کرناٹک کے الیکشن سے 2019 کے موڈ کا پتہ نہیں چلے گا سیاست میں ایک سال بہت طویل وقت ہوتا ہے

اجئے سنگھ
ہندوستان میں ہر الیکشن اپنے انداز میں مثالی ہوتا ہے ۔ ہر الیکشن کو مستقبل کی سیاست کا رجحان ساز کہا جاسکتا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ کسی انتخاب سے موجودہ سیاسی مساوات بدلتے ہیں۔ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ کرناٹک کے اسمبلی انتخابات ‘ جو 12 مئی کو ہونے والے ہیں ‘ قومی سیاست کیلئے حالات کی عکاسی کرینگے جبکہ قومی سیاست پر آئندہ وقتوں میں نئی سیاسی ترجیحات ابھرکر سامنے آئیں گی کیونکہ راجستھان ‘ چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش میں جاریہ سال کے اواخر میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔
اب جبکہ لوک سبھا انتخابات ہنوز ایک سال دور ہیں ‘ ریاستی اسمبلی انتخابات یا ضمنی انتخابات سے سیاسی تجزیہ نگاروں کو ابھرتے ہوئے سیاسی منظرنامہ کی عکاسی کرنے کیلئے زیادہ مواد مل سکتا ہے لیکن اس پر اکتفا یا انحصار کرنا زیادہ مشکوک ہوگا کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ ہندوستانی رائے دہندوں نے گذشتہ برسوں میں ایک اچانک ہجوم کا انداز اختیار کرلیا ہے ۔
مثال کے طور پر ایک نعرہ پر غور کیجئے جو راجستھان میں فبروری میں تین ضمنی انتخابات میں بی جے پی کی شکست کے بعد ابھرا ہے ۔ یہ نعرہ ہے ’’ رانی تیری خیر نہیں۔ مودی تم سے بیر نہیں ‘‘ ۔ یقینی طور پر یہ نعرہ کسی میڈیا کنسلٹنٹ یا ماہر نے نہیں دیا ہے تاکہ عوام کی توجہ حاصل کی جاسکے ۔ اس کے برخلاف یہ نعرہ سوشیل میڈیا پر سرگرم عام افراد سے ابھرا تھا ۔ یقینی طور پر وسندھرا راجے سندھیا کے خلاف راجستھان میں عوامی برہمی عروج پر ہے ۔ اسی طرح کرناٹک کے انتخابات میں بھی کئی پہلو ہیں جو اہم رول ادا کرینگے ۔ کانگریس نے ریاست کو درپیش مقامی مسائل پر انتخاب لڑنے کا دانشمندانہ فیصلہ کیا ہے اور اس نے عوام کی توجہ وزیر اعظم نریندر مودی کی شخصیت سے منتقل کردی ہے ۔ ایک چالاک سیاستدان سمجھے جانے والے چیف منسٹر سدارامیا نے کنڑا عوام کی ذیلی قوم پرستی کا مسئلہ چھیڑ دیا ہے اور انہوں نے ریاست کیلئے ایک علیحدہ پرچم جاری کردیا ۔ انہوں نے طاقتور لنگایت برادری کو مذہبی اقلیت کا درجہ دیدیا ہے جس کا مقصد اس برادری کو ہندوتوا جتھے سے علیحدہ کرنا ہے ۔
ہندوستانی سیاست میں جذبات یقینی طور پر اہم رول ادا کرتے ہیں لیکن جذبات سے ایک شکست کھاتے ہوئے لیڈر کی قسمت کو بچانے میں ان سے شائد ہی کامیابی مل سکے ۔ اگر سدارامیا اس سے استثنی پاجاتے ہیں تو انہیں اپنی قسمت کا شکرگذار ہونا چاہئے ۔ تاہم اس بات میں بہت کم شک رہ جاتا ہے کہ انہوں نے کرناٹک کے انتخابات کو اتنا گنجلک کردیا ہے کہ صورتحال سیاسی تجزیہ نگاروں کیلئے بھی مشکل ہوگئی ہے کہ وہ کسی واضح رجحان تک پہونچ سکیں۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کی یہ معذوری رائے دہندوں کی نہیں ہوسکتی اور ہوسکتا ہے کہ انہوں نے اپنے ووٹ کے تعلق سے اب تک کوئی فیصلہ کرلیا ہو۔
کرناٹک انتخابات کے بعد فوری طور پر راجستھان ‘ مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں انتخابات ہونے والے ہیں اور یہاں بی جے پی کو اپنا دفاع کرنا ہوگا ۔ اگر ریاستی حکومتوں سے رائے دہندوں کی ناراضگی کو بنیاد بنایا جاتا ہے تو پھر یہ کہا جاسکتا ہے کہ راجستھان اور مدھیہ پردیش میں برسر اقتدار جماعت کو شکست ہوسکتی ہے ۔ مدھیہ پردیش میں دیہی بحران اور کرپشن کی کہانیاں بڑی تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ کچھ کہانیوں کو یقین کی حد تک مان بھی لیا گیا ہے ۔ وسندھرا راجے حکومت کو درپیش مخالف حکومت جذبہ حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج میں واضح طور پر دیکھنے کو ملا ہے ۔
ہر اعتبار سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ریاستی اسمبلیوں کے انتخابی نتائج مختلف ہوسکتے ہیں جو لوک سبھا انتخابات سے قبل ہونے والے ہیں۔ تاہم ان متضاد اسمبلی نتائج کی بنیاد پر 2019 کے لوک سبھا انتخابات کا اندازہ کرنا مشکل ہوگا ۔ بیشتر ریاستوں میں انتخابات کو مقامی قائدین کی کارکردگی کی بنیاد پر لڑا جاتا ہے اور ان کو قومی پس منظر کو ذہن میں نہیں رکھا جاتا ۔ یقینی طور پر اس بات پر وقفہ وقفہ سے ملک کی سیاسی تاریخ میں واضح کیا جاتا رہا ہے ۔ مثال کے طور پر 1960 کے دہے میں حالانکہ مخالف کانگریس لہر سارے ملک میں چل رہی تھی اور کئی ریاستوں میں کانگریس کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا تھا لیکن 1971 لوک سبھا انتخابات میں اندرا گاندھی نے کامیابی حاصل کرلی ۔ حال ہی میں بی جے پی کو 2012 کے یو پی اسمبلی انتخابات میں کراری شکست ہوئی تھی لیکن اس نے 2014 لوک سبھا انتخابات میں 80 کے منجملہ 73 حلقوں میں کامیابی درج کی ۔ بہار میں لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کا مظاہرہ بہترین تھا ۔ اس نے 40 کے منجملہ 31 لوک سبھا حلقوں سے کامیابی حاصل کی تھی لیکن اسے ایک سال بعد ہی اسمبلی انتخابات میں بری شکست ہوئی تھی ۔ یہی کہانی دہلی میں دہرائی گئی جہاں بی جے پی کو تمام سات لوک سبھا حلقوں سے کامیابی ملی پھر اسے اسمبلی انتخابات میں فوری بعد بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔
اسمبلی انتخابات کے برخلاف جہاں مقامی مسائل زیادہ اہم رول ادا کرتے ہیں ‘ 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں اس رجحان کا اثر زیادہ رہیگا جس پر مودی کی شخصیت انحصار کرتی ہے ۔ مودی کی کارکردگی ‘ ان کی افادیت اور سیاسی مینجمنٹ میں ان کی صلاحیتوں کا امتحان ہوسکتا ہے جبکہ ان کے مخالفین کا ایک ساتھ ہونا اور اتحاد کرنا اب بھی کہانی ہی لگتا ہے ۔ ماضی کے تجربہ کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے مودی کے پاس انتہائی مشکل صورتحال میں بھی ایک طاقتور مثبت کہانی پیش کرنے کی صلاحیت موجود ہے ۔ اس صورتحال میں جہاں رائے دہندے اکثر پرکشش نعروں اور سوشیل میڈیا کی مہم کے زیر اثر آسکتے ہیں۔ ایک سال کا عرصہ سیاست میں بہت طویل عرصہ ہوتا ہے ۔