کشمیر میں ہائی وے بند کرنے پر برہمی ‘ اسرائیل سے تقابل

تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کی حکم نامہ پر تنقید اور دستبرداری کا مطالبہ

عمر لطیف مسگار
کشمیر میں نیشنل ہائی وے پر 270 کیلومیٹر کے راستے کو اودھمپور سے بارہمولا ضلع تک شہری ٹریفک کیلئے بند کرنے پر سیاسی ‘ نظریاتی اور پیشہ ور طبقہ کے تمام شہریوں نے غلط قرار دیا ہے ۔ 3 اپریل کو ریاستی محکمہ داخلہ کی جانب سے ایک حکمنامہ جاری کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ ہائی وے 31 مارچ تک مکمل بند رہے گی اور عام شہری اتوار اور چہارشنبہ کو صبح 4 بجے سے شام 5 بجے کے درمیان اس سے گذر نہیں سکیں گے تاکہ ان اوقات میں سیکوریٹی فورسیس کے قافلے یہاں سے گذر سکیںاور وادی پہونچ سکیں۔
سرکاری حکمنامہ میں کہا گیا ہے کہ ریاست میں انتخابات کیلئے سکیوریٹی قافلوں کی نقل و حرکت کی وجہ سے یہ اقدام کیا گیا ہے ۔ یہ امتناع روزآنہ کئی نیشنل ہائی وے مقامات پر عام شہریوں کی آمد و رفت پر عائد ہونے والی پابندیوں کے علاوہ ہے اور یومیہ جو پابندیاں ہوتی ہیں وہ بھی سیکوریٹی قافلوں کے گذرنے کیلئے ہوتی ہیں۔ چونکہ وادی کو دنیا کے دوسرے حصے سے جوڑنے کیلئے ہائی وے ہی واحد راستہ ہے اس تازہ حکمنامہ کی وجہ سے کشمیریوں کی روز مرہ کی زندگی پر بہت منفی اثرات مرتب ہونگے ۔ ان میں مریضوں کی منتقلی ‘ اسکولی طلبا کی آمد و رفت ‘ کاروبار مالکین اور سرکاری ملازمین کے علاوہ کسانوں اور دوسرے شعبوں کے لوگوں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑیگا ۔ عوامی ٹرانسپورٹ کی گاڑیوں کی نقل و حرکت بھی متاثر ہوگی ۔
جموں و کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر شیخ عاشق کا کہنا ہے کہ ہائی وے کو اکثر و بیشتر مٹی کے تودے گرنے اور خراب موسم کی وجہ سے بارہا بند کیا جاتا ہے ۔ اس کی وجہ سے پہلے ہی ایک رخی راستے کا نظم ہے جو تجارتی گاڑیوں کیلئے ہوتا ہے ۔ اس سے عملا مقامی طور پر تیار کردہ اشیا کو باہر منتقل کرنے کیلئے صرف تین دن کا وقت ملتا ہے ۔ تازہ حکمنامہ کے بعد اب صرف دو دن کا وقت ہی ملا کریگا ۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ امتناع تباہ کن ہوگا ۔ یہ صرف کشمیر کے تاجروں کیلئے نہیں بلکہ تعلیم اور سیاحت کیلئے بھی نقصان دہ ہوگا ۔ وہ نہیںسمجھتے کہ کسی غور و خوض کے بعد ایسا فیصلہ کیا گیا ہوگا ۔
وادی کشمیر فروٹ گروورس و ڈیلرس اسوسی ایشن کے صدر نشین بشیر احمد بشیر بھی ایسا ہی کہتے ہیں۔ ان کے مطابق اب مقامی تاجروں کو اپنے باغات میں بیٹھنے کا بھی موقع نہیں ملے گا میوہ جات کی ایکسپورٹ تو دور کی بات ہے ۔ میوے جات یہاں کولڈ اسٹوریجس میں رکھے جاتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اس حکمنامہ کی وجہ سے وادی کشمیر میں ضروری ساز و سامان اور کیڑے مار ادویات کی منتقلی میں تاخیر ہوگی اور اس سے فصلوں کو مزید نقصان ہوگا ۔ ان کا مطالبہ تھا کہ اس غیر انسانی حکم نامہ سے فوری دستبرداری اختیار کرلی جائے ۔
حکومت کا حالانکہ کہنا ہے کہ اس امتناع کا اطلاق طبی ایمرجنسی اور دوسری ہنگامی حالات میں نہیں ہوگا تاہم مقامی شہری اب بھی مانتے ہیں کہ یہ حکمنامہ غیر منصفانہ اور مشکلات پیدا کرنے والا ہے ۔ چونکہ کشمیر میں دیہی علاقوں میں مناسب طبی سہولیات نہیں ہیں مریضوں کو عموما وادی کشمیر کے کئیر ہاسپٹلس کو منتقل کیا جاتا ہے اور ان میں بیشتر سرینگر میں واقع ہیں جو کشمیر کا گرمائی دارالحکومت ہے ۔ مریضوں کیلئے چاہے وہ جنوبی اضلاع کے ہوں یا شمالی اضلاع کے ان دواخانوں تک پہنچانے کا واحد راستہ یہی شاہراہیں ہیں۔ کشمیر کے سب سے بڑے میٹرنٹی ہاسپٹل کے ایک ایمبولنس ڈرائیور کا کہنا ہے کہ حالانکہ ہمیں زیادہ لمبے وقت کیلئے نہیں روکا جاتا جب قافلوں کی آمد و رفت ہوتی ہے لیکن سکیوریٹی فورسس باقاعدہ ہمیں روک کر ایمبولنس کی تلاشی لیتی ہیں اور ہائی وے پر کئی چیک پوائنٹس ہیں۔ یہ ڈرائیور مریضوں کو اکثر و بیشتر سرینگر کے دواخانوں میں منتقل کرتا رہتا ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ سرینگر سے واپس ہوتے ہوئے بھی اگر ایمبولنس خالی ہوتی ہے تو ہمارے ساتھ دوسری سیویلین گاڑیوں جیسا سلوک ہوتا ہے ۔ اس نے نتائج کے ڈر سے اپنا نام بتانے سے انکار کردیا تھا ۔
اس امتناع سے خانگی کیب ڈرائیورس کی زندگی پر بھی منفی اثرات مرتب ہونگے جو ہزاروں مسافرین کو ہر ہفتے کشمیر کے مختلف اضلاع میں پہونچاتے ہیں۔ اس حکمنامہ کی وجہ سے کیب ڈارئیورس اس شاہراہ پر چلنے والی اپنی کیبس کی خدمات کو روکنے پر مجبور ہوجائیں گے ۔ یومیہ تقریبا 20 گاڑیاں سرینگر جاتی ہیں ۔ یہ سارا قافلہ چہارشنبہ اور اتوار کو غیر کارکرد ہوجائے گا ۔ این این ڈی ایس سومو اسٹانڈ اننت ناگ ضلع کے سکریٹری نظیر احمد نے یہ بات بتائی ۔ خود نظیر احمد کبھی سرینگر کو باضابطہ کیب لے کر جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ امتناع ہماری زندگیوں اور روزی روٹی پر تباہ کن اثرات ڈالے گا اور بیروزگاری مزید بڑھے گی ۔
اس امتناع پر قومی دھارے سے تعلق رکھنے والے اور علیحدگی پسند سیاستدانوں نے بھی ناراضگی کا اظہار کیا ہے ۔ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی نے ‘ جو ریاست کے سابق چیف منسٹرس رہ چکے ہیں ‘ اس فیصلے کو بددماغی والا اور پاگل پن کا فیصلہ قرار دیا ہے ۔ حال ہی میں نئی سیاسی جماعت قائم کرنے والے سابق آئی اے ایس عہدیدار شاہ فیصل نے بھی کہا کہ ان کی پارٹی اس امتناع کو عدالت میں چیلنج کرے گی ۔ میرواعظ نے اپنے ٹوئیٹر پر اس فیصلے کو آمرانہ اقدام قرار دیا ہے ۔ صدر نشین حریت کانفرنس نے حکومت سے خواہش کی ہے کہ اس فیصلے سے دستبرداری اختیار کی جائے اور کشمیر کے عوام کو سزائیں دینے کا سلسلہ کو روکا جائے ۔ امتناع کے پہلے دن پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) اور نیشنل کانفرنس کے قائدین سڑکوں پر اتر آئے اور اس فیصلے کے خلاف ہائی وے تک مارچ کی کوشش بھی کی ۔
سوشیل میڈیا پر کچھ گوشوں نے اس امتناع کا اسرائیل کے اقدام سے تقابل کیا ہے جہاں مغربی کنارہ تک جانے والی ہائی ویز کو علیحدہ کردیا گیا تھا ۔ اس راستے کو غیر قانونی نو آباد بستیوں سے اسرائیل تک رابطوں کیلئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ غزہ میں معاشی پابندیاں عائد کردی گئی ہیں۔ کچھ دوسروں نے نسل پرست جنوبی افریقہ سے بھی اس فیصلے کا تقابل کرنے کی کوشش کی ہے اور کچھ نے تو یہودیوں سے نازیوں کے رویہ کو بھی یاد کیا ہے ۔
ایک کشمیری صحافی گوہر گیلانی نے اپنے ٹوئیٹر پر تحریر کیا ہے کہ ہٹلر کی جرمنی میں جو کچھ ہوتا تھا وہ 21 ویںصدی میں کشمیر میں ہو رہا ہے ۔ جب جنوبی کشمیر سے تعلق رکھنے والوں کو شادی کے جلوس کے ساتھ ہائی وے سے گذرنے کی اجازت دی گئی اور اس حکمنامہ کی کاپی سوشیل میڈیا پر وائرل ہوئی تو اس پر بھی تنقید ہوئی ہے ۔ اس مسئلہ کا از خود نوٹ لیتے ہوئے ریاستی حقوق انسانی کمیشن نے واضح کیا کہ اسکولی بچوں ‘ مریضوں ‘ سرکاری اور خانگی ملازمین اور دوسرے عام شہریوں کو اس سے مشکلات پیدا ہوں گی اور یہ وقت پر اپنے مقام تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ کمیشن نے ریاست کے چیف سکریٹری ‘ ڈویژنل کمشنر اور انسپکٹر جنرل ٹریفک پولیس سے رپورٹ بھی طلب کی ہے ۔
کئی کشمیری طلبا کو اپنی یونیورسٹیز اور کالجس تک پہنچنے ہائی وے کا استعمال کرتے ہیں انہیں بھی آئندہ ہفتوں میں غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ بارہا انکاونٹرس ‘ تشدد اور عام ہڑتالوں کی وجہ سے پہلے ہی ان کی تعلیم کا نقصان ہوتا رہا ہے اور اب حکم نامہ کی وجہ سے ان کی تعلیم مزید متاثر ہوگی ۔ طلبا کا کہنا ہے کہ اس حکمنامہ سے فوری دستبرداری اختیار کرلی جانی چاہئے ۔