کرناٹک میں تشدد

کرناٹک میں کانگریس حکومت نے پہلی مرتبہ ریاست گیر سطح پر حضرت ٹیپو سلطان کا یوم پیدائش بہت ہی عقیدت و فخر کے ساتھ منایا۔ سنگھ پریوار نے اس تقریب کو سرکاری سطح پر منانے کے خلاف احتجاج کیا اور عوامی سطح پر منعقد ہونے والی تقاریب کو درہم برہم کرتے ہوئے ہندو۔ مسلم فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دیتے ہوئے نقص امن کا مسئلہ پیدا کردیا۔ کرناٹک کے مڈکیری ٹاؤن ضلع گدگ میں ٹیپو سلطان کی یوم پیدائش تقریب پر احتجاج کرتے ہوئے وشوا ہندو پریشد کے کارکنوں نے تشدد کیا۔ سنگباری کے واقعات میں وی ایچ پی لیڈر اور ایک وظیفہ یاب شخص ہلاک ہوئے۔ 18 ویں صدی کے میسور کے حکمراں ’’شیر میسور‘‘ ٹیپو سلطان کی یوم پیدائش منانے سرکاری فیصلہ پر اعتراض دکھانے والی ہندو تنظیموں نے اپنی نفرت کی مہم کو ملک بھر میں پھیلاکر بدامنی، تشدد اور جان و مال کے نقصانات کو ہی اپنا مقصد بنا لیا ہے تو پھر نظم و نسق کو ایسی تنظیموں کے خلاف سخت اقدامات کرنے ہوں گے۔ کرناٹک میں ضلع گدگ میں امتناعی احکام نافذ کردیئے گئے تھے، اس کے باوجود ٹیپو سلطان کی یوم پیدائش تقریب کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان تصادم ،پولیس لاٹھی چارج، آنسو گیاس کا برساؤ وغیرہ افسوسناک واقعات ہیں۔ اس سے ایک طبقہ کی کوتاہی اور تنگ نظری عیاں ہوتی ہے تو دوسری طرف ایک طبقہ کے جذبات کو ٹھیس پہونچتی ہے۔ بی جے پی نے ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی سنگھ پریوار کے نظریات کی تیز دھار تلوار کو چلاتے ہوئے چیف منسٹر کرناٹک سدا رامیا پر الزام عائد کیا کہ وہ اقلیتوں کو خوش کرنے کے لئے ٹیپو سلطان کی یوم پیدائش تقریب منارہے ہیں۔ بی جے پی کو مسلم حکمراں ’’شیر میسور‘‘ کے نام سے یونیورسٹی قائم کرنے پر بھی اعتراض ہے۔ چیف منسٹر کرناٹک سدا رامیا نے ٹیپو سلطان کی یوم پیدائش منانے حکومت کے فیصلے کی بھرپور مدافعت کی ہے۔ اس تقریب پر اعتراض کرنے والی تنظیموں آر ایس ایس ار دیگر فرقہ پرستوں پر تنقید کی کہ یہ تنظیمیں احسان فراموشی کی انتہا کو پہونچنے کا مظاہرہ کررہی ہیں۔ مجاہد آزادی کی یاد میں اگر کوئی سرکاری تقریب منعقد ہوتی ہے تو اس کو فرقہ پرستی کی نظر سے نہیں دیکھنا چاہئے جبکہ حضرت ٹیپو سلطان کے بارے میں ہر ہندوستانی خاص کر جنوبی ہند کا ہر شہری نیک رائے رکھتا ہے کہ وہ ایک انصاف پسند حکمراں تھے۔ ان کے پاس تمام مذاہب کے افراد کو یکساں اہمیت حاصل تھی۔ تمام شہریوں اور طبقات کے ساتھ مساوات کا معاملہ ان کی حکمرانی کا اہم مقصد تھا۔

انہوں نے چار زبانوں فرانسیسی، فارسی، کنڑا ، اُردو کے ساتھ حکمرانی کی۔ ٹیپو سلطان کی فنی صلاحیتوں کا ہر تاریخ داں معترف ہے کیونکہ ہندوستان کو ناز ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے میزائل ٹیکنالوجی کا موجود ہونے کا شرف حاصل ہے۔ اس لئے آج اگر سرکاری سطح پر شیر میسور کا 265 واں یوم پیدائش منایا جارہا ہے تو اس پر فرقہ پرستوں کو اعتراض کا حق نہیں ہونا چاہئے۔ ٹیپو سلطان کی قربانی سے ہر ہندوستانی کو یہ سبق لینا چاہئے کہ ہم سب کو ملک کے لئے ہی اپنی جانیں قربان کرنا ہے اور اس سے پہلے کو اپنے ملک کے لئے جینا ہے، لیکن فرقہ پرستوں نے نقص امن پیدا کرکے شہریوں کی جانوں کو جوکھم میں ڈالنے کا ناپاک منصوبہ بنایا ہے تو اس کو منصوبے پر عمل آوری کی ہرگز اجازت نہیں دی جانی چاہئے۔ ٹیپو سلطان کی یوم پیدائش تقریب منانے کا جذبہ رکھنے والی حکومتوں اور تنظیموں کو اس حکمران کی پالیسیوں اور حکمرانی کے ان طریقوں پر بھی عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس حوالے سے افسوسناک بات یہ بھی ہے کہ ٹیپو سلطان کے اہل خانہ کے ساتھ آج جو ناانصافی ہورہی ہے، اس پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ اگر سرکاری سطح پر ٹیپو سلطان کے کے اہل خانہ کے ساتھ انصاف کیا جائے تو یہ ٹیپو سلطان کے لئے اصل خراج ہوگا۔ کلکتہ کے ٹولی گنج علاقہ کی جھونپڑپٹی میں ٹیپو سلطان کے فرزند فتح حیدر کی چھٹویں نسل سلطان کبیر شاہ ایک جھونپڑی میں زندگی گذار رہے ہیں۔ ان کے اہل خانہ کسمپرسی کی زندگی گذار رہا ہے۔ سال 2009ء میں ٹیپو سلطان کی 200 ویں یوم پیدائش کے موقع پر حکومت کرناٹک نے اہل خانہ کو تہنیت دینے کا فیصلہ کیا تھا اور وفد بھیج کر یہ کام بھی پورا کرلیا گیا مگر حکومت کی طرف سے اس اہل خانہ کو کرناٹک میں سَر چھپانے کے لئے کوئی جگہ یا عمارت فراہم نہیں کی گئی اور روزگار کا بندوبست نہیں کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ آیا سرکاری سطح پر بڑے پیمانے پر یوم پیدائش تقریب منانے والی حکومتیں یا تنظیمیں حقیقت میں شیر میسور کو خراج پیش کررہی ہیں۔