کنور مہندر سنگھ بیدی سحر (1998-1909)

(دوسری اور آخری قسط)
میرا کالم مجتبیٰ حسین
کنور صاحب کے اطراف نہ صرف شاعر اور ادیب جمع رہتے ہیں بلکہ پہلوان اور فن پہلوانی سے تعلق رکھنے والے افراد بھی جمع رہتے ہیں ۔ اسی لئے میں ان کی محفل میں بہت محتاط رہتا ہوں کیونکہ برابر بیٹھے ہوئے شخص کے بارے میں یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ یہ مطلع عرض کرے گا یا گھونسہ رسید کرے گا ۔ کسی اچھی بات پر مصافحہ کرے گا یا پنجہ لڑائے گا ۔ گویا کنور صاحب کی ذات ایک ایسا گھاٹ ہے جس پر پہلوان اور شاعر دونوں ہی ایک ساتھ پانی پینے کے علاوہ اور بھی بہت کچھ پیتے ہیں۔ میں نے راتوں کی محفلوں میں بھی کنور صاحب کو دیکھا ہے ، وہی سلیقہ ، وہی رکھ رکھاو اور وہی آن بان ۔ کیا مجال کہ شائستگی کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جائے۔ کوئی شاعر یا ادیب بہک جائے تو اسے ٹوکنے سے بھی گریز کرتے ہیں۔ البتہ یہ ضرور ہوتا ہے کہ اس کے بعد اس ادیب یا شاعر کی ویڈیو فلم ریکارڈنگ شروع ہوجاتی ہے ۔ جو دوسرے دن اسے بلا ٹکٹ دکھا دی جاتی ہے ۔ وہ راہ راست پر آجائے تو ٹھیک ہے ورنہ معاملہ اگلی فلم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ایک محفل میں ایک ادیب نے اپنے ہوش کچھ اس طرح گنوائے کہ خود کنور صاحب سے لڑنے لگا۔ اُس کے جی میں جو آیا وہ بکتا گیا مگر کنور صاحب خاموش رہے ۔ کنور صاحب کے پہلوان دوستوں کو طیش آگیا ۔ وہ اس ادیب کو سبق سکھانا ہی چاہتے تھے کہ کنور صاحب بڑی خاموشی کے ساتھ ادیب کو الگ لے گئے اور اپنی گاڑی میں اسے بٹھاکر بیس کیلو میٹر کا فاصلہ طئے کر کے اسے گھر چھوڑ آئے ۔ ا یسی حرکت وہی آدمی کرسکتا ہے جو یا تو بہت کمزور ہو یا پھر ایک باظرف سکھ ہو۔
کنور صاحب کو میں نے کبھی غصہ کی حالت میں نہیں دیکھا ۔ سوائے ایک دفعہ کے اور اتفاق سے ان کا یہ غصہ مجھ سے ہی متعلق تھا ۔ 1985 ء کی عالمی مزاح کانفرنس میں شرکت کیلئے کنور صاحب کو حیدرآباد آنا تھا۔ انہوں نے اپنی آمد کی تاریخ اور وقت سے مجھے مطلع کردیا تھا اور تاکید کی تھی کہ میں انہیں لینے حیدرآباد ایرپورٹ پر آجاؤں ۔ میں کانفرنس کی تیاریوں میں بہت پہلے حیدرآباد چلا گیا تھا ۔ بارہ ممالک کے مندوبین اس کانفرنس میں شرکت کر رہے تھے ۔ کانفرنس کے کام اتنے پھیلے ہوئے تھے کہ ہم لوگوں نے کاموں کی تقسیم کردی تھی ۔ ایک کمیٹی صرف مہمانوں کے استقبال اور دیکھ بھال کیلئے بنائی گئی تھی ۔ میں نے اس کمیٹی کے کنوینر کو بلاکر تاکید کر دی تھی کہ فلاں تاریخ کو فلاں فلائیٹ پر کنور صاحب کے استقبال کے لئے چلا جائے ۔ جس دن وہ آرہے تھے اس دن صبح بھی میں نے کنوینر کو کنور صاحب کی آمد کے بارے میں یاد دہانی کرادی تھی ۔ میں مطمئن  ہوکر دوسرے کاموں میں جٹ گیا ۔ دن میں تین بجے کے قریب اخبار ’’سیاست‘‘ کے دفتر سے میرے لئے فون آیا کہ کنور صاحب بات کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے فون اٹھایا تو دوسری طرف سے کنور صاحب کی پاٹ دار آواز سنائی دی ۔ بولے ’’میاں ! میں اسی وقت دہلی واپس جانا چاہتا ہوں۔ میں کانفرنس میں شرکت نہیں کروں گا ۔ میں نے تم سے خاص طور پر کہا تھا کہ ایرپورٹ پر آجانا مگر مجھے لینے کیلئے ایرپورٹ پر کوئی نہیں آیا۔ بڑی دیر تک انتظار کرتا رہا ۔ وہ تو اچھا ہوا کہ ایک صاحب نے مجھے پہچان لیا اور ’’سیاست‘‘  کے دفتر پر چھوڑ گئے ۔ اب میں فوراً دہلی واپس جانا چاہتا ہوں ‘‘۔ کنور صاحب کی یہ بات سن کر مجھ پر گھڑوں پانی پڑ گیا۔ سخت کوفت اور ندامت ہوئی ۔ میں نے بہت معذرت کی ۔ ساری صورت حال سے انہیں آگاہ کر نے کی کوشش کی مگر وہ میری ہر وضاحت کے جواب میں دہلی واپس جانے پر مصر نظر آئے ۔ میں نے سوچا کہ اس وقت میرا اُن کے پاس جانا مناسب نہیں ہوگا۔ لہذا میں نے زندہ دلانِ حیدرآباد کے سارے اچھے مزاحیہ فنکاروں کو موٹروں میں بھر کر ان کے پاس روانہ کیا اور تاکید کی کہ پہلے تو اپنے لطیفوں اور اپنی پر مزاح حرکتوں کے ذریعہ اُن  کا موڈ ٹھیک کریں اور انہیں لیک ویو گیسٹ ہاؤس لے جائیں جہاں ان کے قیام کا انتظام تھا ۔ میں جان گیا کہ یہ دیو ایسا ہے جس پرلطیفوں اورمزاح کے ذریعہ ہی قابو پایا جاسکتا ہے ۔ میں دو گھنٹوں بعد لیک ویو گیسٹ ہاؤس پہنچا تو کنور صاحب کے کمرہ سے زوردار قہقہوں کی آوازیں بلند ہورہی تھیں۔ میں کمرہ میں داخل ہوا تو وہ قہقہہ لگانے کیلئے اپنا منہ کھول چکے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی اپنے قہقہہ بار منہ کو مصنوعی طور پر بند کرنے کی کوشش کی مگر قہقہہ ان کے قابو میں نہیں آرہا تھا ۔ قہقہہ ختم ہوا تو انہوں نے پھر اپنے چہرہ پر سنجیدگی کو طاری کرنے کی کوشش کی ۔ میں اس انتظار میں خاموش بیٹھا رہا کہ یہ اپنی خفگی مجھ پرظاہر کردیں۔ خود ہی بولے  ’’یہ تم نے یتیموں کی شکل کیوں بنا رکھی ہے؟ ‘‘  میں نے کہا ’’آج آپ دہلی واپس ہونا چاہتے ہیں مگر آج کی فلائیٹ میں کوئی نشست آپ کیلئے نہیں مل رہی ہے ‘‘۔ بولے ’’میاں ! میں تمہیں تمہاری ذمہ داری سے واقف کرانا چاہتا تھا ۔ میں جب اپنے سے چھوٹوں میں غیر ذمہ داری کوپاتا ہوں تو بھڑک اٹھتا ہوں۔ میں تم سے بہت ناراض تھا مگر تمہارے ساتھیوں نے اب میرا موڈ بدل دیا ہے ۔ جاؤ تمہیں  معاف کیا ۔ مگر آئندہ ہرگز ایسا نہ کرنا ‘‘۔ اس دن پتہ چلا کہ اُن کا غصہ جھاگ کی طرح ہوتا ہے کہ ادھر اُبل پڑا اور ادھر دیکھتے ہی دیکھتے دب گیا۔
واضح رہے کہ کنور صاحب مشاعروں اور ادبی جلسوں میں جانے کا کوئی معاوضہ نہیں لیتے ۔ صرف کرایہ آمد و رفت لیتے ہیں بلکہ دوسرے شہر میں قیام و طعام کے اخراجات بھی اکثر صورتوں میں خود ہی برداشت کرتے ہیں۔ کنور صاحب کی کتاب ’’یادوں کا جشن‘‘ کے مطالعہ سے میری معلومات میں نہ صرف ایک خوش گوار اضافہ ہوا ہے بلکہ یک گونہ اطمینان بھی حاصل ہوا ۔ انہوں نے اپنی کتاب میں بھوپال کے ایک ہفتہ وار ایڈیٹر کا ذکر کیا ہے جس نے انہیں ایک مشاعرہ میں بھوپال بلایا تھا ۔ مشاعرہ کے بعد یہ ایڈیٹر غائب ہوگیا اور کنور صاحب کو آمد و رفت کا کرایہ نہیں ادا کیا ۔ کنور صاحب نے ایک باظرف آدمی کی طرح اس رسالہ کا یا اس کے ایڈیٹر کا نام ظاہر نہیں کیا ہے۔ صرف اتنا لکھا ہے کہ اگر وہ یہ کتاب پڑھے تو اُن کے اخراجات آمد و رفت ادا کردے۔
اس واقعہ کو پڑھ کرمجھے بھی بھوپال کے ایک ہفتہ وار ایڈیٹر کی یاد آگئی جس نے مجھے اور فکر تونسو ی کو طنز و مزاح کے ایک جلسہ میں بلایا تھا ۔ وعدہ کیا تھا کہ وہ ہم دونوں کو آنے جانے کا فرسٹ کلاس کا کرایہ ادا کرے گا اور اگر جلسہ کامیاب رہا تو وہ سو روپیہ فی کس معاوضہ بھی ادا کرے گا ۔ میں اور فکر تونسوی فرسٹ کلاس سے بھوپال گئے ۔ اس نے پہلے تو ہمیں دہلی سے بھوپال جانے کا سیکنڈ کلاس کا کرایہ ادا کیا ۔ پھر کہا کہ وہ جلسہ کے بعد واپسی کا کرایہ اور باقی رقم ادا کردے گا۔ جلسہ بے حد کامیاب رہا لیکن جلسہ کے فوراً بعد وہ ایڈیٹر ایسا غائب ہوا کہ تلاش بسیار کے باوجود نہیں ملا۔ اس کی تلاش میں ، میں نے اور فکر تونسوی نے تقریباً سارا بھوپال دیکھ لیا مگر وہ نہیں ملا ۔ بالآخر ہم دونوں ادب کی بے لوث خدمت انجام دینے کے بعد دہلی واپس آگئے ۔ فکر تونسوی نے اس ایڈیٹر کے خلاف ایک عدد کالم اور میں نے ایک عدد مضمون لکھا ۔ مجھے یقین ہے کہ جس ہفتہ وار اخبار کے ایڈیٹر نے کنور صاحب کے ساتھ یہ سلوک کیا تھا وہ وہی تھا جس نے ہمیں کبھی اردو کی بے لوث خدمت انجام دینے پر مجبور کیا تھا ۔ میں چاہوں تو اس ایڈیٹر کا نام ظاہر کرسکتا ہوں لیکن جب کنور صاحب نے خود ہی اسے پوشیدہ رکھنا چاہا ہے تو میں کون ہوتا ہوں اس کا نام ظاہر کرنے والا ۔
سنا ہے کہ کنور صاحب شکار کے بھی شوقین رہے ہیں۔ مجھے کبھی ان کے ساتھ شکار پر جانے کا اتفاق نہیں ہوا البتہ ان کی ایک تصویر ضرور دیکھی ہے جس میں وہ اپنے مارے ہوئے ایک شیر کی نعش پر اپنا سیدھا پاؤں اور بندوق رکھے کھڑے ہیں ۔ اس تصویر کی سب سے اہم خصوصیت مجھے یہ نظر آئی کہ اس میں کنور صاحب دیگر شکاریوں کی طرح اپنی فتح پر مسکراتے ہوئے نظر نہیں آتے بلکہ شیر کے ہونٹوں پر میں نے ضرور ایک عجیب سی مسکراہٹ دیکھی ہے ، جیسے وہ کنور صاحب کے ہاتھوں اپنے ہلاک ہونے پر نازاں، فرحاں اور شاداں ہو۔
کنور صاحب جیسی ہشت پہلو شخصیت کے بارے میں کہنے کو میرے پاس بہت سی باتیں ہیں۔ اُن کی شخصیت جن تہذیبی قدروں اور عوامل سے مل کربنی ہے ، وہ قدریں اب معدوم اور ایسی شخصیتیں بھی اب نایاب ہوتی جارہی ہیں۔ ہماری یہ خوش بختی نہیں تو اور کیا ہے کہ ہم نے اپنی آنکھوں سے ایسی شخصیتوں کو دیکھا ۔ وہ رواداری ، انسان دوستی ، محبت ، یگانگت اور خلوص کا ایک انوکھا پیکر ہیں۔ جسے عزیز رکھیں، اس کیلئے کچھ بھی کر گزریں۔ 1984 ء میں جب مجھے طنز و مزاح کا ساگر سوری غالب ایوارڈ دینے کا ا علان کیا گیا تو میں حیران رہ گیا ۔ میں نے پتہ لگانے کی کوشش کی کہ اس انعام کے لئے میرے انتخاب کی غلطی کس سے سرزد ہوئی ہے۔ جب معلوم ہوا کہ کنور مہندر سنگھ بیدی اس انعامی کمیٹی کے رکن ہیں تو غلطی کی وجہ بھی سمجھ میں آگئی ۔ میں نے ان سے کہا بھی کہ میں اس انعام کا مستحق نہیں ہوں۔ مجھ سے سینئر مزاح نگار کئی اور بھی ہیں۔ مانا کہ آپ مجھے عزیز رکھتے ہیں لیکن اردو ادب تو مجھے اتنا عزیز نہیں رکھتا ۔ مگر وہ نہ زمانے اور مجھے انعام دلواکر ہی دم لیا۔
نومبر 1984 ء میں مسز اندرا گاندھی کے قتل کے بعدجب دہلی میں فسادات پھوٹ پڑے تو ہم سب پریشان ہوگئے ۔ کنور صاحب کی خیریت معلوم کرنے کیلئے جب اُن کے گھر فون کیا تو معلوم ہوا کہ وہ کسی دوست کے گھر منتقل ہوگئے ہیں۔ اُن کے دوست نارنگ ساقی نے بتایا کہ ان کے بیٹے کی کوٹھی جلادی گئی ہے اور ان کا کافی نقصان ہوا ہے۔ جب حالات ذرا سنبھلے تو میں ان سے ملنے گیا ۔ چہرے پر وہی شگفتگی ، بشاشت اور تازگی نظر آئی ۔ انہوں نے فسادات کا ذکر تک نہ کیا ۔ جب میں نے ہی اپنے طور پر فسادات پراپنے دکھ کا اظہار کیا تو بڑی متانت اور خاموشی کے ساتھ بولے۔ ’’وہی ہوتا ہے جو منظورِ خداہوتاہے‘‘۔
اب بھلا بتایئے اس کے بعد میں اُن سے اس موضوع پر کیا بات کرسکتا تھا ۔ اُن کا یہ تبصرہ مجھے آج بھی اُن کی شخصیت کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔
اگرچہ کنور صاحب کی مادری زبان پنجابی ہے لیکن اردو سے انہیں جو والہانہ عشق ہے ایسا عشق مجھے کسی اردو والے کے ہاں نظر نہیں آیا۔ وہ سراسر اردو تہذیب کی زندگی جیتے ہیں۔ اردو سے متعلق دہلی کی کوئی ادبی سرگرمی اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک اسے کنور مہندر سنگھ بیدی کی سرپرستی حاصل نہ ہو۔
اُن کی کتاب ’’یادوں کا جشن ‘‘ ایک ایسی شخصیت کی یادوں کا مجموعہ ہے جس نے اس  برصغیر کی تاریخ کے ایک کربناک اور نازک دور سے گزرنے کے باوجود انسان دوستی کے دامن کو اپنے ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیا اور جس کے پائے استقامت کو کسی بھی آزمائش میں لڑکھڑاہٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ایک اعتبار سے یہ کتاب برصغیر کی تاریخ کو صحیح پس منظر میں سمجھنے کیلئے ایک نیاز اویۂ نگاہ عطا کرتی ہے اور آنے والی نسلوں کیلئے آدرش کی حیثیت رکھتی ہے۔
کنور صاحب اپنی مصروف سماجی زندگی میں سے شام کے دھندلکے میں کچھ وقت ضرور نکال لیتے ہیں جب وہ چیمسفورڈ کلب کے لان پر اکیلے چہل قدمی کرتے ہوئے گوربانی کا پاٹھ کرتے ہیں ۔ دوست بھی موجود ہوں تو اجازت لے کر پاٹھ کرنے کیلئے چلے جاتے ہیں۔ میں نے اکثر انہیں تنہائی میں اس طرح کی عبادت کرتے دیکھا ہے ۔ وہ اپنے سر کو جھکائے چپ چاپ چلتے رہتے ہیں جیسے انہیں اس دنیا سے کوئی علاقہ نہ ہو۔ ایسے وقت وہ مجلسی آدمی بالکل نہیں دکھائی دیتے۔ انہیں دیکھ کر میرا جی بھی خدا سے دعا کرنے کو چاہتا ہے کہ کنور صاحب برسوں ہمارے درمیان رہیں اور اپنی باتوں سے ہمیں جینے کا نیا حوصلہ عطا کرتے رہیں۔ اس وقت مجھے ایک بچہ کی یاد آگئی جسے رات میں سونے سے پہلے ماں نے کئی دعائیں مانگنے کی تاکید کی تھی۔ آخرمیں ماں نے بچہ سے کہا ’’بیٹا اب ذرا اپنے نانا جان کی درازیٔ عمر کیلئے بھی دعا مانگو کہ وہ کئی برس تک اس دنیا میں زندہ رہیں‘‘۔ اس پر بچہ نے کہا ’’نہیں ماں ! یہ دعا بیکار ہے ۔ نانا جان اب ویسے بھی اتنے کمزور ہوگئے ہیں کہ اس بڑھاپے کے ساتھ اُن کا مزید کچھ برس تک زندہ رہنا مناسب نہیں ہے۔ برخلاف اس کے میں خدا سے دعا کرنا چاہوں گا کہ وہ انہیں پھر سے نوجوان بنادے‘‘۔ کنور صاحب کے تعلق سے میری دعا کی نوعیت بھی کچھ اسی طرح کی ہے ۔ خدا کے فضل سے مہ وسال کی اس گردش کے باوجود ان میں آج بھی نوجوانوں کی سی توانائی اور حوصلہ ہے اور اسی توانائی اور حوصلہ کا نام کنور مہندر سنگھ بیدی سحرؔ ہے ۔ میری دعا ہے کہ اُن کی یہ توانائی اور جولانی ہماری آخری سانس تک قائم و دائم رہے ۔ (آمین)
(ڈسمبر 1986 ئ)