’’کل ہم نہ ہوں گے‘‘ اعظم المشائخ

حضرت علامہ قاضی سید شاہ اعظم علی صوفی اعظمؔ حسنی حسینی قادری
اجمالی تعارف :
نام : قاضی سید شاہ اعظم علی صوفی قادری ، تخلص : اعظمؔ ، تاریخ پیدائش : 16 ربیع المنور 1350 ھ م 1931 ء ، تعلیم : درس نظامی ، منشی فاضل ، بی ایس سی (عثمانیہ ) ، کتابیں : 40 سے زائد تصانیف و تراجم شائع ہوچکے ہیں جن میں مشہور و مقبول اور قابل ذکر ’’عمرہ و حج اور زیارت مدینہ ‘‘ ، ’’تجلیات بغداد ‘‘ ، ’’فضائل درود شریف ‘’ ، مقدس ٹیکمال ‘’ ، ’’عظمت والدین‘’ ، ’’عظمت اولیاء کرام ‘‘ ، ’’زین حفاظ کرام‘‘ ، ’’زیارت قبور‘’ ، ’’فاتحہ اموات ‘‘ ، سرالاسرار‘‘ ، ’’زادالموحدین‘‘، ’’دلائل الخیرات‘‘،’’بشائر الخیرات‘‘، ’’معین الاولیائ‘‘ ، ’’شاہد الوجود‘‘ ، ’’شاہد اذکار‘‘ ، ’’فارسی کلام فضیلت جنگ کا اردو ترجمہ ‘‘ ، ’’تجلیات مدینہ ‘‘ (مجموعہ کلام) ‘‘ ،’’اعظمیات (مجموعہ کلام) ۔
حضرت علامہ قاضی سید شاہ اعظم علی صوفی قادری نہ صرف نجیب الطرفین سادات ہیں بلکہ معزز علمی مشائخ گھرانے کے چشم و چراغ ہیں۔ آپ کے والد محترم حضرت مفتی ابوالخیر سید شاہ احمد علی صوفی حسنی حسینی قادریؒ فرزند اکبر و جانشین حضرت صوفی اعظم قطب دکن علیہ الرحمۃ اپنے وقت کے جید عالم دین و صوفی با صفا صحافی اور واعظ سرکار عالی تھے ۔ حضرت کی شخصیت جامع الصفات ہے ۔ آپ اردو ، انگریزی ، عربی اور فارسی زبانوں پر نہ صرف دسترس رکھتے ہیں بلکہ ان زبانوں میں تحریر ، تقریر اور ترجمہ پر بھی ملکہ حاصل ہے ۔ اردو اور فارسی میں شعر گوئی کے علاوہ فن تاریخ گوئی میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔ 96 سالہ قدیم ماہنامہ ’’صوفی اعظم‘‘ کے چیف ایڈیٹر بھی ہیں۔ ’’شارح مثنوی مولانا روم ‘‘ گزشتہ چھ سال سے اخبار سیاست کے جمعہ ایڈیشن میں درس مثنوی کی اشاعت بھی ہورہی ہے ۔ حضرت کی حیات اور کارناموں پر عثمانیہ یونیورسٹی کی ایک طالبہ نے ایم فل کی تکمیل بھی کی ہے ۔ ایسی جامع الصفات معزز شخصیت کا اس اجمالی تعارف میں مکمل احاطہ کرنے سے راقم الحروف کا قلم قاصر ہے۔
منتخب اشعار :
بسا کے دل میں غمِ مصطفیؐ ذرا دیکھو
یہ غم وہ غم ہے جو ہر غم سے بے نیاز کرے
مری مشکل میں جب مشکل کشائی آپ کرتے ہیں
تو پھر مشکل سے مشکل مرحلہ مشکل نہیں ہوتا
گود میں دائی حلیمہ کے نبیؐ کا مکھڑا
جیسے آکاش سے دھرتی پہ ہو چندا اترا
یہ کہتا ہے جہاں خیرالبشر خیرالوریٰ بولوں
مگر ایمان کہتا ہے کہ اس سے بھی سوا بولوں
پہلے تو بس گیا تھا مدینے میں دل مرا
اب دل میں بس گیا ہے مدینہ حضورؐ کا
مشک و گلاب و یاسمیں خود بھی مہک اٹھے
بس سونگھنے گئے تھے پسینہ حضورؐ کا
چوم لیتے ہیں انگوٹھے آپ کا سنتے ہی نام
عاشقانِ مصطفیؐ کی یہ بھی اک پہچان ہے
اصحاب نبیؐ یوں تو بسیار نظر آئے
جو زیب خلافت تھے بس چار نظر آئے
ہر نبی کو اگرچہ دیا کچھ نہ کچھ
آپ کو حق نے سب کچھ عطا کردیا
کلی ہر لفظ ہے پھولوں بھری ڈالی ہر آیت ہے
کہ قرآں اک حسیں گلدستۂ نعت رسالت ہے
کھلی ہے نزع میں اعظم کی چشم شوقِ حضورؐ
بغیر آپ کو دیکھے وہ کیسے مرجائے
حضرت علامہ قاضی سید شاہ اعظم علی صوفی قادری مدظلہ کی نعتیں سچے جذبات اور پاکیزہ احساسات سے مزین ہیں۔ نعتوں میں باطنی کیفیات مہکتی نظر آتی ہیں۔ لفظوں کا قرینہ ، سادگی و سلاست نے نعتوں کو دل نشین بنادیا ہے۔
جمال اور بھی نکھر جائے
وہ جانِ رحمتِ عالم جدھر جدھر جائے
جہاں کی خوشبو سمٹ کر ادھر ادھر جائے
وہ جب چلیں تو زمانے کی نبض ساتھ چلے
رکیں تو گردشِ کون و مکاں ٹہر جائے
جب آپ سوئیں تو معراج خواب ہوگویا
جو آپ جاگیں تو وحیِ خدا اتر جائے
جو لب کشا ہوں تو حکمت کے پھول جھڑنے لگیں
جو چپ رہیں تو جمال اور بھی نکھر جائے
نزول سورت والیل والضحیٰ ہو وہیں
جو زلف آپ کے رخسار پر بکھر جائے
دکھائیں گے رخ روشن لحد میں جب سرکارؐ
تو روشنی سے مری قبر کیوں نہ بھر جائے
کھلی ہے نزع میں اعظم کی چشم شوق حضورؐ
بغیر آپ کو دیکھے وہ کیسے مرجائے