کشمیر میں فورسز کے ہاتھوں اذیت رسانی‘ 1990ء سے نمایاں اضافہ

مسلح افواج کیساتھ حکومت اور سرکاری ادارے ملوث ۔ ہندوستان یو این کنونشن کو تسلیم کرے ۔ دو تنظیموں کی رپورٹ
سرینگر،20 مئی (سیاست ڈاٹ کام) جموں وکشمیر میں کام کرنے والی حقوق انسانی کی دو معروف تنظیموں نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق جموں کشمیر میں مسلح افواج کے ہاتھوں ٹارچر کے شکار ہونے والوں میں سے 70 فیصد عام شہری ہیں جبکہ اذیت کے متاثرین میں سے 11فیصد کی موت واقع ہوئی ہے ۔ رپورٹ میں اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے حقوق انسانی سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ کشمیر میں جاری ٹارچر کی تحقیقات بین الاقوامی سطح پر کرائیں نیز حکومت ہند پر بھی زور دیا گیا ہے کہ وہ ٹارچر کے خلاف اقوام متحدہ کے کنونشن کو تسلیم کرے ۔ ’’ٹارچر: انڈین اسٹیٹ کا بھارت کے زیر انتظام جموں وکشمیر میں کنٹرول کا آلہ‘‘ کے عنوان سے 560صفحات پر مشتمل یہ رپورٹ ’’دی اسوسی ایشن آف پیرنٹس آف ڈس اپئررڈ پرسنز‘‘ اور ’’جموں اینڈ کشمیر کولیشن آف سیول سوسائٹی‘‘ نے مشترکہ طور پر تیار اور جاری کی ہے ۔ یہ تفصیلی رپورٹ پیر کو جموں اینڈ کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی کی ویب سائٹ پر جاری کی گئی۔ رپورٹ کے مطابق وادی میں مسلح شورش کے آغاز یعنی 1990ء سے جموں و کشمیر میں حکومت ہند کی طرف سے جاری مبینہ ٹارچر پر خاص طور پر توجہ مرکوز کی گئی ہے اور سال 1947سے بھی جموں و کشمیر میں پیش آئے ٹارچر کا مرحلہ وار تاریخی پس منظر پیش کیا گیا ہے ۔ رپورٹ میں 432 کیسوں کو اسٹیڈی کرتے ہوئے جموں و کشمیر میں تشدد کے رجحانات، طریقہ کاروں، مرتکبین، متاثرین، مقامات اور اثرات کا بھی خاکہ کھینچا گیا ہے ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مسلح افواج کو حاصل قانونی،

سیاسی اور اخلاقی حمایت کے باعث جموںو کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے کسی بھی کیس میں کوئی مقدمہ نہیں ہوا ہے ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بدنام زمانہ گوانتا نامو بے اور ابو غریب جیلوں میں ٹارچر پر عالمی توجہ اور مذمت کے باوجود بھی جموں و کشمیر میں جہاں ہزراوں کی تعداد میں عام شہریوں کو تشدد کا نشانہ بنیا گیا ہے ، ٹارچر ابھی سر بستہ راز ہی ہے ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جموں و کشمیر میں حکومت ہند ٹارچر کو ایک منظم اور مربوط پالیسی کے بطور استعمال کرتی ہے اور ریاست کے تمام ادارے بشمول قانون سازی، عاملہ،عدلیہ اور مسلح افواج اس کا حصہ ہیں۔ حکومت ہند کی طرف سے جموں و کشمیر میں جاری مبینہ اذیت رسانی کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا کہ جموں و کشمیر میں ٹارچر کا استعمال بڑے پیمانے پر جاری ہے۔ سال رواں 19 مارچ کو رضوان پنڈت نامی 29 سالہ اسکول پرنسپل کو جموں اینڈ کشمیر پولیس کے اسپیشل آپریشنز گروپ کے کارگو کیمپ میں دوران حراست ٹارچر کرکے ابدی نیند سلا دیا گیا، تین دن بعد پولیس نے رضوان کے خلاف کیس درج کیا جس میں الزام لگایا گیا کہ وہ پولیس حراست سے فرار ہونے کی کوشش کررہا تھا جبکہ جن پولیس افسروں کی تحویل میں رضوان کی موت واقع ہوئی ان کے خلاف کوئی کیس درج نہیں کیا گیا۔ رپورٹ میں 1947 ء سے ہی مخالف آوازوں کو دبانے کیئئے ٹارچر کو بروئے کار لانے جو 1990 ء کے بعد نقطہ عروج پر پہنچا، اس کا مختصر تاریخی پس منظر کھینچا گیا ہے ۔ جموں و کشمیر میں 1990 ء کے بعد صرف مسلح افواج کے ہاتھوں ٹارچر اور دوسری انسانی حقوق کی پامالیوں کا ارتکاب نہیں ہوا بلکہ اس کیلئے ولیج ڈیفنس کمیٹیاں جیسے مختلف ادارے بھی وجود میں لائے گئے ۔