کرناٹک میں سیکولر ووٹرس کی اہمیت

غضنفر علی خان
آئندہ ماہ کے دوسرے ہفتہ میں پڑوسی ریاست کرناٹک میں اسمبلی کیلئے انتخابات ہونے والے ہیں۔ کانگریس جہاں برسر اقتدار ہے اور بی جے پی اس جنوبی ریاست پر قبضہ کرنے کیلئے بے چین ہے ۔ ہر طرح کے حربے استعمال کئے جارہے ہیں۔ بی جے پی کے صدر امیت شاہ نے تو حد کردی، اپوزیشن پارٹیوں کی جانب کی جانے والے اتحاد کی کوششوں کو برا بھلا کہتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ اپوزیشن پارٹیوں کا یہ فرنٹ ایسا اتحاد ہے جس میں کتے ، بلیاں اور سانپ سبھی ایک جگہ ہورہے ہیں ۔ ایک حکمراں پارٹی کے صدر کی حیثیت سے ہی نہیں عام ہندوستانی شہری کی حیثیت سے بھی امیت شاہ کو ہی نہیں کسی ہندوستانی شہری کو اپنے سیاسی حریف کا ان جانوروں سے تقابل کرنا یا مثال کے طور پر ان جانوروں کا نام لینا گوارا نہیں کیا جاسکتا۔ یہ رویہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انتخابی میدان میں قدم رکھنے سے پہلے ہی بی جے پی اور اس کے صدر پر بدحواسی چھائی ہوئی ہے۔ انہیں اگر یہ معلوم ہوتا کہ سیاسی میدان میں تنقید کرنے کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں تو وہ ہرگز اپوزیشن کے اتحاد کو کتا ، بلی اور سانپ کا اتحاد قرار نہ دیتے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے جبکہ امیت شاہ غیر پارلیمانی اور غیر مہذب الفاظ استعمال کئے ۔ اس سے پہلے بھی وہ ایسا کرچکے ہیں ۔ کرناٹک میں ابھی اپوزیشن اس مجوزہ اور متوقع اتحاد ، فرنٹ کا کوئی عمل دخل نہیں ہے ۔ یہاں تو روادار اور سیکولر ذہن والے اور فرقہ پرست ذہنیت والے کرناٹک کے رائے دہندوں کا مقابلہ ہے۔ یہ ریاست کبھی بھی بی جے پی کے زیر اقتدار نہیں رہی ۔ سوائے چند برسوں کے جبکہ بی جے پی لیڈر یدی یورپا چیف منسٹر بنے تھے لیکن روایتی طور پر کرناٹک ایسی ریاست ہے جہاں آزادی کے بعد سے ہمیشہ کانگریس ہی نے راج کیا ۔ دراصل بی جے پی جنوبی ریاستوں میں اپنے فرقہ پرست ایجنڈہ پر عمل کرتے ہوئے حکومت سازی کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے ۔ شمال مشرقی ہندوستانی ریاستوں میں حالیہ اسمبلی انتخابات میں کامیابی کے بعد بی جے پی کی ساری قیادت خاص طور پر امیت شاہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہر سمت ہر جگہ ہر ریاست میں بی جے پی کا بول بالا ہے۔ اس نشہ میں وہ کیرالا، کرناٹک ، آندھراپردیش تلنگانہ میں بھی پارٹی کی حکمرانی کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ کرناٹک میں صورتحال گزشتہ چند ہفتوں سے بدل رہی ہے ، جہاں کمزور طبقات اور اقلیت کے علاوہ ایک تیسری طاقت لنگایت فرقہ کی ابھر گئی ہے جبکہ ایک علحدہ مذہبی اقلیت قرار دینے کا موجودہ چیف منسٹر مسٹر سدا رامیا اور کانگریس پارٹی وعدہ کر کے لنگایت فرقہ کو بی جے پی سے دور کرنے میں کامیاب ہوتے نظر آرہے ہیں۔ لنگایت طبقہ کو یہ موقف مل سکتا ہے یا نہیں یہ ابھی وقت طلب بحث ہے لیکن یہ صد فیصد صحیح ہے کہ کرناٹک کی کل آبادی کا 20 فیصد لنگایت طبقہ پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ 15 تا 20 فیصد مسلم اقلیت کے ووٹر ہیں، جو کسی قیمت پر بی جے پی کو ووٹ نہیں دیں گے ۔

ہریجنوں اور دلتوں میں بھی مخالف بی جے پی جذبات پیدا ہوگئے ہیں۔ ابھی کچھ دن قبل دلتوں کی مختلف تنظیموں نے بھارت بند منایا تھا جس میں ایک دن ہی میں 9 لوگ مارے گئے۔ دلت ووٹ پر یوں بھی بی جے پی کی گرفت کبھی مضبوط نہیں رہی چونکہ بی جے پی کی سرپرست آر ایس ایس دلتوں کی ہمیشہ ہی مخالف رہی۔ وہ دلتوں کی نہیں بلکہ اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کی برتری چاہتی ہے ۔ دوسری طرف دلت بھی یہ بات سمجھ چکے ہیں کہ جب تک بی جے پی پر آر ایس ایس کی گرفت رہے گی تب تک دلتوں کی جانب اس پارٹی کی توجہ نہیں ہوگی۔ ۔ اس طرح سے کرنا ٹک کے مختلف مذہبی ، سماجی اکائیوں میں بی جے پی نہ تو کوئی مقبولیت رکھتی ہے اور نہ کوئی وقار رکھتی ہے ۔ ایسے میں جو مقابلہ انتخابات میں ہوگا وہ کانگریس اور بی جے پی کے درمیان ہوگا ۔ جنتادل سیکولر تیسری سیاسی طاقت ہے جس کا قابل لحاظ وجود کرناٹک میں ہے۔ سابقہ وزیراعظم دیوے گوڑا کی قیادت میں پارٹی بھی پوری طرح کرناٹک کی سیاسی بساط پر پھل پھول نہ سکی ۔ ایک اور ریاست ہے کہ مسلم اقلیتی طبقہ میں اپنے سے سیکولر امیج کی وجہ کافی مقبول ہے۔ یہ جماعت ان انتخابات میں اہم بن سکتی ہے کیونکہ مسلم اقلیت کے ووٹ اگر جنتا دل سیکولر پارٹی قابل لحاظ تھا، رومس حاصل کر کے پھر کانگریس پارٹی کے لئے کچھ مشکلات پیدا ہوں گی ۔ ابھی کرناٹک کے سیاسی منظر میں تجزیہ کاروں کے خیال میں دیوے گوڑا کی یہ پارٹی مسلم ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور در پردہ بی جے پی ان کوششوں کی تائید کر رہی ہے۔ یہ صورتحال البتہ تشویشناک ہے ۔ کیوں کانگریس کی جیت کا انحصار لنگایت فرقہ کے ووٹوں کے بعد صرف مسلم ووٹوں پر ہے۔ بی جے پی خوب جانتی ہے کہ اگر یہ صورتحال خدانخواستہ پیدا ہوتی ہے تو بی جے پی کیلئے مفید ثابت ہوگی ۔ بعض مفاد پرست مسلم قائدین بھی اس سودا بازی میں مبینہ طور پر ملوث ہیں یا کم از کم بتائے جاتے ہیں۔ کرناٹک کے چناؤ ان معنوں میں بے حد اہم ہیں کہ یہ ایک ایسی لڑائی ہے جس میں کانگریس اپنا اقتدار بچانے اور بی جے پی اقتدار حاصل کرنے کیلئے ایک دوسرے کے خلاف دست و گریباں ہیں۔ کوئی مسلم قیادت اس ریاست میں ایسی نہیں ہے کہ وہ مسلم ووٹرس کی صحیح خطوط پر رہنمائی کرسکے ۔ بی جے پی لنگایت فرقہ کے حصوں اور مسلم ووٹ کی تقسیم کا ایک انتہائی خطرناک کھیل کھیل کرہی ہے ۔ تاہم ابھی تک تو ایسے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے کہ اپنے اس کھیل میں وہ کامیاب ہوجائے گی ۔ چناؤ کے بارے میں کوئی بات یقین سے نہیں کہی جاسکتی ، صرف آثار و قرائین سے ہی قیاس آرائی کی جاسکتی ہے۔ ان تمام باتوں کے علاوہ یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ دونوں پارٹیوں کے پاس کتنا فاضل روپیہ پیسہ ہے جو انتخابات میں جھونک سکتی ہیں ۔ اس معاملہ میں بی جے پی، کانگریس سے بہت آگے ہے ۔ حالیہ سروے کے مطابق بی جے پی کے اثاثہ جات اور رقم 1039 کروڑ روپئے ہے جبکہ کانگریس صرف 234 کروڑ ہی رکھتی ہے ۔ ان حالات میں اگر کانگریس اپنے کیڈر ، اپنے کارکنوں میں پارٹی کی جیت کیلئے جذبات پیدا کرسکتی ہے تو پھر حالات بدل سکتے ہیں۔ کرناٹک میں بی جے پی پارٹی کا کوئی خاص کیڈر نہیں ہے۔ کانگریس پارٹی نہیں بلکہ کانگریس پارٹی کے ووٹرس ، کارکنوں پر اس بات کا ز یادہ انحصار ہے کہ وہ پارٹی کو اس صورتحال سے کیسے نکال سکتے ہیں۔ پارٹی کی قیادت تو اپنی جگہ ہے لیکن انتخابی مہم پارٹی کے ورکرس کے کام پر جیتی یا ہاری جاتی ہے ۔ ظاہر ہے کہ انتخابات میں وزیراعظم مودی اور خود صدر امیت شاہ کرناٹک میں انتخابی مہم شخصی دلچسپی سے چلائیں گے اور یہ تک کہا جارہا ہے کہ پارٹی پر امیت شاہ کا اثر اتنا بڑھ گیا ہے کہ وہ وزیراعظم سے زیادہ فیصلے کر رہے ہیں۔ کانگریس کی طرف سے صدر راہول گاندھی ہی ایسے لیڈر ہیں جو امیت شاہ اور وزیراعظم مودی کا جواب دے سکتے ہیں۔ کم و بیش وہی صورتحال کرناٹک میں ہوسکتی ہے (انتخابی مہم کی حد تک) جو گجرات کے اسمبلی چناؤ میں ہوئی تھی یعنی اکیلئے راہول گاندھی کو کانگریس نے میدان میں اتارا تھا اور آخری وقت تک وہی ڈٹے رہے اور آخر کار راہول گاندھی کی کوشش کی وجہ سے کانگریس کو گجرات میں خاطر خواہ کامیابی حاصل رہی۔