’’ کل ہم نہ ہوں گے ‘‘ سخن شناس شاعر

ڈاکٹر فاروق شکیل

تجمل اظہرؔ
اجمالی تعارف :
نام : صاحبزادہ نواب میر محمد تجمل علی خان صدیقی القادری رئیس ،قلمی نام : تجمل اظہرؔ ‘ پیدائش : یکم جولائی 1950ء ‘ تعلیم بی کام ( عثمانیہ ) ڈی سی پی ۔ کتابیں : ’’ اوراق دل ‘‘ ( مجموعہ کلام) زیر طبع۔ تجمل اظہرؔ کو شاعری وراثت میں ملی ہے ان کے والد جہاں دار افسرؔ منفرد لہجے کے شاعر تھے ۔ تجمل اظہرؔ عالم شباب میں کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ رہے اور عوامی تحریکوں میں پیش پیش رہے ۔ اب انجمن ترقی پسند مصنفین کے سکریٹری کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں سماجی ‘ معاشرتی کرب ملتا ہے ۔ درون و بیرون ذات کے احساسات اور جذبات بھی کارفرما ہیں ۔ انہوں نے اپنے لہجے کو روش عام سے ہٹ کر اپنا انفرادی انداز دیا ہے ۔ ثقالت گریز زبان میں انہوں نے تازگی اور شگفتگی کے ساتھ تیکھے انداز کو بھی اپنایا ہے ۔ معاصر زندگی میں اقدار کی پامالی کا احساس اور اپنی داخلی شخصیت کا منظر نامہ بھی پیش کیا گیا ہے ۔
منتخب اشعار :
نبیؐ کی نعت میں نے لکھی ہے
فضاء گھر کی مرے مہکی ہوئی
نہیں ہے کوئی سروکار اس کو دنیا سے
جو اپنے دل میں مدینہ بسائے رکھتا ہے
وہ سلسلہ تو غلامی کا اب بھی جاری ہے ؔ
ہماری صبح کے چہرے پہ رات طاری ہے
نہ حویلی ہے نہ اجداد کا گھر باقی ہے
اس فقیری میں بھی شاہانہ اثر باقی ہے
ہرسوبنام امن بہت مشورے ہوئے
میری صدی کے حق میں فقط شور و شر رہا
جلا نہ دے کہیں بارود تلخ لہجوں کی
کوئی تو بولے کبھی پیار کی زباں ہم سے
تری طلب میں جوگمنام ہوگیا کوئی
کوئی مقام کوئی نام تو دیا جائے
یہ زندگی سے ملا مجھ کو فلسفہ اتنا
کسی نے جیت لی دنیا کسی نے ہاردی ہے
دور اک ایسا بھی آئے گا اسی دنیا میں
رشتہ داروں میں فقط فرضی محبت ہوگی
عقیدے روز بدلنا ہے دوستوں کا شعار
کہ جیسے کوئی بدلتے ہوئے لباس ملے
تمام عمر جسے کھوجنے میں بیت گئی
ملی تو آکے ملی زندگی کہاں ہم سے
اظہرؔ شرافتوں کا لبادہ اتار پھینک
ظالم اسی لباس میں ہر فتنہ گر رہا

قطعات
سرپہ دستارِ فضیلت مرے اجدادکی ہے
میوزیم میں بھی یہ زینت مرے اجداد کی ہے
سرپہ میرے کوئی دستار نہیں ہے لیکن
خون میں میرے حلاوت مرے اجداد کی ہے
سخن کے نام پہ بس میں نے شاعری کی ہے
کسی سے عشق لڑایا نہ عاشقی کی ہے
اجالے بانٹتے پھرتا رہا ہوں میں برسوں
جلا کے خانۂ دل میں نے روشنی کی ہے
دھوپ ڈھلتی ہے تو سایوں کو بڑھا دیتی ہے
پست قامت کو بھی احساسِ انا دیتی ہے
بے شعوروں کو یہاں سرپہ بٹھاکر رکھنا
ہوش مندوں کو نگاہوں سے گرادیتی ہے

غزل
شرافتوں کی ابھی کچھ تو آس رہنے دے
بچی ہے بس یہ وراثت تو پاس رہنے دے
کتابِ زیست سے منسوب کوئی ذات رہے
مرے لئے تو بس اک اقتباس رہنے دے
نگاہِ ناز کی بے باکیاں نہ ہوں عریاں
نظر میں اپنی حیا کا لباس رہنے دے
تو جاچکا ہے تری دیدنی بھی مشکل ہے
ترا خیال مرے دل کے پاس رہنے دے
بہت عزیز ہے مجھ کو یہ آنسووں کی جلن
ان آنسوؤں کو ابھی میرے پاس رہنے دے
میرے خطوط کو تو احتیاط سے رکھنا
خلوصِ دل کی کوئی تو اساس رہنے دے
رواں ہے آج بھی سانسوں کا سلسلہ اظہرؔ
میں جی رہا ہوں ابھی یہ قیاس رہنے دے