’’کل ہم نہ ہوں گے‘‘ نئی رُتوں کا شاعر رؤف خلشؔ

ڈاکٹر فاروق شکیلؔ

اجمالی تعارف :
نام : سید رؤف ، قلمی نام : رؤف خلشؔ، پیدائش : 4 جنوری 1941 ء ، تعلیم : ڈپلوما ان آرکیٹکچر (جواہر لعل نہرو ٹکنالوجیکل یونیورسٹی حیدرآباد) ، کتابیں : ’’نئی رتوں کا سفر ‘‘ (شعری مجموعہ 1979 ء (2) ’’صحرا صحرا اجنبی‘‘ (شعری مجموعہ) 1988 ء (3) شاخِ زیتون (شعری مجموعہ) 1998 ء (4) ’’شاخسانہ ‘’ (شعری مجموعہ 2007 ء (5) ’’حکایت نقد جاں کی‘‘ (مضامین و تبصرے) 2012 ء (6) تلخیص ابن الوقت‘‘ (تنقید و تبصرہ ) 2014 ء ، ایوارڈ ’’کارنامۂ حیات ایوارڈ‘‘ 2015 ء اردو اکیڈیمی تلنگانہ۔
رؤف خلش حیدرآباد کے جدید شعراء میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ انہوں نے شاعری کے تبدیل ہوتے ہوئے منظر نا مے ، بدلتے اسلوب کو ایک نیا پن دیا ہے ۔ جدید شاعری کی خشک ہواؤں اور تازہ جھونکوں میں رؤف خلش نے بھی اپنے احساسات کو روشن رکھا ۔ علامتی اور استعاراتی اظہار نے ان کی غزلوں کی تہہ داری اور رمزیت میں اضافہ کیا ہے ۔ انہوں نے مضامین کی جدت اور اظہار کی ندرت کے ساتھ جدید غزل کی تعمیر و تشکیل میں اہم رول ادا کیا ہے۔ ان کی شاعری میں اردو کی شعری روایت کا تسلسل اپنے تمام تر تہذیبی و سماجی تناظر کے ساتھ ان کے انفرادی لہجے میں ڈھلتا ہے ۔ رؤف خلش کی نظمیہ کائنات میں بھی ان کے انفرادی لہجے کی کھنک موجود ہے ۔ ان کاکلام پڑھنے سے محسوس ہوتا ہے کہ جذبے بولتے ہیں، دھڑکنیں گویا ہوتی ہیں، زخم روشنی دیتے ہیں ۔ منظر سے پس منظر ابھرتے ہیں۔
منتخب اشعار :
ہوا سے لڑنے میں ہم ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں
مگر فضا کو نئی دستکیں سناتے ہیں
غم کی دھوپ اترتے ہی کیوں پگھلنے لگتی ہے
یاد کے گھروندے میں موم کی بنی کھڑکی
زخموں کو پھول کردے ، تنہائیوں کو مرہم
سو قربتوں پہ بھاری ہجرت کا ایک موسم
چھپنے کو شہر ذات بچا تھا مرے لئے
اس شہر میں بھی چاروں طرف آئینے لگے
تیری گفتار خلشؔ اور قرینہ مانگے
بول میٹھے سہی لہجے میں ذرا تلخی ہے
چاہ کرتے ہیں تو کیا لوگ وفا کرتے ہیں
تم کہو شہر کی اب آب و ہوا کیسی ہے
بچھڑے ہوؤں کی یاد منانے میں لگ گئے
کیوں دل ہمارے پچھلے زمانے میں لگ گئے
اتنے اُڑے کہ دور اڑالے گئی ہوا
اتنے جھکے کہ سانس انا کی اکھڑ گئی
کہیں ہجوم میں تنہائی مل گئی تھی مجھے
میں رودیا تری یادوں سے گفتگو کر کے
اُترو خود اپنی ذات کی گہرائی میں خلشؔ
اُبھرے جو اپنے آپ کو پانے کی آرزو
جذب کر کے رکھ لینا دستکیں ہتھیلی میں
جب سے میں سفر میں ہوں ہم سفر ہیں دروازے
اک جنگ تھی وہ گرمئی گفتار نہیں تھی
دونوں کی انا مٹنے کو تیار نہیں تھی
دھنک کے رنگ ، سلگتے بدن ، جواں خوشبو
یہ کیسے خواب میری نیند سے چرائے چاند
نظم ’’نیا مفہوم ‘‘
درد، مروت ، رشتے ناطے
بچپن میں ان لفظوں کے کچھ معنی تھے
جیسے جیسے دن بیتے
ان لفظوں کے معنی بدلے
اب یہ دنیا عمر کی جس منزل میں ہے
لگتا ہے یہ سارے الفاظ
اندھے ہوکر
اپنے آپ کو ڈھونڈ رہے ہیں
غزل
بستیوں پر ہے مسلط نیند کا اکک سائباں
جھوٹ پہرہ دے رہے ہیں قید ہیں سچائیاں
عمر کا حاصل یہی بوجھل قدم بوجھل سفر
پیٹھ پر لادے ہوئے کچھ خواہشوں کی گھڑیاں
کون سے منظر تھے آخر کس کو ننگا کر گئے
کس کے چہرے پر ملی ہیں وقت نے رسوائیاں
ان لہو کے موسموں کا اب تقاضا ہے یہی
خون سے لکھا کریں اس داستاں کی سرخیاں
خیریت پوچھو نہ تم باشندگانِ شہر کی
تم نے کیا دیکھیں نہیں اخبار کی وہ سرخیاں
ان میں کیا کھویا ہوا ورثہ تمہیں مل جائے گا
ڈھونڈتے ہو کیا خلشؔ خوابوں کی بکھری دھجیاں