کون سنتا ہے فُغانِ درویش …!

 

تلنگانہ ؍اے پی ڈائری         خیر اللہ بیگ
شہر میں بچہ مزدوری کے خلاف پولیس اورمحکمہ بہبود اطفال و خواتین کی چوکسی کے باعث آئے دن کئی کارخانوں، اینٹوں کی بھٹیوں، ہوٹلوں، پلاسٹک کے گوداموں اور دیگر مقامات سے سینکڑوں بچوں کو آزاد کرالینے کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ بچوں سے کام لے کر کم اجرت دینے کی کوشش میں ملوث تاجروں، ٹھیکداروں اور بیوپاریوں کا استدلال مختلف ہوتا ہے۔ وہ ان بچوں کو مزدوری دے کر ان کے گھر چولہا جلانے کا بندوبست کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ پرانے شہر میں اکثر یہ خبریں ظاہر ہوتی ہیں کہ پولیس نے فلاں ٹھکانے پر دھاوا کرکے مزدوری کرنے والے بچوں کو آزاد کرالیا ہے اور انہیں یا تو ریسکیو ہوم میں شریک کیا گیا یا پھر ان کے والدین کے حوالے کیا گیا، مگر اس کے بعد کی زندگی میں کوئی نہیں جھانکتا۔ غریب معاشرہ میں ناانصافیوں کی صدائیں تو لگائی جاتی ہیں پھر بچوں کو غلام بنائے رکھنے کا عمل برقرار بھی رہتا ہے۔ اسکول ترک کرنے والوں کو روزانہ کی مزدوری پر رکھ کر کام لیا جاتا ہے۔ بھٹی میں کام کرنے والے بچے ہوں یا خاندانی غلام، امیروں کے اس معاشرہ میں پِسی ہوئی غربت، کچھ پیسوں کیلئے بچوں کو گروی رکھنے والے والدین، گھروں سے در بدر ہونے والے بچے، کسی بم دھماکے میں مرنے والے کے لواحقین، کسی لاپتہ فرد کے گھروالے، کوئی جیل میں بے گناہی کی سزا کاٹنے والوں کے خاندان دو وقت کی روٹی کے لئے در در بھٹکنے کے واقعات ہم دیکھتے اور پڑھتے آرہے ہیں۔
اس سفاک دنیا میں برپا ہونے والی ناانصافیوں کی فہرست طویل ہوسکتی ہے لیکن اپنا محاسبہ کرنے والوں کی فہرست کم ہوگی۔ تلنگانہ کی موجودہ حکومت ہو یا سابق آندھرائی تسلط والی حکمرانی، کسی نے بھی معاشرہ کی دردناک اصل غربت کو دور کرنے کی ہمت ہی نہیں دکھائی۔ یہ غربت ایک غریب خادمہ، گھروں میں جاروب، پوچا کرنے والی خواتین اور ان کے گھر کے اندر کی زندگیوں کو ٹٹولنے والی ہمدرد آنکھیں اور انگلیاں ابھی بیدار نہیں ہوئی ہیں۔ ایسے لوگوں کو دن رات کام کرنے کو 24/7 کسے کہتے ہیں کا مطلب بھی نہیں معلوم ہوگا۔ ان لوگوں کی زندگی کے چوبیس گھنٹے اور ہفتے کے سات دن گذرتے ہیں۔ تاہم حکومت تلنگانہ کے کئی محکموں نے ان بچہ مزدوری کی باز آبادکاری کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ ’ آپریشن مسکراہٹ ‘ کے حصہ کے طور پر یہ عہدیداروں نے کارروائی کرتے ہوئے حال ہی میں 300 افراد کو غلامی کی زندگی سے آزاد کروایا۔ ان میں 143 بچے بھی تھے۔ ضلع نلگنڈہ میں کئے گئے دھاوے کے بعد آزاد ہونے والے بچوں کو اسکول میں شریک کروایا گیا۔6 سال کی عمر کے بچے جنہیں آنگن واڑی میں رکھا گیا ہے۔ حیدرآباد پولیس نے حالیہ دنوں میں بہت اچھے کام کرکے سماج کی غلامانہ خرابیوں کو بے نقاب کیا ہے۔ لیکن ان آزاد کردہ بچوں کی بازآبادکاری کیلئے حکومت نے کوئی خاص تیاری نہیں کی اور نہ ہی کوئی موثر انتظام کیا گیا ہے۔ یہ بچے کام سے چھٹکارا پانے کے بعد اسکول تو جارہے ہیں مگر اپنے ٹیچرس سے بات کرنے سے بھی قاصر ہیں کیونکہ اسکولوں میں ٹیچرس کی قلت ہے اور انہیں فراہم کیا جانے والا میڈ ڈے میلس بھی وقت پر نہیں پہنچایا جارہا ہے۔
غلامی کی زنجیروں سے آزاد ان بچوں کو کتابیں اور یونیفارم بھی نصیب نہیں ہوتا۔ بچہ مزدوری سے چھٹکارا دلانے میں کامیاب محکموں نے متبادل بازآبادکاری انتظامات میں اپنے تجربات کا مظاہرہ نہیں کیا جس کے نتیجہ میں بچے جب مزدوری کرتے تھے تب انہیں پیٹ بھر کھانا تو ملتا تھا، پہننے کو کپڑے نصیب تھے مگر بازآبادکاری سنٹرس میں یہ سہولتیں برائے نام ہیں۔ حکومت نے خاص کر محکمہ لیبر نے بہت اچھے پروگرام اور منصوبے بنائے ہیںلیکن یہ کس حد تک کامیاب ہوں گے یہ وقت ہی بتائے گا۔ مرکز نے سرواسکھشا ابھیان شروع کیا تھا اس میں کسی حد تک کامیابی ملی ہے ۔ یہ ریکارڈ مصنوعی ہوسکتا ہے یا معنوی بھی ہوسکتا ہے لیکن حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ تلنگانہ کے مختلف اضلاع میں این جی اوز بھی کام کررہے ہیں۔حیدرآباد میں بھی کئی این جی اوز بھلائی و بہبود کے کام انجام دے رہے ہیں۔ ان کی تیار کردہ رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ صرف گھریلو شعبہ میں 40,000 بچے لیبر کا کام کررہے ہیں۔ سخت ترین قانون موجود ہونے کے باوجود جب بچہ مزدوری کے واقعات پائے جاتے ہیں تو یہ محکموں کی لاپرواہی اور سماجی اندھے پن کی علامت ہے۔ اطفال اور خواتین کی بہبود کا دعویٰ کرنے والی حکومتوں کو شاید معاشرہ میں پائے جانے والے غریب بچوں اور ان کی اصل زندگیوں کے حالات کا علم نہیں ہے۔ 15 تا18سال عمر کے بچے 93 فیصدبچے اپنا برتھ ڈے نہیں مناپاتے ، ان میں سے 60فیصد بچوں نے سینما نہیں دیکھا۔ 90 فیصد مزدوربچے ایسے بھی ہیں جو صرف اپنی محنت کی کمائی والدین کو دیتے ہیں اور یہ لوگ ناخواندہ ہوتے ہیں۔
شہر حیدرآباد کی سلم بستیوں کا سروے کرنے والی تنظیموں نے حکومت اور اس کے محکموں کے منہ پر طمانچہ مارنے والی رپورٹس تیار کی ہیں۔ مگر یہ حالات ایسے ہیں کہ کون سنتا ہے فُغانِ درویش‘ کے مترادف ہیں۔ سروے کرنے والوں نے بتایا کہ بہادر پورہ، بالا نگر، راما گنڈم، محبوب نگر میدک میں بچہ مزدوری کرنے والوں نے بتایا کہ انہوں نے اسکول کی صورت نہیں دیکھی ہے۔ حیدرآباد شہر اس ریاست کا دارالحکومت ہے اور سب سے زیادہ بچہ مزدوری یہیں ہوتی ہے۔ حیدرآباد میٹرو پولیٹن ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے تحت والے علاقہ میں اربن چائیلڈ لیبر کی شرح زیادہ ہے۔ یہ پوشیدہ بچہ مزدور خود اپنے حقوق اور مسائل سے نہیں واقف ہوتے ہیں۔ مرکزی وزر لیبر بنڈارو دتاتریہ کا تعلق بھی حیدرآباد سے ہے ان کے شہر میں بچہ مزدوری کی شرح زیادہ ہے تو یہ غور کرنے کی بات ہے۔ انہوں نے حال ہی میں کہا کہ ان کی حکومت نے بچہ مزدوری قانون ترمیم بل کو پارلیمنٹ میں منظور کروالیا ہے۔ اس ترمیمی چائیلڈ لیبر بل سے یہ بتایا گیا ہے کہ 14 سال سے کم عمر کے بچوں سے مزدوری کروانا جرم ہے۔ اس جرم کے مرتکب افراد کو سزا دینے کا حوصلہ نہیں ہے۔ سماجی، معاشی پسماندگی کے خاتمہ کیلئے کئی پروگرام مرتب کرنے والی حکومتیں کئی آئی اور گئیں لیکن یہ پسماندگی اور غربت کا چلن جاری ہے۔ جس معاشرہ میں غربت ہے وہاں کے رہنے والوں پر ذہنی افلاس بھی چھایا رہتا ہے۔ جس خادمہ کی بات کی جارہی ہے وہ صبح 6 بجے سے جاروب اور پوچے کا کام شروع کرتی ہے اس کا نشہ کا عادی شوہر ہے اور گالیاں بکنے کے علاوہ مار پیٹ بھی کرتا ہے۔ طعنہ دینے کیلئے ساس، سسر ہیں اور اس کے ذمہ صبح تا شام نہ ختم ہونے والا پانچ گھروں کا کام ہے۔ صبح سے شام کب ہوتی ہے اسے کبھی پتہ نہیں چلتا۔ اس کی زندگی کے 24 گھنٹے اور ہفتہ کے سات دن عذاب میں گذارتی ہے۔ خادمہ ہونے اور معاشی ابتری کی وجہ سے اس کے بچے بھی غذائی قلت کا شکار ہیں۔ ان کی دیکھ بھال جب درست نہیں ہوتی تو یہ لوگ بچہ مزدوری کرانے والوں کے آگے مجبور ہوجاتے ہیں۔ایسے لوگوں کے اطراف جو سماج پایا جاتا ہے ان میں رہنے والوں کا نظام 3 پہیوں پر رواں ہے، ایک اُمید، انتظار اور اعتماد جیسے حکومت سے انصاف کی اُمید رکھتا ہے۔ امداد یا تحفظات ملنے کا انتظار کرتا ہے اور قیادت پر اعتماد کرتا ہے۔ اسی اعتماد نے معاشرہ کے بچوں کو مزدور بنادیا ہے۔ عوام کا اپنی ولولہ انگیز سیاسی قیادت پر بھرپور اعتماد ہی انہیں پسماندگی کی کھائی سے باہر آنے نہیں دے رہا ہے۔ جو بھی طاقت اقتدار پر آتی ہے تو یہ قیادت بھی کسی خود کار طریقہ سے اس کے قریب ہوجاتی ہے پھر دھاندلیاں، جعلسازی اور خرابیوں کا سہرا سجاکر پھرتے ہیں، ان پر اعتمادکرنے والے اُف تک نہیں کرتے۔ خاموشی سے اپنے بچوں کو مزدوری کی بھٹی میں جھونک کر ا عتماد کی تاریخ کا جھومر بن جاتے ہیں۔
kbaig92@gmail.com