کم سن لڑکے کا جھوٹ بولنا

سوال :  میرا لڑکا قرآن مجید حفظ کر رہا ہے ۔ اللہ کے فضل و کرم سے بارہ پارے ہوچکے ہیں۔ اس کی عمر گیارہ سال ہے ۔ وہ اکثر جھوٹ بولتا ہے۔ باتیں بنادیتا ہے ، نماز سے غفلت کرتا ہے ، میں اکثر اسے ڈانٹتی ہوں ، سمجھاتی ہوں پھر بھی وہ جھوٹ سے باز نہیں آتا۔ نماز کی پابندی نہیں کرتا۔کبھی کبھی بغیر اطلاع کے میرے پرس سے پیسے لے لیتا ہے اور پوچھنے پر انکار کردیتا ہے، اس لئے مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں اس کے گناہ کی وجہ سے وہ عذاب میں گرفتار تو نہیں ہوجائے گا اور اس کا حفظ پایہ تکمیل کو پہنچے گا یا نہیں ۔ براہ کرم اس سلسلہ میں میری رہنمائی فرمائیں ؟
نام ندارد
جواب :  شریعت کے احکام کی فرضیت اور اس کا وجوب مکلف پر ہے اور ’’ مکلف‘‘ شریعت میں ، مسلمان عاقل و بالغ مرد و عورت کو کہا جاتا ہے۔ ردالمحتار جلد 1 ص : 245 کتاب الصلوۃ میں ہے : المکلف ھوالمسلم البالغ العاقل و لوانثی او عبدا ۔ بالغ ہونے سے قبل انسان مکلف نہیں اور اس پر شرعی احکامات فرض نہیں ، اس لئے اگر اس سے نمازیں فوت ہوجائیں یا وہ جھوٹ ، چوری وغیرہ برے اعمال کا مرتکب ہوجائے تو اس کا مواخذہ نہیں ہوگا ۔بلوغ سے قبل نماز ترک کرنا اور برے و مذموم اعمال جیسے جھوٹ بولنا ، چوری کرنا ، باتیں بنانا، ماں باپ کی بات نہ سننا ، موجب عذاب نہیں ، البتہ والدین کو یہ حکم دیا گیا کہ نابالغ بچوں کو نماز و روزہ رکھنے کے لئے سات برس کی عمر کے بعد زبان سے کہیں اور دس سال کی عمر کے بعد ہاتھ سے ماریں اور یہ حکم اس لئے دیاگ یا ہے کہ بچے اچھے کاموں کے عادی ہوجائیں اور برے کاموں سے بچنے لگیں۔
پس آپ نرمی ، شفقت سے اپنے لڑکے کو نماز کی ترغیب دیں اور ترک کرنے پر زجر و توبیخ کریں اور اس کے بعض نا پسندیدہ اعمال کی وجہ کبیدہ خاطر اور مایوس نہ ہوں ، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعاء بھی کرتے رہئیے اور صبر و تحمل سے بچے کی تربیت کرتے رہئیے اور یہ بات ذہن میں رکھیں کہ اولاد کو سیدھے راستہ پر رکھنا، ان کی صحیح تربیت کرنا ہی ماں کا جہاد ہے۔

میاں، بیوی کے مختلف مسائل
سوال :  کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ میں کہ میاں بیوی میں جھگڑا ہوا۔ میاں نے کہا کہ ’’ گھر کام نہیں کرنا ہے ‘‘ یا ’’ میرا کام نہیں کرنا ہے ‘‘ یا ’’ میری بات نہیں ماننا ہے ‘‘ تو ’’ گھر سے نکل جا‘‘ ، ’’ چلی جا ‘‘ کہہ کر دھکیل دیا ۔ برائے مہربانی قرآن و حدیث کی روشنی میں مدلل جواب عنایت فرمائیں۔ برائے مہربانی فقرہ واری جواب عنایت فرمائیں ۔
۱۔  ’’ گھر سے نکل جا‘‘ تین مرتبہ کہتے ہوئے دھکیل دینے پر کیا حکم ہے ؟
۲ ۔  بیوی کے ذمہ شوہر کے بالغ (5 یا 6 ) بھائیوں کا کام کرنا ہے یا نہیں ۔ اس کا کیا حکم ہے ؟
۳ ۔ بیوی اگر بیمار ہو تو اس کے ذمہ ماں باپ یا شوہر کی خدمت بیماری کی حالت میں کرنا لازم ہے یا نہیں اس کا کیا حکم ہے ؟
۴ ۔  شوہر کہے کہ میرے ماں باپ اور بھائیوں کی خدمت کرو وہ اگر خوش ہیں تو میں بھی خوش ہوں ورنہ میں بھی تم سے ناراض ہوں تو اس کے لئے کیا حکم ہے ؟
۵ ۔  بیوی بیماری کی وجہ سے شوہر سے یہ کہے کہ آپ کو صبح جانا ہے اس لئے میں آپ کا جو کام ہے وہ صبح آپ کے جانے سے پہلے کردیتی ہوں اب اس وقت میری طبیعت بہت خراب ہے اور شوہر کہے کہ ’’ نہیں ابھی یعنی رات میں ہی یہ کام کردو‘‘ اور پھر اسی بات پر شوہر مذکورہ بالا فقرہ نمبر (۱) کہتا ہوا دھکیل دیا تو اس کے لئے کیا حکم ہے ؟
۶ ۔  تین منزلہ بلڈنگ میں اوپری تیسری منزل پر باورچی خانہ ہے اور دوسری اور پہلی منزل پر رہائش ہے تو صبح سے شام تک اوپر سے نیچے آنے جانے میں بیوی کے پیروں میں درد ہوگیا ہے تو اس کیلئے شوہر پر کیا ذمہ داری ہے جبکہ شوہر کہتا ہے  کچھ بھی ہو تم کو کام کرنا ہی کرنا ہے تو اس کیلئے کیا حکم ہے ؟ (اور اسی وجہ سے حمل بھی ضائع ہوتا جارہا ہے)
۷ ۔  شوہر صبح سات (7) بجے جاکر رات میں (11) یا (12) بجے تک آتا ہے ۔ اس اثناء میں ماں طعنہ تشنہ سے کام  لیتی ہے جس کی وجہ سے بیوی کو مرض دق لاحق ہوگیا ہے تو اب اس پر شوہر کی کیا ذمہ داری ہے اور اس کا حکم کیا ہے ؟
۸ ۔ بیوی اب اپنے ماں باپ کے پاس ہی ہے مزاج کی ناسازی کی وجہ سے شوہر کے لوگ بات چیت کے لئے آرہے ہیں۔ برائے مہربانی قرآن و حدیث کی روشنی میں بیوی کے لئے کیا حکم ہے ، بتائیں تو مہربانی ہوگی ؟
محمد معز، محبوب نگر
جواب :  ۱ ۔ ’’گھر سے نکل جا‘‘ ’’ چلی جا‘‘ کنایہ کے الفاظ ہیں اور اسمیں نیت کا اعتبار ہے طلاق کی نیت تھی تو طلاق ہوگی ورنہ نہیں۔
۲ ۔ بیوی کے ذمہ یہ کام واجب نہیں ہے۔
۳ ۔ حسب طاقت شوہر کی خدمت کرے۔ ساس سسر کی خدمت کرنا واجب نہیں۔
۴ ۔ شوہر کو راضی رکھنے کیلئے خدمت کرسکتی ہے۔
۵ ۔  شوہر کا عمل غیر شرعی ہے۔ نیت طلاق کی تھی تو طلاق ہوگی ورنہ نہیں۔
۶ ۔ دونوں آپس میں صلح کرلیں۔ بیوی بھی انسان ہے، انسانیت کو پیش نظر رکھیں۔ بیوی موزوں وقت اوپر جاکر باورچی خانہ کا مکمل کام کر کے اترے
۷ ۔  شوہر پر لازم ہے کہ ایسا انتظام کرے کہ بیوی کو اپنی ساس کے طعنے سننے کا موقع نہ ہو یا علحدہ مکان لے کر رکھے۔

طہارت کیلئے ڈھیلے کا استعمال
سوال :  اگر طہارت کے لئے پانی اور ڈھیلا دونوں ہوں تو ہمیں استعمال کے لئے زیادہ اہمیت کس کو دینا چاہئے ۔ کیا پانی موجود نہیں رہنے کی صورت میں ہمیں ڈھیلا استعمال کرنا چاہئے ؟
محمد سبحان، فلک نما
جواب :  طہارت سے اصل مقصود نجاست کا دور کرنا ہے۔ طہارت کے لئے پانی کا استعمال پسندیدہ ہے۔ ڈھیلا اور پانی کا استعمال افضل ہے۔
نور الایضاح ص : 28 میں ہے۔ ’’ و ان یستنجی بجر منق و نحوہ والغسل بالماء احب والافضل الجمع بین الماء والحجر‘‘ ۔ اور جو لوگ طہارت کے لئے ڈھیلا اور پانی دونوں کا استعمال کرتے ہیں ان کی قرآن مجید میں تعریف آئی ہے ۔ ’’ فیہ رجال یحبون ان یتطھروا واللہ یحب المطھرین ‘‘ (التوبہ 108/9 )
(اس میں ایسے چند لوگ ہیں جو خوب پاکیزگی کو پسند کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ خوب پاکی کا اہتمام کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے)
یہ آیت شریفہ مسجد قباء کی تعریف میں نازل ہوئی جس میں وہاں رہنے والے انصار صحابہ کی صفائی و ستھرائی کی تعریف کی گئی ۔ سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت کیا کہ تم کیسے طہارت حاصل کرتے  ہو تو انہوں نے کہا کہ ہم طہارت میں پتھر اور پانی کا استعمال کرتے ہیں۔ تو آ پ نے دیگر صحابہ کو بھی اس کا حکم فرمایا۔ ’’ فقالوا کنا نتبع الجمارۃ بالماء فقال ھو ذاک فعلیکموہ (تفسیر جلالین ص : 167 )
سفر کی قضاء نمازوں کی حضر میں ادائیگی
سوال :  میں محبوب نگر کا متوطن ہوں مہینہ میں دو چار مرتبہ تجارت کے سلسلہ میں حیدرآباد آتا ہوں جب حیدرآباد آتا ہوں تو بسا اوقات عصر کی نماز مجھ سے چھوٹ جاتی ہے تو میں محبوب نگر پہنچ کر اس کی قضاء کرلیتا ہوں۔ ایسی صورت میں کیا مجھے عصر کی دو رکعت نماز قصر  کرنا چاہئے یا چار رکعت پوری پڑھنا چاہئے ۔ جلد از جلد جواب دیں تو مہربانی ہوگی ؟
محمد احمد شریف، ورنگل
جواب :  اگر کسی شخص سے حالت سفر میں چار رکعات والی نماز مثلاً عصر کی نماز چھوٹ جائے اور وہ اپنے وطن واپس ہونے کے بعد اس کی قضاء کرنا چاہے تو اس کو دو رکعت ہی سے قضاء کرنا ہوگا ۔ اسی طرح اگر کوئی مسافر بحالت سفر اپنے وطن میں فوت ہوئی چار رکعت والی نمازوں کی قضاء کرنا چاہے تو اس کو چار رکعت ادا کرنا ہوگا ۔ عالمگیری ج : 1 ، ص : 121 میں ہے: ’’ و من حکمہ ان الفائتۃ تقضی علی الصفۃ التی فاتت عنہ الا بعذر و ضرورۃ فیقضی مسافر فی السفر ما فاتہ فی الحضر من الفرض الرباعی اربعاً  والمقیم فی الاقامۃ مافاتہ فی السفر منھا رکعتین‘‘۔

سورہ یسین کی تلاوت سے
عذاب قبر میں تخفیف
سوال :   لوگ ایصال ثواب کے لئے عموماً قرآن خوانی کا اہتمام کرتے ہیں۔ برسی ، چہلم کے موقعہ پر خصوصیت کے ساتھ ختم قرآن ہوتا ہے اور مرحوم کے لئے ایصالِ ثواب کیا جاتا ہے ۔کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم سے کوئی روایت موجود ہے جس میں قرآن کو ایصال ثواب کا ذریعہ بنایا گیا ہے ۔
آصف احمد ، پھسل بنڈہ
جواب :  نورالاایضاح باب احکام الجنائز میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص قبرستان میں داخل ہوکر سورۃ یسین کی تلاوت کرے تو اللہ تعالیٰ اہل قبور کے عذاب میں اس دن تخفیف فرمالے گا اور تمام اہل قبور کی تعداد کے موافق پڑھنے والے کو نیکیاں ملیں گی۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما نے دفن کے بعد قبر پر سورۃ البقرۃ کی پہلی آیتیں ’’ الم ‘‘ سے ’ ’المفلحون‘‘ اور ’’ آمن الرسول ‘‘ سے ختم سورہ تک پڑھنا مستحب قرار دیا۔ (در مختار باب الجنائز مطلب فی دفن المیت )
مسلم شریف کی روایت میں ہے : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کسی مسلمان کا انتقال ہوجاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہوجاتا ہے ۔ سوائے تین چیزوں سے ۔ ایسا علم جس سے نفع اٹھایا جائے۔ صدقہ جاریہ اور نیک اولاد جو اس کے لئے دعاء مغفرت کرتے رہے۔
اس حدیث شریف سے واضح ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کو قرآن پڑھنا سکھائے تو جب وہ قرآن پڑھیگا اللہ تعالیٰ قرآن پڑھنے والے کے ساتھ قرآن سکھانے والے کو بھی اجر و ثواب عطا فرمائے گا۔

غسل میں وضو
سوال :  اگر کوئی شخص غسل کرتے ہوئے تمام بدن کو اچھی طرح صابن اور پانی سے دھولے، کلی بھی کرے اور ناک بھی پانی سے صاف کرے لیکن نہ تو اس نے وضو کی نیت کی اور نہ ترتیب وار اعضاء وضو کو دھویا معلوم کرنا یہ ہے کہ اس طرح کا غسل اور وضو مکمل ہوا یا نہیں یا اس کو دوبارہ وضو کرنا ہوگا ؟
زین ا لعابدین، مرادنگر
جواب :  غسل میں تین امور فرض ہیں : کلی کرنا ، ناک میں پانی چڑھانا اور سارے بدن پر پانی ڈالنا۔ فتاوی عالمگیری ج : 1 ، ص : 13 باب الغسل میں ہے۔ الفصل الاول فی فرائضہ وھی ثلاث المضمضہ والاستنشاق و غسل جمیع البدن۔ فرض کی تکمیل سے غسل  ہوگیا۔ غسل میں خودبخود وضو بھی ہوجاتا ہے۔