کوٹہ کے حصول کیلئے مسلمانوں نے کیا کیا…

تلنگانہ / اے پی ڈائری     خیراللہ بیگ
ملک کی مردم شماری کے ڈاٹا کے مطابق مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ ہورہا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ مرکز کی نریندر مودی حکومت نے مذہب کی بنیاد پر آبادی کا تناسب ظاہر کیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس میں بھی کوئی سیاسی چال ہو۔ اکثریتی طبقہ کو اکسانے یا انہیں مشتعل کرنے کی کوئی ترکیب ہو۔ اپوزیشن نے مودی حکومت کی اس حرکت پر تنقیدیں بھی کی ہیں۔ ملک میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ کی خبر کے بعد تلنگانہ اور آندھراپردیش میں مسلمانوں کی جملہ آبادی کا درست اندازہ کرلیا جائے تو تلنگانہ میں 44 لاکھ سے زائد مسلم آبادی ہے اور آندھرا میں مسلمانوں کی آبادی تلنگانہ سے کم ہے۔ لیکن خوشحالی اور ترقی کی صف میں آندھرا کے مسلمانوں کو تلنگانہ کے مسلمانوں سے بہتر بتایا جارہا ہے۔ تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد میں مسلمانوں کی آبادی 21 لاکھ سے زائد ہے۔ جبکہ ہندوئوں کی آبادی کے بارے میں مردم شماری کے ڈاٹا کو مشتبہ ظاہر کیا گیا ہے۔ جب سے مودی حکومت آئی ہے مسلمانوں کی کنڈلی نکالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ طرح طرح کے واقعات ہورہے ہیں۔ تلنگانہ میں کے سی آر نے مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات دینے کا وعدہ کیا تھا یہ وعدہ قطعی وفا نہیں ہوسکتا جس کی تصدیق اقلیتی پیانل کے ذمہ داروں نے بھی کردی ہے کیوں کہ کسی طبقہ کو 12 فیصد تحفظات دینے کی بات کرنا آسان ہے لیکن اس پر عمل آوری مشکل ترین ہے۔

تلنگانہ اور ملک کے دیگر ریاستوں میں بھی یہی ہورہا ہے مگر گجرات ایک ایسی ریاست ہے جہاں پٹیل طبقہ نے حکومت کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ گزشتہ دنوں ہاردک پٹیل نامی 21 سالہ نوجوان کی ریالی اور اس کے بعد پرتشدد واقعات سے مسلمانوں کی آنکھ کھل جانی چاہئے کہ آبادی کے لحاظ سے 1.90 کروڑ پٹیل برادری نے اپنے لئے کوٹہ کا مطالبہ کرتے ہوئے ریاستی سطح سے لے کر مرکز تک حکومت کے ایوانوں کو ہلاکر رکھ دیا مگر مسلمان خاص کر تلنگانہ کے مسلمانوں کی آبادی 44 لاکھ سے زائد ہونے کے باوجود وہ ٹی آر ایس حکومت کو اس کے وعدوں کی تکمیل کی جانب زور دینے کی ہمت ہی نہیں کرسکتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ تلنگانہ تشکیل پاتے ہی چیف منسٹر کے چندر شیکھر رائو سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کو تحفظات دینے کی موثر کارروائی کرتے، مگر دیڑھ سال حکمرانی کے دوران مسلمانوں سے صرف وعدے ہی کئے جارہے ہیں۔ 12 فیصد تحفظات کی بات حکومت کی پالیسی کی کچی دیوار پر ہی لٹکی ہوئی ہے۔ اس ملک میں مسلمانوں کو جب قومی سطح سے لے کر ریاستی سطح تک حکومت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے تو اس کے خلاف آواز اٹھانے کی بھی مسلمانوں میں ہمت نہیں ہوتی۔ گجرات کے پٹیل برادری کے لوگ تعداد میں کم ہونے کے باوجود اپنے اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے 21 سال کے نوجوان کی آواز پر جمع ہوجاتے ہیں لیکن مسلمانوں کی قیادت کا دعوی کرنے والے اپنے طبقہ کے لوگوں کو ترقی کی راہ سے محروم کرنے میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔ حکومت تک رسائی حاصل کرنے اور مسلمانوں کے نام پر اپنے حصہ کا سودا کرنے کے بعد حکومت حقیقی طور پر مسلمانوں کو کچھ نہیں دیتی کیو ںکہ ان کے نام پر ان کے لیڈروں نے اپنا حصہ حکومت سے پہلے ہی حاصل کرلیا ہوتا ہے جس کے بعد ساری قوم کو بلند بانگ دعوئوں اور جذبات کی لوری دے کر سلایا جاتا ہے۔ حیدرآباد میں 21 لاکھ مسلمان ہیں مگر ان کی قسمت ایک واحد قیادت کے مفادات کے ستون سے بندھی ہوئی ہے۔ جو قیادت مسلمانوں کے نام پر اندھادھند دولت کی مالک بنتے جارہی ہے۔ مسلمانوں کو کنگال کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ اب مسلمانوں کے نام نہاد قائدین ان کے مذہب اور عقائد پر بھی حملے کررہے ہیں۔ بی جے پی حکومت کے پٹھو مسلم قائدین نے حال ہی میں کہا تھا کہ گائے کا گوشت کھانے کے خواہش مند پاکستان چلے جائیں۔ مختار عباس نقوی کے اس مشورہ پر مسلمانوں نے کوئی خاص ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ انہوں نے ہندوئوں کے عقیدے اور ایمان کے سامنے مسلمانوں کو اپنے ایمان اور عقیدے کو ترک کرنے کا بالواسطہ مشورہ دیا تھا۔ مسلمان ہونے کے باوجود بی جے پی کے وزیر نے اپنے عقیدے اور ایمان پر ہندوئوں کے عقیدے کو ترجیح دی ہے۔ ان کے مشورہ پر عمل کرتے ہوئے کیا مسلمانوں کو اپنے اوپر گائے کے گوشت کو حرام کرلینا چاہئے؟ معاشرہ میں کتنی ہی ایسی چیزیں ہیں جو کسی کے ہاں حلال تو کسی کی نظر میں حرام ہیں۔ مگر کوئی کسی کو مجبور نہیں کرسکتا کہ وہ اس کے موقف کو اپنا لے۔ جس ملک میں فرقہ پرست قائدین کو اقتدار ملتا ہے اور مسلمانوں کے قائدین اس اقتدار کی پوجا کرتے ہیں تو مسلمانوں کیلئے مسائل ہی مسائل ہوں گے۔ یہاں مسلمانوں کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

غداروں نے ہمیشہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے ۔ حیدرآباد میں مسلمانوں کی آبادی زائد ہونے کے باوجود وہ حکومت اور نظم و نسق کے رحم و کرم پر ہے۔ پولیس سب سے زیادہ مسلمانوں کو ہی اذیت دیتی ہے۔ سرکاری دفاتر میں عہدیدار مسلمانوں کے مسائل اور کاموں کی انجام دہی میں کوتاہی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ مسلم محلوں میں برقی کا مسئلہ ہو یا پانی یا ڈرنیج کا پرابلم تو یہاں شکایت کرنے کے باوجود کئی ہفتوں تک اسکا ازالہ نہیں ہوپاتا۔ یہی شکایت کسی ہندو بستی سے آتی ہے تو نظم و نسق کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں اور منٹوں میں کام ہوجاتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ان کے لیڈروں میں اپنی قوم کے لئے کام کرنے کا جذبہ اور حوصلہ ہے۔ جن مسلمانوں نے تلنگانہ تحریک میں بڑھ کر حصہ لیا انہیں اب تک کیا ملا، کچھ نہیں۔ تلنگانہ کی شروع سے آخر تک مخالفت کرنے والی مسلم نام نہاد قیادت تلنگانہ بنتے ہی حکمراں سے ہاتھ ملالیا اور حکمراں نے بھی ایک لیڈر کو اپنابناکر سارے مسلمانوں کو انگوٹھا دکھادیا اور اب تلنگانہ کے مسلمان 12 فیصد تحفظات کے خواب میں ہی جھول رہے ہیں۔ دیگر مسائل تو جوں کا توں ہیں۔ جب قدیم اردو میڈیا سے آواز اٹھتی ہے تو حکومت بوکھلاہٹ میں آکر سطحی امدادوں کا اعلان کرتی ہے۔ مسلمانوں کو دکھانے کے لئے آئمہ کرام ، موذنوں  کو 1000 روپئے پنشن کا اعلان کیا تو مسلم لڑکیوں کے لئے شادی اسکیم کے لئے 50 ہزار روپئے کا اعلان کیا مگر اس پر عمل آوری کا ڈاٹا افسوسناک ہے۔ مسلم ماں باپ اپنی اولاد کو بہتر سے بہتر تعلیم دلانا چاہتے ہیں مگر خانگی اسکولوں اور کالجوں میں من مانی فیس وصول کی جارہی ہے تو اس پر کڑی کارروائی کرنے اور ایک ضابطہ مرتب کرنے کی حکومت نے کوئی پہل نہیں کی۔ مسلمانوں میں تعلیمی ترقی کو یقینی بنانے کے لئے ضروری ہے کہ عملی اقدامات کئے جائیں۔ عملی اقدامات کے طور پر سائوتھ زون پولیس نے پرانے شہر میں چبوترہ مشن کو کامیاب بنانے کی کوشش شروع کی ہے آوارہ گردی  کرنے والے مسلم بچوں کو راہ راست پر لانے کی اس کوشش کے نتیجہ میں ماں باپ کو راحت مل رہی ہوگی ، اب ان کی اولاد رات دیر گئے تک محلے کے کسی چبوترے پر نہ بیٹھ رہی ہے۔ اس مہم کے عوض کئی بچے اپنے گھروں کو شام سے ہی واپس ہوتے ہوں تو پولیس کے لئے یہ بڑی کامیابی ہے۔ بچوں کو سدھارنے کے لئے جس طرح کی دیانتداری کا مظاہرہ کیا جارہا ہے ایسا کام کرنے ہر محکمہ اور گوشے کو آگے آنے کی ضرورت ہے۔ بچوں کو بھی اپنی عادتوں میں تبدیلی لانے ماں باپ کی بزرگی کا خیال کرنے کی جانب توجہ دینا چاہئے۔ بچوں کے بیجا مطالبات من مانی خواہشوں کے سامنے ماں باپ کو بھی خود سپردگی اختیار کرنے سے گریز کرنا ہوگا مگر اولاد کی خاطر والدین بیجا لاڑ پیار کے آڑ میں بچے کو ضدی بنادیتے ہیں، نتیجہ میں بچہ ہر جائز و ناجائز خواہش کے لئے ماں باپ کو اپنی ضد سے جھکانے کی کوشش کرتا ہے۔ گزشتہ ہفتہ میں نے فیس بک اور واٹس اپ کے پیغامات کا ذکر کیا تھا۔ ایسے ہی ایک واٹس اپ پیام میں دل کو چھولینے والی کہانی پوسٹ کی گئی تھی جس کو آپ بھی ملاحظہ کیجئے۔ یہ کہانی دیگر اخبارات و رسالوں میں بھی شائع ہوئی ہوگی۔ آپ میں سے کسی نے پڑھا ہوگا ۔جن کی نظر اس کہانی تک نہیں پہونچی اس کے مطالعہ سے ان کی آنکھیں بھی ضرور نم ہوں گی۔

’’میں شدید غصہ میں گھر سے چلا آیا… اتنا غصہ تھا کہ جلدی میں اور غلطی سے بابا کے جوتے پہن کے نکل آیا۔ میں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ میں آج بس گھر چھوڑدوں گا اور واپس تب ہی آئوں گا جب بہت بڑا آدمی بن جائوں گا… جب موٹر سیکل نہیں دلواسکتے تھے تو کیوں انجینئر بنانے کے خواب دیکھتے ہیں… آج میں بابا کا پرس بھی اٹھالایا تھا… جسے کسی کو ہاتھ تک نہ لگانے دیتے تھے… مجھے پتہ ہے اس پرس میں ضرور پیسوں کے حساب کی ڈائری ہوگی… پتہ تو چلے کتنا مال چھپا ہے… ماں سے بھی… کبھی ہاتھ نہیں لگانے دیتے کسی کو … جیسے ہی گھر سے نکل کر نکڑ سے ہوکر سڑک پر آیا مجھے لگا جوتوں میں کچھ چبھ رہا ہے… میں نے جوتا نکال کر دیکھا… میری ایڑی سے تھوڑا سے خون رس رہا تھا … جوتے کی کوئی کیل نکلی ہوئی تھی۔ درد تو ہوا پر غصہ بہت تھا… اور مجھے جانا ہی تھا گھر چھوڑ کر… جیسے ہی کچھ دور چلا… مجھے پائوں میں گیلا گیلا لگا، سڑک پر پانی پھیلا پڑا تھا… پائوں اٹھاکر دیکھا تو جوتے کی تلی چھٹی ہوئی تھی… جیسے تیسے لنگڑا کر بس اسٹاپ پہنچا تو پتہ چلا کہ ایک گھنٹہ تک کوئی بس نہیں آئے گی۔ میں نے سوچا کیوں نہ پرس کی تلاش لے لی جائے… میں نے پرس کھولا، ایک پرچی دکھائی دی، لکھا تھا… لیپ ٹاپ کے لئے 40 ہزار قرض لیا… پر لیپ ٹاپ تو گھر میں میرے پاس ہے؟؟؟ پرچی کے ساتھ ایک اور کاغذ کا ٹکڑا دیکھا… کھولا تو اس میں بابا کے آفس کی کسی شوق ڈے کے بارے میں لکھا تھا… بابا نے اپنے شوق کے بارے میں لکھا اچھا جوتا پہننا… اوہ … اچھے جوتے پہننا؟؟! پر ان کے جوتے تو !!!… ماں گزشتہ چار ماہ سے ہر پہلی کو کہتی نئے جوتے لے لو… اور وہ ہر بار کہتے ابھی تو چھ ماہ جوتا اور چلایا جائیگا…‘‘ میں اب سمجھا کتنا عرصہ جوتا چل سکتا ہے۔ تیسرے پرنٹیڈ کاغذ پر لکھا تھا… پرانا اسکوٹر دیجئے بدلے میں نئی موٹر سیکل لے جائیں… یہ پڑھتے ہی دماغ گھوم گیا… بابا کا اسکوٹر … اوہ … میں گھر کی طرف بھاگا… اب پائوں میں وہ کیل نہیں چبھ رہی تھی… میں گھر پہنچا … نہ بابا تھے نہ اسکوٹر… میں سمجھ گیا… کہاں گئے… میں بھاگا… اور ایجنٹ کے پاس پہنچا… بابا وہیں تھے… ان کو گلے لگایا… آنسوئوں سے ان کا کندھا بھیگ گیا… نہیں … بابا نہیں… مجھے نہیں چاہئے موٹر سیکل… بس آپ نئے جوتے لے لیں… مجھے اب بڑا آدمی بننا ہے… وہی آپ کے طریقے سے…

باپ کی تکلیفوں کو محسوس کرنے والی اولاد ہی اپنی زندگی کو روشن اور مستقبل کو تابناک بنانے کی فکر سہی حاصل کرسکے گی۔
kbaig92@gmail.com