’’کل ہم نہ ہوں گے‘‘ جانشین حضرت خواجہ شوق

ڈاکٹر فاروق شکیل

جلال عارفؔ
اجمالی تعارف :
نام : محمد جلال الدین ، قلمی نام : جلال عارفؔ ، ولدیت : محمد زین العابدین مرحوم، پیدائش : 16 اگست 1942 ء ، تعلیم : پی یو سی ، پیشہ : موظف اسسٹنٹ کمرشیل ٹیکس آفیسر ، کتابیں : (1) ’’شناخت‘‘ (شعری مجموعہ) (2) ’’زخموں کی سوغات‘‘ (شعری مجموعہ) (3) ’’تحریریں‘‘ (مضامین و تبصرے) (4) ’’نور لولاک‘‘ (نعتیہ مجموعہ) ، مرتبہ کتابیں : ’’دیوان تخیل قادر‘‘ (اردو ا کیڈیمی آندھراپردیش نے شائع کیا) ’’پھولاں نچ پھولاں‘‘ (بے ہوش محبوب نگری کی دکنی نعتوں کا مجموعہ) ،’’قائدمحترم سید خلیل اللہ حسینی (بانیٔ تعمیر ملت ، شخصیت و خدمات) ، ’’دل درد مند کی صدا ‘‘ (نگارشات غوث خاموشی) ’’ملت کا خاموش خدمت گزار‘’ (مشاہیر و دانشوروں کے غوث خاموشی کی شخصیت و خدمات پر مضامین) ، ترتیب و تزئین : ’’نور در نور‘‘ (سید شاہ نورالحمید نوری کانعتیہ مجموعہ) ، ’’ایک جانباز سپاہی‘‘ (پولیس ایکشن کی ایک بھولی ہوئی کہانی) ، انعامات و اعزازات : اردو اکیڈیمی اور کئی انجمنوں کی جانب سے ایوارڈس۔
جلال عارف اپنے نام کے برخلاف جلالی نہیں بلکہ جمالی ہیں۔ نہایت منکسر المزاج ، مخلص بے ریا ، دل بغض و حسد سے پاک ، طبیعت میں شگفتگی ، کہنہ مشق شاعر ہونے کے باوجود فطرت میں سادگی ، حضرت خواجہ شوق رقم طراز ہیں۔ جلال عارف کی شاعری میں روایات کی پاسداری اور عصری حسیت بدرجہ اتم موجود ہے۔ نہ قد آوری کا دعویٰ نہ قامتوں کو ناپنے سے دلچسپی ، نہ غیبت و بدگوئی کی عادت ہے نہ گھس پیٹ کر آگے نکلنے اور سستی شہرت طلبی کا جنون‘‘ ۔ استاد سخن حضرت خواجہ شوق مردم شناس تھے جو کچھ کہتے تھے وہ اٹل ہوتا تھا ۔ جلال عارفؔ ان تمام برائیوں سے پاک ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ ان کا احترام کرتے ہیں۔

منتخب اشعار :
وہ نور ، نور خدا سے جو اتصالی ہے
اسی کی روشنی بے سائیگی نے پالی ہے
اس واسطے اسود کا لیا جاتا ہے بوسہ
پوشیدہ ہے اس میں لبِ سرکارؐ کی خوشبو
بنیاد لا الہ کی مضبوط کیوں نہ ہو
ایوان دینِ حق کے جو معمار ہیں حضورؐ
دشت بے وفائی میں غم اٹھانے آیا ہوں
میں تمہاری یادوں سے مل کے جانے آیا ہوں
کیسے کیسے لوگوں کو روگئے ہیں دروازے
چپ رہو نہ کھولو تم سوگئے ہیں دروازے
تجھ کو دیکھا بھی پرکھا بھی سمجھا بھی ہے
زندگی تو حقیقت بھی دھوکا بھی ہے
ثبوت قتل اپنے شہر میں اکثر نہیں ملتا
کہیں قاتل نہیں ملتا کہیں خنجر نہیں ملتا
شاید یہی صلہ ہے گلشن پرستیوں کا
کانٹوں پہ چل رہے ہیں پھولوں کی دوستی میں
اب اپنے آپ سے بھی تعارف محال ہے
شیرازہ زندگی کا کچھ ایسے بکھر گیا
خود فریبی سے حقیقت نہیں بدلا کرتی
چڑھ کے ٹیلے پہ نہ سمجھو کہ قد اونچا ہوگا
چھپ گیا غم کی ردا میں جب مرا سارا وجود
اب ہلاتے ہیں مجھے عارفؔ خوشی کے راستے
ناموں کی بڑائی کو برائی نہیں کہتے
دل جس کا بڑا ہے وہی انسان بڑا ہے
میں وقت کی تاریخ نئی لکھ تو رہا ہوں
تحفے میں قلم مردہ ضمیروں سے ملا ہے
جلائے رکھتے ہیں جو لوگ آگہی کے چراغ
انہی کے ہاتھ میں رہتے ہیں رہبری کے چراغ
زندگی وقف کشاکش رہی عارف اپنی
جانے کب قید سے ہستی کے نکلنا ہوگا
غزل
احساسِ بیخودی ہے نہ ہوشِ خودی مجھے
تیری نظر پتہ نہیں کیا کر گئی مجھے
کرنی تھی کتنے خوابوں کی صورت گری مجھے
لیکن عذاب بن گئی خود زندگی مجھے
خوشیاں کسی کی چھین کے میں خوش نہیں ہوا
توفیق دی خدا نے نہ ایسی کبھی مجھے
کیا دے گی میرا ساتھ زمانے کی روشنی
کافی میرے ضمیر کی ہے روشنی مجھے
میں زندگی کے ساتھ سفر میں تو ہوں مگر
کیا جانے چھوڑ جائے کہاں زندگی مجھے
اہل چمن نے پھونک دیا میرا آشیاں
کچھ روشنی انہیں ملی کچھ روشنی مجھے
عارفؔ غم حیات نے پہنچادیا کہاں
ایک ایک لمحہ ہوگیا اک اک صدی مجھے