کسی اور طرح سے لکھنے کا خیال جاتا رہا

سرور الہدیٰ
جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی
ایک موقع پر استاد محترم ڈاکڑ اسلم پرویز(مرحوم) نے کہا تھا کہ ہمارے زمانے میں تنقید کچھ ایسی حاوی ہوگئی کہ کسی اور عنوان کے تحت لکھنے کا خیال جاتا رہا، ان کا اشارہ خاکے، انشائیے، سفر نامے اور اس طرح کی دوسری اصناف اور تحریروں کی طرف تھا ۔ انھیں یہ خیال اچانک تو نہیں آیا ہوگا وہ خود عہد ساز رسالہ اردو ادب کے مدیر تھے اور اپنے عہد کی اہم ترین شخصیات سے استفادہ کیا تھا۔ ایسی صورت میں تنقید کو ادب کے لیے سب کچھ تصور کرنا ان کے نزدیک ایک لمحہ فکریہ تھا۔انھوں نے اہم ترین ادیبوں کے مضامین شائع کیے، اہم مضامین کی بازدید لکھوائی، ان تمام باتوں کے باوجود انہیں محسوس ہوتا تھا کہ ہمارے عہد کے ادیب کچھ لکھتے ہیں تو انہیں صرف تنقید کا خیال کیوں آتا ہے۔اس میں شک نہیں کہ ایسے لوگوں کی تعداد دھیرے دھیرے کم ہونے لگی ہے جو ادب کو ایک برے کینوس میں دیکھتے ہیں اور انہیں مختلف اصناف سے وابستہ تحریروں میں دلچسپی ہے۔ عام طور پر اب یہ سمجھا جاتا ہے کہ کسی ایک صنف کو پڑھنا گویا اسی صنف میں اختصاص پیدا کرنا ہے اور کوئی دوسری صنف ان کے لیے اہم نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس عہد میں اچھے خاکے ، سفر نامے اور انشائیے نہیں لکھے گئے ، لیکن عمومی صورت حال اچھی نہیں ہے، سب سے بڑا مسئلہ تو زبان و بیان کا ہے۔ جو سفر نامے ادھر شائع ہوئے اگر اس میں زبان و بیان کی سطح پر کوئی غلطی نہیں ہے تو اس میں عقیدہ اور مسلک حاوی ہوگیا ہے۔کہیں زبان اس لائق نہیں ہے کہ وہ آسانی سے پڑھی جاسکے۔ یہ صورت کیوں پیدا ہوئی اور یہ کب اور کیسے بدلے گی اس بارے میں کوئی حتمی بات کہنا مشکل ہے، لیکن ایک بات تو بہرحال کہی جاسکتی ہے وہ یہ کہ ادب کی کوئی بھی صنف، ادب کی صنف ہے اس میں کسی عقیدے اور مسلک اور علاقے کی موجودگی ہوسکتی ہے مگر اسے پڑھتے ہوئے تو یہ محسوس نہ ہو کہ ہم عقیدے کی تنلیغ کررہے ہیں۔ کب تک ہم یہ دہراتے رہیں گے کہ ادب مذہب نہیں ہے، ادب میں مذہب کی اعلیٰ اقدار ہمیشہ رہیں ہیں لیکن ان کے اظہار میں ایک ایسی خوبی ہے جو اسے مذہب سے بلند کردیتی ہے، لیکن ان باتوں کو دہرانے کے باوجود ایک قاری اور ادیب کی حیثیت سے ہم نے اپنی تربیت نہیں کی، اگر ادیب میں بھی تعصب پیدا ہو جائے تو پھر ادب کا کیا ہوگا۔ میں اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ زبان کا عمل تخلیق کو تعصب سے بلند کردیتا ہے، لہذا ادیب چاہے جتنا بھی متعصب ہوجائے زبان اس کی تخلیق کو روشن خیال بنا دے گی۔ اصل میں زبان کا کوئی عمل اس قدر خود مکتفی یا آزاد نہیں ہوتا کہ وہ صاحب زبان کی گرفت سے مکمل طور پر آزاد ہوجائے خصوصاََ ان تحریروں میں جن کا تعلق غیر افسانوی نثر سے ہے۔کسی عہد کا ادبی منظر نامہ صرف تنقید سے ہی نہیں پہچانا جاتا، اس میں شاعری بھی ہوتی ہے افسانہ بھی ، ناول بھی اور انشائیہ ، خاکہ اور سفر نامہ بھی ۔ادبی منظر نامہ اسی صورت میں روشن ہوسکتا ہے جب ہمارے اندر ہر صنف کا احترام ہو اور اس کے تقاضے کا خیال بھی ۔ اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو غزل کو افسانے سے بھرا دیتے ہیں، سفر نامے کو سوانح سے ۔وہ ایک کو دوسرے سے ممتاز کرنے میں جتنی توجہ صرف کرتے ہیں اگر وہ کسی اچھے سفر نامے، خاکے کا مطالعہ کرلیں تو اس کا ایک مطلب ہوگا، لیکن صرف اصناف کے درمیان امتیاز کرنے کی نظری کوشش میں اپنی تمام توجہ صرف کردینا ایک ایسا عمل ہے جو اگر زیاں کا نہیں توا س سے بہت کچھ حاصل ہی نہیں ہوسکتا۔ افسانوی اور غیر افسانوی تحریروں کا مطالعہ ہی ہمیں بے راہ ہونے سے بچا سکتا ہے۔ اسلم پرویز صاحب کی اس بات کا خیال مجھے ان دنوں کچھ زیادہ آرہا ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں نے ادھر تنقید کے علاوہ دوسری ادبی کارگزاریوں کا مطالعہ نہیں کیا ہے، میں نے جن غیر افسانوی یا افسانوی تحریروں کا تھوڑا مطالعہ کیا ہے وہی دراصل میری پریشانی کا سبب ہیں۔ادب میں کسی کو بھی انتخابی ہونے کا حق حاصل ہے اور انتخاب بعض اوقات ہمیں خراب تحریروں سے بچا لیتا ہے اور یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ خراب تحریروں کا مسلسل مطالعہ ہمارے ذوق اور معیار کو بھی ایک مقام سے نیچے لے آتا ہے، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اپنے عہد کی ادبی سرگرمیوں سے واقفیت کے لیے ہر طرح کی تحریروں کو پڑھنا ضروری ہے۔ اصل میں یہ سب کچھ اس بات پر منحصر ہے کہ انتخاب کرنے والا کون ہے اور وہ کون شخص ہے جو سب کو پڑھنے کے باوجود اپنے ذوق اور ذہن کے معیار کی حفاظت بھی کرسکتا ہے۔ کل ہی کی بات ہے کہ میں شفیع جاوید کے افسانوی مجموعے ’’بادبان کے ٹکڑے‘‘ کا مطالعہ کررہا تھا ۔ میں نے بغیر کسی شعوری کوشش کے مجموعہ اٹھایا تھا اور یہ سوچا کہ تھوڑا وقت ہے اسے پڑھ لیتے ہیں۔جب کہانی کی دنیا میں داخل ہوئے تو وہ دنیا مانوس ہونے کے باوجود نامانوس معلوم ہوئی اور ایسا لگا کہ جیسے شفیع جاوید نے اپنے گھر ،آنگن اور علاقے سے کہانی بنائی ہے، سامنے کی باتیں اچانک دور کی معلوم ہونے لگیں اور ایک دنیا دیکھتے دیکھتے دھندلی ہوتی گئی۔اب میری نظر مجموعے میں شامل شمس الرحمن فاروقی کے مضمون پر پڑی جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ شفیع جاوید کی کہانیاں ان کی سوانح معلوم ہوتی ہیں مگر آپ اسے سوانح ثابت نہیں کرسکتے۔ تنقید کے علاوہ کسی اور طرح سے سوچنے اور لکھنے کا خیال کیوں جاتا رہا ، ظاہر ہے اس کا ذمہ دار تنقید کو ٹھہرانا غلط ہوگا ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے یہاں اب ایسے لکھنے والے کم بہت کم ہیں جو اپنی زبان اور طرز احساس سے ہمیں متوجہ کرلیں۔ رسالوںکا پیٹ بھرنے کے لیے جو کچھ لکھا جاتا ہے وہ ایک بڑی سچائی ہے، پھر مدیروں کے اپنے مسائل ہیں اور سب سے بڑا مسئلہ اچھی اور خراب تحریر میں فرق نہ کرنے کا ہے، پھر یہ کہ مدیر کو اس بات کی سمجھ نہیں ہے کہ کس سے کیا لکھوایا جاسکتا ہے اور کس لکھنے والے سے کیا نہیں لکھوانا چاہیے۔ یہ سارے مسائل پہلے بھی رہے ہوں گے اور شاید کبھی حل نہ ہوسکیں ، لیکن مسائل حل بھی ہوتے جاتے ہیں اور کچھ نئے مسائل ان کی جگہ لے لیتے ہیں۔ ہمارے زمانے میں جو مسائل ہیں وہ ادب کے کم شخصی مسائل زیادہ ہیں۔اسلم پرویز صاحب نے کئی اچھے خاکے لکھے، ایسے تمام خاکے ان کی کتاب’’گھنے سایے ‘‘ میں شامل ہے۔ چچی اور میں اور شیطاں دو ایسے خاکے ہیں جو بھلائے نہیں جاسکتے۔ چچی کو تو اردو کے چند اہم خاکوں میں شامل کیا جانا چاہیے۔مجتبیٰ حسین نے طنزومزاح کے پیرائے میں جو خاکے لکھے وہ بھی ہمارے سامنے ہیں اور ان میں تو کچھ ایسے جملے ہیں جو کلاسیک کا درجہ حاصل کرچکے ہیں، جنہیں مختلف موقعوں پر عام گفتگو میں بھی پڑھا اور یاد کیا جاتا ہے۔اکیلے مجتبیٰ حسین نے اپنی تحریروں کے ذریعے ایک خلا کو پر کرنے کی کوشش کی جس کی طرف اسلم پرویز صاحب نے اشارہ کیا ۔