کنہیاکمار کا مہا کٹھ بندھن اور بائیں بازو کا امیدوار نہ ہونا بہتر

اپوروآنند
حالیہ برسوں میں جواہرلال نہرو یونیورسٹی اسٹوڈنٹ یونین کے سابق صدر کنہیا کمار کافی سرخیوں میں رہے ہیں اور انہوں نے نڈر،جارحانہ انداز اور واضح الفاظ میں مودی حکومت کی ناکامیوں اور خود ساختہ حب الوطنی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور اپنے نظریات و خیالات سے ہندوستان کے ہر سیکولر اور ہندوتوا کا مالا جپنے والے ہر شخص کو سوچنے پر مجبور کردیا۔ پہلے سے ہی امید کی جارہی تھی کہ کنہیا کمار کا اس مرتبہ سیاست میں داخلہ ممکن ہے لیکن بہار میں مہا گٹھ بندھن کی جانب سے انہیں ٹکٹ نہ دینے کا فیصلہ زیادہ حیران کن نہیں رہا۔ کنہیا کمار کے لوک سبھا انتخابات میں بہار کے بیگوسرائے سے مقابلے کے فیصلے اور سی پی آئی کی ٹکٹ پر سیاسی میدان میں داخلے نے نوجوان کے اس اعلان کی نفی کرتا ہے کہ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ سیاسی میدان میں مہاگٹھ بندھن نمائندگی کرنا چاہتے ہیں لیکن سی پی آئی سے امیدواری نے واضح کردیا ہے کہ کنہیا کمار کی امیدواری پارٹی کی نمائندگی سے زیادہ ان کی اپنی انفرادی شناخت کی وجہ سے ہوگی ۔کنہیا کمارکے سیاسی میدان میں آتے ہی ان کی کئی گوشوں سے حمایت کی جارہی ہے۔
اس وقت ہندوستان میں اگلے وزیراعظم کے لئے انتخابات کا ماحول گرماگرم ہے، معمول کے مطابق گندی سیاست اپنے شباب پر ہے، لیکن بہت ہی خوشی کی بات یہ ہے کہ اس مرتبہ ملک کے مختلف علاقوں سے باشعور، نظریاتی اور ترقیاتی سوچ کے حامل ٹھوس افراد بھی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں، انہی میں سے ایک نوجوان کنہیا کمار بھی ہے۔ کنہیا کمار وہ انقلابی نوجوان ہے جس نے پورے ملک میں اس وقت صدائے حق بلند کی جب نریندرمودی کا استبدادی دور اپنے شباب پر تھا اور بڑے بڑے قلم اور ہاتھ بھرکی زبانیں زر کے عوض تو کہیں زندگی کے عوض فروخت ہورہی تھیں، کنہیا کمار نے جس وقت جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سے انتہا پسند جن سنگھی عناصر کو آئینہ دکھایا وہ وقت دراصل ہندوستان کا تاریخی موڑ تھا جب الوطنی اور نیشنلزم کو عوام کے جائز سوالات اور اظہار کی آزادی سے متصادم کردیا گیا تھا، حکومتی ناکامیوں پر تنقید کو ملک دشمنی اور نریندرمودی پر تنقید کو ہندو مذہب کی توہین کے درجے میں رکھنے کی کوششوں نے ملک بھر میں انصاف پسندوں کو تشویش میں ڈال دیا تھا، خوف اور نفرت کے اس ماحول کو کنہیا کی للکار نے کمزورکیا ۔ اب کنہیا کمار بیگو سرائے سے الیکشن لڑنے جارہے ہیں، وہ پارلیمنٹ جانے کے لیے تیاری کررہے ہیں، ان کا پارلیمنٹ پہنچنا صرف ان کے حلقہ انتخاب ہی کے لیے نہیں اس ملک کے لیے بھی بہت ضروری ہے۔ کنہیار کمار اس ملک میں فرد کی آزادی کی ایک علامت ہیں، کنہیا کمار سڑک چھاپ نیتا نہیں ہیں وہ تعلیم یافتہ اور دانشور پہلے ہیں جنہیں دہلی یونیورسٹی نے ڈاکٹریٹ کی باوقار ڈگری سے سرفراز کیا ہے، بعد میں سیاستدان ہیں، کنہیا نئے ہندستان کا ابھرتا ہوا نوجوان ہے، جو ملک کو حقیقی معنوں میں آگے لے جانا چاہتے ہیں، کنہیا انتخابی زبان نہیں بولتے، جو موسم آنے پر سر چڑھ کر بولتی ہے اور موسم جاتے ہی گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہوجاتی ہو۔ کنہیا کی باتیں عام سیاست دانوں کے وہ وعدے نہیں، جو کبھی پورے نہیں ہوتے۔کنہیا کمار کا انتخابی منشور بالکل صاف ستھرا اور واضح ہے انہوں نے میڈیا کانفرنس میں اپنے انتخابی منشور کو ان الفاظ میں واضح کیا ہے کہ یہ لڑائی سچ اور جھوٹ اسی طرح حق اور لوٹ کے درمیان ہے، یہ لڑائی متشددانہ سوچ اور نوجوان جوش کے درمیان ہے ۔ حال ہی میں بی بی سی ڈبیٹ ’’بہار بولے گا‘‘ کے اندر کئے گئے ایک سوال آپ تو نئی سوچ کی پہچان ہیں پر جواب دیتے ہوئے کنہیا نے بڑا خوبصورت جواب دیا، بولے (سوال پوچھنے والے نوجوان سے) آپ نے مجھے ویسا ہی پہچانا ہے، جیسا میڈیا نے مجھے دکھایا ہے، شخصی طور پر آپ مجھے کتنا جانتے ہیں؟ کسی پبلک فورم پر ایسا جواب دینا، جگر گردے کی بات ہے، سیاست میں نیا نیا قدم رکھنے والا نوجوان، اس طرح سچائی سے بات کرے، آسان بات نہیں، یہ جملہ کنہیا کے خلاف بھی جاسکتا ہے، لیکن بے پرواہ ہوکر کنہیا سچ بول گئے، ہندستان کو ایسے سچ بولنے والے نوجوان قائدین کی شدیدضرورت ہے۔جو سچ بولنے کی ہمت رکھتا ہو، اس سے سچا کام کرنے کی امید بھی لگائی جاتی ہے۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بیگوسرائے حلقہ انتخاب میں سیکولرزم کا دم بھرنے والی جماعتیں اس نوجوان کے حق میں دستبردار ہوکر ایک تاریخ رقم کرتیں، کیونکہ یہ نوجوان بہرصورت اس نشست سے پارلیمنٹ پہنچ کر ہندوستان کی نمائندگی کا حقدار ہے۔
بہارمیں این ڈی اے کی سیٹوں کی تقسیم کے بعد سب سے زیادہ سرخیوں میں مرکزی وزیرگری راج سنگھ ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ انہیں نوادا سے بیگوسرائے الیکشن لڑنے کے لئے بھیجا جارہا ہے۔ بی جے پی کے اس فائربرانڈ اورمتنازعہ بیانات کے لئے سرخیوں میں رہنے والے لیڈرنے اپنی سیٹ تبدیل کئے جانے پرکھل کرناراضگی ظاہرکی تھی۔ بڑا سوال یہ ہے کہ گری راج سنگھ نوادا سے بیگوسرائے کیوں نہیں جانا چاہتے؟ کیا وہ کنہیا کمارکاسامنا نہیں کرنا چاہتے ؟اس کی چند اہم وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ کنہیا کمارکی موجودگی ہے ۔ لکھی سرائے کے مقامی باشندہ گری راج سنگھ کے سامنے بیگوسرائے ضلع کے ہی کنہیا کمار(گری راج سنگھ کے ذات کے ہی ہیں) سی پی آئی کی ٹکٹ پرمیدان میں ہیں، ایسے میں انہیں یہ خوف ستارہا ہے کہ کہیں مقامی امیدوار مقابلہ بیرونی امیدوار کے موضوع نے زورپکڑا توان کیلئے راہ آسان نہیں ہوگی۔ یہی نہیں کنہیا کمارکے نام پربی جے پی مخالف ووٹوں کی صف بندی بھی گری راج سنگھ کے لئے مشکلات میں اضافہ کرسکتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ نیا علاقہ، نیا چیلنج ان کے لئے سر کا درد ہوگا ۔واضح رہے کہ بیگوسرائے کا الیکشن کچھ الگ ہی ہے۔ دراصل گری راج سنگھ نوادا کے رکن پارلیمنٹ تھے اورنوادا میں عوام کے ساتھ وہاں اپنے کام کرنے کا طریقہ عوام کوبتا دیا تھا۔ اب انہیں علاقہ اور منصوبہ بندی چھوڑکربیگوسرائے جانا ہے، ایسے میں بیگوسرائے علاقہ ان کیلئے بالکل نیا ہوگا۔ انہیں یہ خوف ستا رہا ہے کہ آخرکاربیگوسرائے کے عوام نے انہیں اگرحمایت نہیں کی توپھرکیا ہوگا؟ تیسری وجہ بی جے پی کا اندرونی انتشار ہے ۔ مانا جاتا ہے کہ گری راج سنگھ کے مخالف ان کی ہی پارٹی میں بہت ہیں۔ ان کی ذات سے تعلق رکھنے والے ایم ایل سی رجنیش کمار(بیگوسرائے کے مقامی باشندہ) خود ہی ٹکٹ حاصل کرنے کی کوشش میں تھے۔ مقامی عنصر کووہ متاثرکرسکتے ہیں۔ یہی نہیں گری راج سنگھ بہاربی جے پی کے اندرگروپ بندی کے بھی شکارہوسکتے ہیں۔ چوتھی وجہ نتیش سے اختلافات ہیں۔ بہارکے چیف منسٹر نیتش کمارسے گری راج سنگھ کا تال میل کبھی اچھا نہیں رہا۔ نتیش کابینہ میں دوایسے وزیررہے، جوہمیشہ نتیش حکومت کے خلاف بولتے رہے، ان میں ایک نام گری راج سنگھ کا ہے اوردوسرااشونی چوبیکا ہیں۔ یہ دونوں گجرات کے اس وقت کے چیف منسٹر نریندرمودی کی کھل کرحمایت کرتے تھے۔ ظاہرہے ایسے حالات میں نتیش کماران کی حمایت کریں گے یا نہیں، یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا۔ پانچویں وجہ فرقہ پرست ہونے کی شناخت ہے۔ رام نومی کے موقع پربہارمیں فسادات کے معاملے میں مودی حکومت کے یہ دونوں وزرا کھل کرنتیش حکومت پر تنقید کرتے رہے۔ نتیش اورگری راج میں کئی مواقع پرتلخی نظرآچکی ہے۔ دربھنگہ میں مودی چوک نام کولے کرایک قتل ہوا توگری راج نے بہارحکومت پرسوال کھڑے کئے۔ اشونی چوبے کے بیٹے والے معاملے میں بھی گری راج نتیش کی صف سے الگ نظرآئے تھے۔غورطلب ہے کہ گری راج سنگھ کے بیگوسرائے روانہ کرنے ان کے ذریعہ مخالفت کئے جانے پرپارٹی میں سخت ردعمل رہا۔ قانون سازکونسل کارکن رجنیش کماراور سابق ایم ایل سی وویک ٹھاکر(ڈاکٹرسی پی ٹھاکرکے بیٹے) نے گری راج سنگھ کے تیورکی کھل کرمخالفت کی۔ ظاہرہے گری راج سنگھ کے سامنے کنہیا کمارجیسے چیلنج سامنے آنے والے ہیں، وہیں پارٹی کے اندربھی انہیں کئی طرح کے چیلنجس کا سامنا کرنا پڑے گا۔