کمسن بچیوں کی عصمت دری پر پھانسی

کل جب حکومت ہند نے ایک آرڈیننس کے ذریعہ کمسن بچیوں کی عصمت دری کرنے والو ں کو پھانسی دئے جانے کا قانون بنایا تو ملک گیر پیمانے پر خیر مقدم ہوا۔خوشی کی بات یہ ہے کہ اس آرڈینس میں زانیوں کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لئے تفتیش او رمقدمہ کی سماعت پر انگلی اٹھانے کا کوئی حق نہیں ہے ۔

لیکن پھانسی دئے جانے کو جو لوگ غیر انسانی فعل سمجھتے ہیں وہ اس پر خوش نہیں ہیں۔ان کی ناراضگی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آج کی ترقی یافتہ دنیا میں سزائے موت کو غیر مہذب اور غیر انسانی تصور کیا جاتا ہے۔اسی وجہ سے اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی نے ۲۰۱۲ء
میں کہا تھا کہ وہ سزائے موت کو ختم کریں مگر ہندوستان نے اس کے خلاف کہا تھا کہ وہ ایسا کرنے کا حق نہیں رکھتے ۔

لہذا ہمارے ملک میں سزائے موت کو ایک قانونی شکل حاصل رہی ۔ اور پھانسی دینے کے معاملہ میں عدالتوں نے بہت احتیاط سے کام لیا ہے اسی وجہ سے آزادی کے بعد سے لے کر آج تک صرف ۵۲؍ افراد کو پھانسی پر لٹکایا گیا ہے۔

حالانکہ کچھ غیر سرکاری اداروں نے ہندوستان میں دی جانے والی پھانسیوں کی سزا کو کہیں زیادہ بتا یا ہے مگر وہ قابل اعتبار نہیں ۔ کیوں کہ ہندوستان میں غیر اعلانیہ طور پر سزا نہیں دی جاتی ۔نٹھاری میں ننھے ننھے بچوں کی عصمت در ی کرکے ان کو قتل کرنے کے بعد ان کے گوشت کو پکاکر کھانے والا درندہ سریندر کولی کا جرائم کے انکشاف ۲۰۰۶ء میں ہواتھا اور بارہ سال گذر جانے کے بعد وہ شخص آج بھی کھلے عام گھوم رہاہے۔

جب کہ کئی مقدموں میں اس کو پھانسی کی سزا سنائی جاچکی ہے مگر کوئی نہ کوئی تکنیکی وجہ یا دوسرے مقدمے کی وجہ سے آج تک نٹھاری کے ان بچوں کو انصاف نہیں ملا ۔بہر حال نئے قانون میں سرعت کے ساتھ سنوائی کا قانون بھی بنا ہے اس لئے کچھ امید بندھی ہے۔

امید ہے کہ عصمت دری کے واقعات میں کمی آئے گی۔اور اب ہندوستان کی کسی خاتون کو آبروریزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے وزیر اعلی کے گھر کے سامنے خودسوزی کی کوشش نہیں کرنا پڑے گی۔