کرن کے باغیانہ تیور… حقیقت یا ڈرامہ؟

اے پی ڈائری

آندھراپردیش کی تقسیم کے مسئلہ پر سیاسی سرگرمیاں فیصلہ کن مرحلہ میں داخل ہوچکی ہیں۔ 23 جنوری جو کہ تلنگانہ مسودہ بل پر مباحث کیلئے صدر جمہوریہ کی جانب سے دی گئی مہلت کا آخری دن ہے، اس کے بعد ریاست میں نئی سیاسی صف بندیوں کا امکان ہے ۔ چیف منسٹر کرن کمار ریڈی جنہوں نے ریاست کی تقسیم کو روکنے کیلئے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کردی ہیں، اب میچ کی آخری گیند کا سامنا کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔

جس طرح انہوں نے کہا تھا کہ میچ کی آخری گیند تک وہ میدان میں ڈٹے رہیں گے ، شاید اب وہ وقت آچکا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ آخری گیند کس جانب سے اور کون پھینکے گا ؟ جس کا سامنا چیف منسٹر کو کرنا ہے ۔ ایک طرف صدر جمہوریہ کی جانب سے مسودہ بل پر مباحث کی مہلت میں اضافہ کی قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں تو دوسری طرف پارلیمنٹ کے آئندہ سیشن میں تلنگانہ بل کی منظوری کے امکانات موہوم دکھائی دے رہے ہیں ۔ کانگریس کے ہائی کمان سے قربت رکھنے والے قائدین بھی 2014 عام انتخابات سے قبل تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے بارے میں پرامید نہیں ہیں۔ ریاست کی تقسیم کے سلسلہ میں جس طرح سیاسی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں، اسے دیکھ کر تلنگانہ کے حامی بھی مختلف اندیشوں کا شکار ہیں۔ اسمبلی میں اگرچہ تلنگانہ پر مباحث کا آغاز ہوگیا تاہم مباحث ابھی ابتدائی مرحلہ میں ہیں۔ نئی دہلی سے اطلاعات مل رہی ہے کہ صدر جمہوریہ مباحث کے اختتام کیلئے اسمبلی کو دی گئی مہلت میں توسیع کریں گے۔ سابق میں مدھیہ پردیش اور اترپردیش اسمبلیوں کو ریاست کی تقسیم سے متعلق بل پر مباحث کیلئے مہلت میں توسیع کی مثالیں موجود ہیں۔ چیف منسٹر اور سیما آندھرا قائدین مطمئن ہیں کہ صدر جمہوریہ کی جانب سے مہلت میں توسیع کی صورت میں تشکیل تلنگانہ کا مسئلہ تعطل کا شکار ہوجائے گا۔

کرن کمار ریڈی جو ایک طرف سیما آندھرا قائدین کی رہنمائی کر رہے ہیں تو دوسری طرف وہ 23 جنوری کو صدر جمہوریہ کی جانب سے توسیع نہ ملنے کی صورت میں اپنی آئندہ سیاسی حکمت عملی کے بارے میں بھی ذہنی طور پر تیار ہیں۔ اگر مرکزی حکومت کسی بھی طرح فروری کے پارلیمنٹ سیشن میں تلنگانہ بل کی منظوری کی جانب قدم اٹھائے گی تو چیف منسٹر سیما آندھرا میں اپنی نئی سیاسی جماعت کے قیام کے ذریعہ کانگریس کیلئے چیلنج کھڑا کرسکتے ہیں۔ چیف منسٹر کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ 23 جنوری ریاست کی تاریخ میں سیاسی تبدیلیوں کا اہم دن رہے گا ۔ ہوسکتا ہے کہ اس دن اسمبلی میں مباحث کا جواب دیتے ہوئے چیف منسٹر ریاست کو متحد رکھنے کیلئے اپنے دلائل پیش کرتے ہوئے بل کی مخالفت کریں گے اور ساتھ ہی ساتھ اپنے استعفیٰ کا بھی اعلان کردیں گے ۔ قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ مباحث پر چیف منسٹر کا جواب دراصل نئی سیاسی جماعت کے قیام کی افتتاحی تقریر کی طرح ہوگا۔ چیف منسٹر نے ہائی کمان کے خلاف اپنے باغیانہ تیور برقرار رکھتے ہوئے آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے نئی دہلی میں منعقدہ سیشن میں شرکت نہیں کی

اور اسمبلی اجلاس کا بہانہ بنادیا ۔ اگرچہ کانگریس ورکنگ کمیٹی کا توسیعی اجلاس اور اے آئی سی سی سیشن آئندہ عام انتخابات کی تیاری کے پس منظر میں انتہائی اہمیت کا حامل تھا لیکن کرن کمار ریڈی نے مرکز کے موقف سے اختلاف کے سبب دہلی جانے سے انکار کردیا۔ اس طرح انہوں نے واضح طور پر پیام دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ ریاست کی تقسیم کے مسئلہ پر ہائی کمان سے ٹکراؤ اور کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں ۔ اے آئی سی سی سیشن میں کانگریس اعلیٰ کمان نے متحدہ آندھرا کے بعض کٹر حامی قائدین کو بھی شرکت سے روک دیا۔ پارلیمنٹ میں یو پی اے حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے والے 6 ارکان پارلیمنٹ کو اے آئی سی سی کے عہدیداروں نے فون کرتے ہوئے سیشن میں شرکت سے منع کیا۔ اس کے علاوہ متحدہ آندھرا کے کٹر حامی سینئر قائد گادے وینکٹ ریڈی اور حالیہ دنوں کانگریس ہائی کمان کو تنقید کا نشانہ بنانے والے رائلسیما کے مضبوط لیڈر جے سی دیواکر ریڈی کو بھی اے آئی سیشن میں مدعو نہیں کیا گیا ۔

سیما آندھرا کے ارکان پارلیمنٹ نے شرکت سے روکے جانے کے خلاف نئی دہلی میں دھرنا منظم کرنے کا اعلان کیا جس کے بعد ایل راج گوپال اور ہرش کمار کو اے آئی سی سی سیشن میں شرکت کی اجازت دیدی گئی ۔ پارٹی کو اندیشہ تھا کہ سیما آندھرا کے قائدین اے آئی سی سی سیشن میں ریاست کی تقسیم کے مسئلہ پر ہنگامہ آرائی کرسکتے ہیں۔ اسمبلی میں جاری مباحث کیا 23 جنوری تک مکمل ہوجائیں گے ، اس کا کوئی امکان نہیں۔ تاہم اسپیکر این منوہر مباحث کی تکمیل کیلئے کیا حکمت عملی اختیار کرتے ہیں، اس پر سیاسی جماعتوں کی نطریں ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اسپیکر ارکان سے تحریری طور پر موقف حاصل کریں گے اور اسے صدر جمہوریہ کو روانہ کیا جائے گا ۔ تاہم اس کا انحصار صدر جمہوریہ کی جانب سے سیشن میں توسیع یا عدم توسیع پر ہے ۔ مسودہ بل پر اسمبلی میں ووٹنگ کا مسئلہ بھی تنازعہ کا شکار بن چکا ہے۔ سیما آندھرا کے ارکان اپنی اکثریت کی بنیاد پر مسودہ بل کو شکست دینے پر اٹل ہیں جبکہ تلنگانہ قائدین کا دعویٰ ہے کہ اسمبلی میں مسودہ بل کو شکست کے باوجود بھی ریاست کی تقسیم کے عمل پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

ریاست کی تقسیم کے مسئلہ پر چیف منسٹر کی جانب سے علحدہ پارٹی کے قیام کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔ کانگریس کے سیما آندھرا ارکان اسمبلی اور قائدین کو وائی ایس آر کانگریس پارٹی یا تلگو دیشم میں شمولیت سے روکنے کیلئے چیف منسٹر نے علحدہ پارٹی کے قیام کا فیصلہ کیا ہے ۔ اس سلسلہ میں انہوں نے سیما آندھرا کے ہر رکن پارلیمنٹ اور اسمبلی سے علحدہ علحدہ مذاکرات کئے اور اس بات کا اشارہ دیا کہ وہ سیما آندھرا میں علحدہ سیاسی جماعت کے قیام کے حق میں ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ چیف منسٹر کی جانب سے کئے گئے سروے کے مطابق علحدہ پارٹی کے قیام کی صورت میں سیما آندھرا میں 50 اسمبلی نشستوں پر کامیابی کے امکانات روشن ہیں۔

جہاں تک نئی سیاسی جماعت کے قیام کا سوال ہے، سیاسی مبصرین چیف منسٹر کی سنجیدگی کے بارے میں کئی سوال اٹھا رہے ہیں۔ علحدہ سیاسی پارٹی کا قیام کیا واقعی چیف منسٹر کی باغیانہ سرگرمیوں کا حصہ ہوگا یا پھر کانگریس اعلیٰ کمان کے اشارہ پر ہی یہ کھیل کھیلا جارہا ہے ۔ کانگریس موجودہ حالات میں ہرگز نہیں چاہے گی کہ تلنگانہ اور سیما آندھرا میں اس کا موقف کمزور ہو۔ جب سے علحدہ تلنگانہ کے حق میں فیصلہ کیا گیا دونوں علاقوں میں کانگریس کا موقف کمزور ہوچکا ہے ۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ تلنگانہ کے حق میں فیصلہ کے باوجود تلنگانہ عوام اس فیصلہ کا سہرا کانگریس کو دینے تیار نہیں ۔ ٹی آر ایس کی جانب سے کانگریس میں انضمام کے وعدہ سے انحراف نے بھی کانگریس کی مشکلات میں اضافہ کردیا ہے ۔ تلنگانہ کانگریس قائدین علحدہ ریاست کے قیام کی صورت میں چیف منسٹر اور دیگر اہم عہدوں کیلئے دوڑ دھوپ کر رہے ہیں

لیکن وہ عوام کو یہ مطمئن کرنے میں ناکام ہوگئے کہ کانگریس پار ٹی کے سبب علحدہ تلنگانہ کی تشکیل ممکن ہورہی ہے۔ چونکہ دونوں علاقوں میں بھی کانگریس پارٹی کا موقف کمزور ہے۔ لہذا سیما آندھرا میں عوامی نمائندوں کو دیگر پارٹیوں میں شمولیت سے روکنے کیلئے نئی سیاسی جماعت کا قیام ہائی کمان کی حکمت عملی کا حصہ ہوسکتا ہے۔ کانگریس کو سیما آندھرا علاقوں میں وائی ایس آر کانگریس پار ٹی اور تلگو دیشم سے خطرہ لاحق ہے۔ ان دونوں جماعتوں کو کمزور کرنے کیلئے جگن موہن ریڈی کی قیادت میں نئی پارٹی وجود میں لائی جاسکتی ہے۔ انتخابات میں زائد نشستوں پر کامیابی کے بعد نئی پارٹی پھر ایک بار کانگریس سے مفاہمت کرلے گی اور اس طرح سیما آندھرا میں کانگریس کی حکومت کے قیام کے امکانات روشن ہوں گے ۔ تلنگانہ میں ٹی آر ایس نے کانگریس سے ماقبل انتخابات انتخابی مفاہمت سے انکار کردیا، جس سے کانگریس کیلئے تلنگانہ کی 119 اسمبلی نشستوں میں بمشکل 25 تا 30 نشستوں پر کامیابی کے امکانات ہیں جبکہ ٹی آر ایس تقریباً 80 نشستوں پر بآسانی کامیابی حاصل کرسکتی ہے ۔ دونوں علاقوں میں پارٹی کی ابتر صورتحال کو دیکھتے ہوئے کیا مرکزی حکومت انتخابات سے قبل ریاست کی تقسیم کے فیصلہ پر عمل کر پائے گی۔ اس بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔

سیما آندھرا علاقوں میں کانگریس کا اصل نشانہ جگن موہن ریڈی ہیں جن کی مقبولیت میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وائی ایس آر کانگریس پارٹی نے متحدہ آندھرا کے حق میں واضح موقف اختیار کیا ہے جبکہ تلگو دیشم ابھی تک واضح موقف اختیار کرنے میں ناکام رہی ۔ جگن کو کمزور کرنے کیلئے کانگریس ہائی کمان کرن کو آگے کرسکتی ہے ۔ کانگریس ہائی کمان جو بھی حکمت عملی اختیار کرے عوام پر اس کا کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا کیونکہ عوام کانگریس اور تلگو دیشم کے غیر واضح موقف سے اچھی طرح واقف ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ریاست کی تقسیم کا عمل مرکزی حکومت کے وعدہ کے مطابق کس حد تک آگے بڑھے گا اور آئندہ عام انتخابات میں دونوں علاقوں میں کانگریس اپنا موقف مضبوط کرنے میں کس حد تک کامیاب رہے گی ؟ کرن کمار ریڈی کیا واقعی نئی پارٹی قائم کرتے ہوئے جگن اور چندرا بابو نائیڈو کو ٹکر دے پائیں گے، اس کا فیصلہ سیما آندھرا کے عوام بہتر طور پر کریں گے۔