والوں کا کہنا تھا کہ صرف حیدرآباد شہر کی آمدنی سے حاصل ہونے والے مالیہ سے ساری ریاست کا نظم و نسق چلایا جاسکتا ہے۔ مگر اب اس کا الٹا اثر دکھایا جارہا ہے۔ سرکاری اخراجات اور آمدنی میں فرق بتانے والوں کی نیت یہ ہے کہ عوام کو خبردار کیا جائے کہ حکومت کا خزانہ خالی ہے۔ اس خالی خزانہ کے ساتھ حکومت شہر حیدرآباد کے تاریخی دواخانہ عثمانیہ ہاسپٹل کے مریضوں کو مختلف ہیلتھ سنٹرس کو منتقل کررہی ہے۔ حکومت کا یہ عمل عاقل و دانا کی نوعیت میں ہرگز نہیں آتا مگر عوام کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر حالات اپنے خفیہ  مقاصد کو روبہ عمل لانے دوڑ  لگا رہی ہے۔ اس کے ہر فعل  کے پس پردہ کوئی منطق ضرور ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کا سربراہ عاقل دانا ہونے کا ثبوت دینا چاہتا ہے اور نہ ہی عوام شعور کا مظاہرہ کرنا چاہتی ہے۔ الٹ پلٹ کا کھیل ریاست تلنگانہ کو دوبارہ آندھرائی قیادت کے سپرد کرنے کا بہانہ مل جائے گا اور عوام تماش بین ہی رہیں گے۔
kbaig92@gmail.com