کوئی وعدہ وفا نہ ہوا سارے مسائل جوں کے توں برقرار

محمد نعیم وجاہت

علحدہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل سے مسلمانوں کی آبادی کے تناسب میں اضافہ ہونے اور اسی مناسب سے بجٹ میں مسلمانوں کو حصہ داری ملنے اور تمام شعبہ جات میں ترقی اور خوشحالی کی راہیں ہموار ہونے کے مسلمانوں کو خواب دکھائے گئے، جس پر مسلمانوں نے بھروسہ کیا۔ ٹی آر ایس حکومت اپنی ڈھائی سالہ میعاد مکمل کرچکی ہے مگر مسلمانوں کو آج بھی اپنی ترقی اور خوشحالی کا بڑی بے چینی سے انتظار ہے۔ وہ کہاں ہے اور کب آئے گی اور مسلمانوں سے کب بغلگیر ہوگی؟ ان سوالات کے جوابات کسی کے پاس نہیں ہیں۔ ریاست تقسیم بھی ہوگئی، ٹی آر ایس اپنے اقتدار کے 28 ماہ بھی تکمیل کرچکی ہے مگر مسلمانوں سے کئے گئے وعدوں میں ایک وعدہ بھی پورا نہیں کیا گیا ہے۔ ہاں! البتہ 1000 کروڑ روپئے اقلیتی بجٹ منظور کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اسمبلی میں اس کو منظور ضرور کیا گیا ہے مگر یہ مکمل بجٹ کبھی اقلیتوں پر خرچ نہیں کیا گیا۔ پہلے سال 2014-15ء میں 1050 کروڑ اقلیتی بجٹ منظور کیا گیا مگر 395.95 کروڑ جاری کیا گیا۔ دوسرے سال 2015-16ء میں 50 کروڑ کا اضافہ کرتے ہوئے 1100 کروڑ بجٹ منظور کیا گیا لیکن 606.29 کروڑ جاری کیا گیا۔ اس طرح جاریہ سال 2016-17ء میں مزید 100 کروڑ روپئے اضافہ کے ساتھ 1200 کروڑ روپئے کا بجٹ منظور کیا گیا۔ 30 ستمبر تک صرف 489.96 کروڑ روپئے ہی جاری کیا گیا۔ ٹی آر ایس حکومت نے تین سال کے دوران اقلیتوں کیلئے 3350 کروڑ روپئے کا اسمبلی میں بجٹ منظور کیا مگر بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہیکہ ڈھائی سال کے دوران صرف 1492,20 کروڑ روپئے بجٹ ہی جاری کیا ہے۔ اگر بجٹ اجرائی پر نام بڑے درشن چھوٹے کا ریمارک کیا جائے تو برائی کیا ہے۔ جاریہ سال 2016-17ء کے اقلیتی بجٹ میں اقلیتوں کیلئے تین نئی اسکیمات متعارف کرایا ہے جو قابل ستائش ہے مگر یہ بھی افسوسناک پہلو ہیکہ مکہ مسجد اور شاہی مسجد کی نگہداشت اور مرمت کے کاموں کیلئے 250 کروڑ روپئے منظور کرتے ہوئے نئی اسکیم قرار دیا گیا ہے۔

اقلیتوں کی تربیت اور روزگار کیلئے بجٹ میں 12 کروڑ روپئے منظور کئے گئے، مگر سیول سرویس کی جاریہ سال کوچنگ نہ دیتے ہوئے مسلم طلبہ کو مایوس کیا گیا ہے۔ اقلیتی ریزیڈنشیل اسکولس قائم کرنے کیلئے بجٹ میں 350 کروڑ روپئے کی منظوری دی گئی اور 71 اقلیتی اقامتی اسکولس قائم کئے گئے ہیں۔ تاہم ان اسکولس کیلئے باقاعدہ تدریسی و غیرتدریسی سرکاری عملہ کا تقرر کرنے کے بجائے اساتذہ و دیگر اسٹاف کی کنٹراکٹ پر خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ جاریہ سال ماضی میں موجود اقلیتوں کے 7 اسکیمات کو برخاست کیا گیا ہے۔ اقلیتی مالیاتی کارپوریشن کی جانب سے غریب اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو قرض دینے کیلئے درخواستیں طلب کی گئی۔ مسلمانوں کی غربت اور بیروزگاری کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہیکہ 1.62 لاکھ درخواستیں وصول ہوئی ہیں۔ درخواستیں وصول کرکے 6 ماہ بھی گذر گئے ہیں۔ ان پر آج تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے۔ باوثوق ذرائع سے پتہ چلا ہیکہ تمام درخواستوں پر قرض دینے کیلئے 3000 کروڑ روپئے کی ضرورت پڑے گی جبکہ جاریہ سال کا اقلیتی بجٹ 1200 کروڑ روپئے ہے۔ نوجوانوں، بیروزگار افراد سے درخواستیں طلب کرنے سے قبل محکمہ اقلیتی بہبود نے اس کے پاس موجود بجٹ کا کوئی احاطہ نہیں کیا اور کتنے لوگوں کو قرض دینا ہے اس کی کوئی حکمت عملی تیار نہیں کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ درخواست گذار روزانہ دفاتر کے چکر کاٹتے ہوئے مایوس لوٹ رہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے درخواست گذاروں کو ابھی تک کوئی پیغام نہیں دیا جارہا ہے جس سے ان میں حکومت کے خلاف غم و غصہ دیکھا جارہا ہے۔ ٹی آر ایس نے اپنے انتخابی منشور میں مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ ایک انتخابی جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کے سی آر نے اقتدار تشکیل دینے کے صرف 4 ماہ میں مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا مگر 28 ماہ گذرنے کے باوجود مسلمانوں سے کیا گیا وعدہ پورا نہیں کیا گیا۔

پہلے سدھیر کمیشن تشکیل دیتے ہوئے وقت ضائع کیا گیا۔ سدھیر کمیشن کی رپورٹ وصول ہونے کے بعد بی سی کمیشن تشکیل دینے کے بجائے سدھیر کمیشن کی میعاد میں مزید تین ماہ کی توسیع دیتے ہوئے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی جارہی ہے۔ وقف بورڈ کو قانونی موقف دینے سروے کراتے ہوئے تمام وقف اراضی بشمول لینکوہلز کی اراضی بھی وقف بورڈ کے حوالے کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ وقف بورڈ کو قانونی موقف تو دور نیا وقف بورڈ تشکیل نہیں دیا اور نہ ہی ناجائز قبضوں کا شکار ایک انچ وقف اراضی بھی وقف بورڈ کے حوالے کی گئی ہے۔ حکومت کی جانب سے مختلف محکمہ جات میں مخلوعہ جائیدادوں پر تقررات کئے جارہے ہیں۔ محکمہ اقلیتی بہبود میں موجود مخلوعہ جائیدادوں کی حکومت کی جانب سے نشاندہی کی گئی ہے باوجود اس کے تقررات میں ٹال مٹول کی پالیسی اختیار کی جارہی ہے۔ تلنگانہ کے تمام اضلاع میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دینے کا اعلان کیا گیا ہے مگر اس پر بھی کوئی عمل آوری نہیں ہے۔ یہی نہیں اقلیتی اداروں سے متعلق کارپوریشن اور بورڈ کے جائیدادوں پر تقررات کو بھی نظرانداز کیا جارہا ہے۔ غیراقلیتی بیشتر اداروں پر تقررات کا عمل مکمل ہوگیا ہے۔ اردو اکیڈیمی، اقلیتی مالیاتی کاپوریشن، وقف بورڈ، حج کمیٹی، جیسے اہم اقلیتی اداروں کو فراموش کردیا گیا ہے جبکہ پڑوسی ریاست آندھراپردیش میں اقلیتوں کی آبادی صرف 6 فیصد ہے۔ باوجود اس کے چیف منسٹر چندرا بابو نائیڈو اقلیتوں کیلئے منظور بجٹ مکمل خرچ کررہے ہیں۔ اقلیتی اداروں پر تقررات کردیئے گئے ہیں یہاں تک کہ آندھراپردیش کامالی موقف کمزور ہونے کے باوجود ائمہ و مؤذنین کو ماہانہ 5 اور 4 ہزار روپئے معاوضہ ادا کیا جارہا ہے۔ تلنگانہ میں مسلمانوں کی آبادی 14 فیصد ہونے کے باوجود حکومت تلنگانہ مسلمانوں کو ہر شعبہ میں نظرانداز کررہی ہے۔ تلنگانہ میں ائمہ و موذنین کو صرف 1000 روپئے معاوضہ دیتے ہوئے انہیں بھی نظرانداز کیا گیا ہے۔ کئی سرکاری اسکولس میں اردو میڈیم کے اسکولس کو ایک دوسرے میں ضم کرتے ہوئے اردو اسکولس کی تعداد گھٹا دی گئی ہے جو اردو میڈیم اسکولس ہیں ان میں مخلوعہ اردو اساتذہ کی جائیدادوں پر تقررات نہ کرتے ہوئے اردو کے چلن کو ختم کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔

حضور نظام کے دورحکومت میں قائم کردہ نظامیہ طبی کالج و ہاسپٹل کو صرف اسی لئے نظرانداز کیا جارہا ہے کیونکہ اس کا ذریعہ تعلیم اردو ہے۔ یونانی میں کئی کہنہ امراض کا علاج موجود ہے۔ تاہم حکومت کی عدم توجہ سے یہ بھی بحران کی جانب گامزن ہے۔ چارمینار پر موجود یونانی کالج اور ہاسپٹل کے کئی مسائل ہیں۔ تاریخی عمارت اپنی داستان پیش کررہی ہے۔ ایک مسئلہ حل کرنے تک اور کئی مسائل سر ابھار رہے ہیں۔ طب یونانی کو ترقی دینے اور اس کے مسائل کا حل ڈھونڈنے کیلئے حکومت کے پاس کوئی پلان نہیں ہے اور نہ ہی حکمران سنجیدہ ہے۔ کسی بھی قسم کے طبقات اور شعبوں کی ترقی کیلئے حکومت کی سنجیدگی اور تعاون کے بغیر اس کی ترقی اور فروغ کی امید رکھنا آسمان سے تارے توڑ کر لانے کے مترادف ہے۔ طب یونانی سے آندھرائی حکمرانوں نے کافی بے وفائی کی ہے لیکن حضور نظام کے دور کا احیاء کرنے کا دورہ کرنے کا اعلان کرنے والے چیف منسٹر تلنگانہ کے سی آر نے بھی گذشتہ ڈھائی سال کے دوران طب یونانی کی طرف کوئی توجہ نہیں دی ہے اور نہ ہی اقلیتوں کے مسائل پر طلب کردہ عوامی منتخب نمائندوں اور اعلیٰ عہدیداروں کے اجلاس میں طب یونانی کی ترقی و فروغ پر کوئی غوروخوض کیا گیا ہے جبکہ محکمہ ایوش میں شامل آیورویدک اور ہیومیوپیتھی پر حکومت نہ صرف توجہ دے رہی ہے بلکہ مخلوعہ جائیدادوں پر تقررات بھی کررہی ہے۔ یونانی ہاسپٹل میں 163 منظورہ جائیدادیں ہیں، جن میں چیف میڈیکل آفیسرس کی 12 جائیدادیں ہیں جن میں صرف تین میڈیکل آفیسرس ہیں۔ 9 جائیدادیں مخلوعہ ہیں۔ سینئر میڈیکل آفیسرس کے 39 جائیدادیں ہیں جن میں 30 میڈیکل آفیسرس خدمات انجام دے رہے ہیں اور 9 جائیدادیں مخلوعہ ہیں۔ میڈیکل آفیسرس کی 112 جائیدادیں ہیں جن میں 67 میڈیکل آفیسرس خدمات انجام دے رہے ہیں اور 45 جائیدادیں مخلوعہ ہیں۔ اس طرح جملہ 163 منظورہ جائیدادوں میں 63 جائیدادیں مخلوعہ ہیں۔ اس طرح یونانی کالج میں گذشتہ 7 سال سے پرنسپل کے عہدہ پر مستقل تقرر نہیں کیا گیا ہے۔ پوسٹ گریجویٹ پروفیسرس کی 5 جائیدادیں ہیں اور لمبے عرصہ پانچ کی پانچ جائیدادیں مخلوعہ ہیں۔ انڈر گریجویٹ پروفیسرس خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ماباقی 13 جائیدادیں بھی کافی عرصہ سے مخلوعہ ہیں۔ ریڈر کی 6 جائیدادیں ہیں جن میں صرف ایک ریڈر ہے۔ 5 جائیدادیں مخلوعہ ہیں۔ اسسٹنٹ پروفیسرس کی 15 جائیدادیں ہیں جن میں 3 جائیدادیں مخلوعہ ہیں۔ لکچرار کی 25 جائیدادیں ہیں جن میں 8 جائیدادیں مخلوعہ ہیں۔ منطق و فلسفہ کی ایک جائیداد ہے وہ بھی مخلوعہ ہے۔ اس طرح جملہ 67 منظورہ جائیدادوں میں لمبے عرصہ سے 36 جائیدادیں مخلوعہ ہیں اس کے علاوہ 25 سے زائد میڈیکل آفیسرس گذشتہ 10 سال سے کنٹراکٹر پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔

حکومت کی جانب سے اعلان کردہ کنٹراکٹ ایمپلائز کی خدمات کو مستقل کرنے کی پالیسی کے زمرہ میں 25 میڈیکل آفیسرس اہل ہیں۔ اس کے بارے میں بھی حکومت نے کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ جب یونانی ہاسپٹل میں 63 اور کالج میں 36 جملہ 99 جائیدادیں مخلوعہ ہوں تو طب یونانی کی ترقی اور فروغ کی امید کیسے کی جاسکتی ہے۔ بدبختی کی بات یہ ہیکہ نارائن گوڑہ میں زیرتعمیر سرنظامت جنگ یونانی ہاسپٹل جو 120 بستروں پر مشتمل ہے، اس کی تعمیر کو لمبے عرصہ سے زیرالتوا رکھا گیا ہے۔ بجٹ کی کمی کا بہانہ کرتے ہوئے تلنگانہ انفراسٹرکچر ڈپارٹمنٹ زیرتعمیر عمارت کو ایوش ڈپارٹمنٹ کے حوالے نہیں کررہا ہے۔ اس کے پیچھے ایک منظم سازش کارفرما ہے۔ عدالت میں طویل قانونی جدوجہد کے بعد یونانی کے حق میں فیصلہ ہوا ہے۔ صدر تلنگانہ یونانی میڈیکل آفیسرس اسوسی ایشن ڈاکٹر محمد سلیم اور جنرل سکریٹری ڈاکٹر اے اے خان نے اب تک یونانی کے مسائل، مخلوعہ جائیدادوں پر تقررات اور نارائن گوڑہ پر زیرتعمیر یونانی ہاسپٹل کے بارے میں حکومت، وزراء، اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ ساتھ تمام مسلم عوامی منتخب اور نامزد ارکان کو نمائندگی کی ہے لیکن ابھی تک کوئی مثبت نتائج برآمد نہیں ہوئے ہیں۔ جب تک طب یونانی کو حکومت کی نگہداشت اور سرپرستی حاصل نہیں ہوتی اس کی ترقی ممکن نہیں ہے۔ ریاست تلنگانہ میں مسلمانوں اور ان کے اداروں کی ابتر صورتحال ہے اس پر بروقت توجہ دینا ضروری ہے ورنہ حکومت اور عوامی منتخب نمائندوں کے تعلق سے مایوسی اور بدگمانی پھیلنا لازمی ہے۔ حکمراں جماعت ٹی آر ایس اور اپوزیشن میں موجود مسلم عوامی منتخب اور نامزد ارکان کے علاوہ قائدین کی ذمہ داری ہیکہ وہ جماعتی وابستگی سے بالاتر ہوکر مسلمانوں کے مسائل کو حل کرنے کیلئے متحد ہوکر یا علحدہ علحدہ طور پر اپنی اپنی جانب سے حکومت پر دباؤ بنائے تب ہی مسائل کی یکسوئی ممکن ہے۔