کونسے کالج میں پڑھیں گے تو ہم ہوں گے کامیاب

محمد مصطفیٰ علی سروری
وینکٹ سائی چندرا نے انٹرمیڈیٹ کے امتحانات میں ایم پی سی سے 991 نشانات حاصل کرتے ہوئے شاندار کامیابی حاصل کی۔ قارئین آپ حضرات سوچ رہے ہوں گے انٹرمیڈیٹ کے امتحانات میں سال 2018 ء کے دوران دو لاکھ 65 ہزار طلبہ نے کامیابی درج کی ، ایسے میں وینکٹ سائی چندرا ان میں سے ایک ہے اور اسمیں ایسی کیا بات ہے کہ اس کے متعلق کچھ لکھا جائے اور ہم لوگ اس کو پڑھ کر کچھ سیکھ سکیں؟
جی ہاں آپ لوگ بالکل صحیح سوچ رہے ہیں کہ وینکٹ سائی انٹرمیڈیٹ کامیاب ہونے والے لاکھوں طلباء میں سے ایک ہے لیکن 13 اپریل 2018 ء کو اخبار دی ہندو نے اپنے حیدرآباد ایڈیشن میں وینکٹ سائی چندرا کے متعلق ایک خبر دی ۔ خبر کے مطابق وینکٹ سائی چندرا کا تعلق ایک غریب خاندان سے ہے ۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ وینکٹ کی کامیابی کی خبر اس لئے بھی دلچسپ بن جاتی ہے کہ وینکٹ نے جس کالج سے انٹرمیڈیٹ کی تعلیم حاصل کی ، وینکٹ کی ماں اس کالج کے میس (Mess) طعام خانے میں ترکاریاں کاٹنے کا کام کرتی ہے ۔ وینکٹ کو اس بات پر بالکل بھی شرمندگی نہیں تھی کہ جس طعام خانے میں وہ کھانا کھاتا ہے اس میں اس کی ماں ترکاری کاٹنے اور بنانے کا کام کرتی ہے ۔ وینکٹ نے اخبار دی ہندو کو بتلایا کہ اپنی ماں کو کالج کے طعام خانے میں کام کرتے ہوئے دیکھ کر اس کو مزید تحریک ملتی تھی کہ اسے بہت اچھا پڑھنا چاہئے اور پڑھ لکھ کر اپنے ماں باپ کا سہارا بننا چاہئے ۔ سوریہ پیٹ کے ایک گاؤں سے تعلق رکھنے والا وینکٹ غریب خاندان سے تعلق رکھتا تھا لیکن اس نے غریبی کو پڑھنے میں رکاوٹ نہیں بنایا اور نارائنا کالج حیات نگر میں وینکٹ کو اس شرط پر داخلہ ملا ،وہ اچھے مارکس حاصل کرے گا۔ وینکٹ جانتا تھا کہ آگے بڑ ھنے کیلئے اس کو محنت کرنا ہے سو اس نے خوب محنت کی اور 991 مارکس حاصل کئے۔
قارئین ایسا بھی نہیں کہ وینکٹ کی لاکھوں میں ایک ہی مثال ہے ۔ اخبار ٹائمز آف انڈیا نے 14 اپریل 2018 ء کو ایک خبر تلنگانہ انٹرمیڈیٹ امتحانات کے نتائج پر شائع کی ۔ خبر کے مطابق بی سویتا کا تعلق درج فہرست قبائل طبقے سے ہے ، اس نے ایم پی سی سے انٹرمیڈیٹ کا امتحان اس لڑکی نے 989 مارکس پاس کیا ۔ وہ کہتی ہیکہ غریبوں کی صورتحال سے وہ اچھی طرح واقف ہے اور اس کی زندگی کا مقصد ہے کہ وہ ایک IAS آفیسر بنے اور غریب بے زبان لوگوں کیلئے آواز بلند کرے۔
کے کے راجو کا تعلق بھی ایک متوسط طبقے سے ہے ۔ انٹرمیڈیٹ کے امتحانات میں اس طالب علم نے 992 مارکس حاصل کئے ۔ اس نے اخبار ٹائمز آف انڈیا کو بتلایا کہ میں جب بھی اپنے والد کو دیکھتا ہوں ، ان کی محنت کو دیکھتا ہوں تو میرا اچھا پڑھنے اور آگے بڑھنے کا ارادہ اور بھی مضبوط ہوجاتا تھا ۔ مجھے پوری امید تھی کہ میں بہت اچھے مارکس حاصل کروں گا ۔ میرے کالج کے پرنسپل ہمیشہ میری ہمت افزائی کرتے تھے ۔
آیئے ایک اہم سوال کی طرف لوٹ کر آتے ہیں کہ اچھا نتیجہ حاصل کرنے کیلئے اچھے کالج میں ہی پڑھنا ضروری ہے اور اچھے کالج سے خانگی Private کالجس ہی مراد ہے؟ وہ لوگ جو اچھے ریزلٹ کے لئے صرف پرائیویٹ کالجس کو ہی واحد جگہ مانتے ہیں اور اپنے بچوں کا ان پرائیویٹ کالجس میں داخلہ کروانے کیلئے ہزاروں لاکھوں روپئے خرچ کر ڈالتے ہی ان کیلئے تلنگانہ کے نائب وزیر اعلیٰ کڈیم سری ہری جو کہ وزیر تعلیم بھی ہیں، کا یہ بیان آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی ہونا چاہئے کہ ’’پرائیویٹ اور کارپوریٹ کالج اپنی توقعات پر پورا اتر نے میں نا کام ثابت ہوئے ہیں۔ انٹرمیڈیٹ 2018 ء کے ریزلٹ دیکھنے کے بعد والدین کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ خانگی انٹرمیڈیٹ کالجس میں اپنے بچوں کو پڑھانا کسی طرح بھی اپنے رتبے اور فخر کے اظہار کرنے کا ذریعہ نہیں ہے۔ (بحوالہ اخبار ٹائمز آف انڈیا 14 اپریل 2018 ) تلنگانہ کے نائب وزیر اعلیٰ نے یہ بیان اس وقت دیا جب انٹرمیڈیٹ 2018 ء کے نتائج سے یہ بات ثابت ہوتی کہ اس مرتبہ پرائیویٹ جونیئر کالج سے زیادہ بہتر نتائج گورنمنٹ جونیئر کالج کے سامنے آئے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق اس مرتبہ گورنمنٹ جونیئر کالجس کے طلباء کا کامیابی کا فیصد 81 فیصد ریکارڈ کیا گیا جبکہ پرائیویٹ جونیئر کالجس میں صرف 69 فیصدی طلباء نے ہی کامیابی درج کی ہے ۔

نائب وزیر اعلیٰ کڈیم سری ہری نے کارپوریٹ جونیئر کالجس کو جیلوں سے تشبیہہ دی اور کہا کہ ان کالجس میں بچوں کو کسی طرح کا بھی تخلیقی ماحول فراہم نہیں کیا جاتا ہے۔ اس بحث میں بغیر پڑے کہ خانگی کارپوریٹ کالجس میں بچوں کو جیل کی طرح کے ماحول میں رکھا جاتا ہے ۔ ہمارا اصل موضوع ہے کہ جب والدین بچوں کی تعلیمی ترقی کیلئے اپنی ذات سے بھی ہر ممکنہ کوشش کرتے ہیں تب بچے بھی اپنے ماں باپ کی توقعات کو پورا کرتے ہیں۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ بچوں کو جب وہ بڑے ہوجائیں تو محنت کرنا اور کمانا بھی سکھانا ضروری ہے اور اس سے اہم سبق کہ محنت کرنا کسی طرح بھی عیب نہیں ہے ۔ یہ بات ان کے ذہنوں میں نقش کردینا بھی بڑی اہم ذمہ داری ہے ۔
محمد مجاہد (نام تبدیل) ایک آٹو ڈرائیور ہے ، گزشتہ 12 برسوں سے وہ آٹو چلا رہا ہے ، اس دوران اس نے اپنا کام بدلنے کی بھی کوشش کی لیکن اس کو کامیابی نہیں ملی ۔ اپنی تعلیمی قابلیت کے حوالے سے وہ بتلاتا ہے کہ اس نے انٹرمیڈیٹ میں ہی کالج چھوڑ دیا ۔ حالانکہ اس کی خواہش پر اس کے والد نے اسے ایک خانگی جونیئر کالج میں داخلہ دلوایا تھا ۔ مجاہد نے بتلایا کہ ارے صاحب یہ کالج والے تو چور ہوتے ہیں۔ جو بچے پڑھتے ہیں اور پڑھائی میں ذہین ہیں، انہی کو پڑھاتے ہیں اور جو بچے تھوڑے سے سست رفتار تھے ، ان سب کو ملاکر ایک الگ سیکشن میں ڈال دیئے ، پورے سیکشن میں ایک بھی اسٹوڈنٹ ایسا نہیں تھا جس سے دوسرے بچے سیکھ سکیں۔ مجھے تو فرسٹ ایئر کے امتحانات سے پہلے ہی معلوم ہوگیا تھا کہ میرے لئے امتحان میں پاس ہونا مشکل ہے۔ مجھے ابا کی دھمکی بھی یاد تھی کہ اگر انٹرمیڈیٹ میں فیل ہوگیا تو تجھے کھانا نہیں کھلاؤں گا ، آٹو چلا کچھ بھی کام کر اور پیسے لاکر دیا تو ٹھیک ہے۔
دوسری اہم بات مجاہد نے بتلائی کہ اگر وہ ایم پی سی کے بجائے سی ای سی لے لیتا تو شائد گریجویشن پاس کرلیتا ، اس کے مطابق اس کے بیاچ میں ایک لڑکا تھا جس نے ایم پی سی سے فرسٹ ایئر میں فیل ہونے کے بعد سی ای سی کورس میں داخلہ لے لیا اور وہ بھی ایک Aided کالج سے اور بڑی آسانی سے گریجویشن تک تعلیم حاصل کی۔

کیا سبھی کارپوریٹ کالجس بچوں کو جیل جیسے ماحول میں رکھ کر رٹاتے ہیں؟ یا نہیں اس سے قطع نظر یہ بات سچ ہے کہ بچے میں تعلیم کے تئیں دلچسپی ہو تو وہ پرائیویٹ ہی نہیں بلکہ سرکاری کالج سے بھی پڑھ کر انٹرمیڈیٹ پاس ہوسکتا ہے بلکہ آگے پڑسکتا ہے۔ ایک بات تو ثابت ہوسکتی ہے کہ پڑھائی کا تعلق اور بچوں کی تعلیمی ترقی کیلئے ضروری نہیں کہ بچے صرف خانگی اور کارپوریٹ کالجس سے ہی تعلیم حاصل کریں۔ اس برس انٹرمیڈیٹ کے نتائج سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ پرائیویٹ کالجس کے مقابلے میں بچے اگر گورنمنٹ کالجس سے انٹرمیڈیٹ کی تعلیم حاصل کرتے ہیں تو ان کی کامیابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
انٹرمیڈیٹ نتائج 2018
کالجس کی نو عیت
کامیابی کا فیصد
سرکاری کالجس
81%
خانگی کالجس
69%
اگر مسلمانوں میں کوئی طالب علم صرف اس وجہ سے ترک تعلیم کر رہا ہے کہ اس کیلئے پرائیویٹ کالجس میں داخلے کیلئے درکار لاکھوں کی فیس نہیں ہے تو یہ اس طالب علم اور اس کے سرپرستوں کی غلطی ہوگی کیونکہ تلنگانہ انٹرمیڈیٹ کے سال 2018 ء کے نتائج اس کے علاوہ نائب وزیر اعلیٰ کڈیم سری ہری کا بیان ہی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ جو بچے سرکاری کالجس میں پڑھتے ہیں ، ان کے کامیابی کے امکانات خانگی کالجس میں پڑھنے والوں کے مقابل کافی روشن ہے۔
پرائیویٹ جونیئر یہ کالجس کے متعلق یہ بات اب ثابت ہوچکی ہے کہ یہ دو طرح کے بیاچ چلاتے ہیں۔ ایک بیاچ میں تو بالکل بغیر کسی فیس کے طلباء کو داخلہ دیاجاتا ہے اور اس میں داخلے کی بس ایک ہی شرط ہوتی ہے جن طلباء نے ایس ایس سی میں 90 فیصد یا اس سے بہتر مظاہرہ کیا صرف انہی کو اس اسٹار بیاچ میں داخلہ دیا جاتا ہے۔ ان طلباء سے کسی طرح کی کوئی فیس نہیں لی جاتی ہے ، اس طرح کے اسٹار بیاچ کے بچے کالجس کیلئے رینک لاتے ہیں اور کالج کے ریزلٹ کو بہتر بناتے ہیں اور کالج کے بہتر ریزلٹ کو دیکھ کر جو لوگ اپنے اوسط اور نچلے اوسط مارکس والے بچوں کو اچھے نتائج حاصل کرنے ان کالجس میں داخلہ دلوانا چاہتے ہیں، ان سے صرف داخلے کیلئے ہی ہزاروں لاکھوں کی فیس لی جاتی ہے ۔ اب بچہ پڑھ لیا تو ٹھیک ہے ورنہ کالج کو تو نقصان نہیں۔
ایس ایس سی میں شاندار مارکس حاصل کرنے والے بچوں کو راغب کرنے خانگی جونیئر کالجس باضابطہ مہم چلاتے ہیں، اپنے کارندوں کو گھر گھر بھیجتے ہیں۔فون اور واٹس اپ پر مہم چلائی جاتی ہے ۔ ٹیالینٹ سرچ کے نام پر اور ایس ایس سی ٹاپرس کو ایوارڈز دینے کے بہانے نام ، پتے اور فون نمبرس جمع کر کے باضابطہ زیادہ سے زیادہ بچوں کو اکھٹا کرنے کی مہم چلائی جاتی ہے ۔ یہی نہیں اشتہارات جاری کئے جاتے ہیں۔ گلی گلی مہم چلائی جاتی ہے۔ تعلیم کے نام پر تجارتی فوائد حاصل کرنے کی اس بے ہنگم دوڑ میں والدین اور سرپرستوں کیلئے تلنگانہ کے نائب وزیر اعلیٰ کڈیم سری ہری کا بیان کافی اہمیت رکھتا ہے اور اولیائے طلباء کو اپنے بچوں کے داخلے کے لئے فیصلہ لینے میں بڑا مددگار ثبات ہوسکتا ہے ۔ کاش کہ ہم ان حالات میں اپنے بچوں کیلئے کوئی صحیح فیصلہ مسئلہ لے سکیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیںاپنے بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت کیلئے آسانیاں پیدا فرمائے ۔ آمین ۔
sarwari829@yahoo.com