کرناٹک اردو اکیڈیمی کے زیر اہتمام بنگلور میں سراج اورنگ آبادی پر ایک روزہ قومی سمینار

ڈاکٹر رؤف خیر
مرزا غالب سے تقریباً نوے برس پہلے پیدا ہونے والے سراج اورنگ آبادی اور ولی دکنی کے جانشین سمجھے جانے والے شاعر پر کرناٹک اردو اکیڈیمی نے 19 اپریل 2018 ء کو بنگلور کے کنڑا بھون میں یک روزہ قومی سمینار کا انعقاد کیا ۔ پروفیسر شمیم حنفی کی صدارت میں پروفیسر قاضی افضال حسین کلیدی خطبہ دینے والے تھے مگر دونوں حضرات نے شخصی مجبوریوں کی وجہ سے معذرت چاہی تو آخری آخری لمحوں میں پروگرام میں تبدیلیاں کی گئیں۔ سمینار کی ذمہ دار رکن کرناٹک اردو اکیڈیمی نے چیرمین ڈاکٹر قدیر ناظم کے مشورے سے پروفیسر عتیق اللہ کو کلیدی خطبے کی دعوت دی اور جناب اکرم نقاش نے سراج اورنگ آبادی کی مثنویوں کے تعلق سے مقالہ پیش کرنے کیلئے مجھ ناچیز رؤف خیر کو کرناٹک اردو اکیڈیمی کے ذریعہ مدعو کیا ۔ میں نے ڈاکٹر یحییٰ نشیط کے مرتبہ مونوگراف سراج اورنگ آبادی مطبوعہ NCPUL دہلی کی روشنی میں اپنا مقالہ ’’سراج بے زجاج‘‘ تیار کرلیا اور بنگلور کے لئے رختِ سفر باندھا۔ اس سمینار میں اورنگ آباد سے شاعر و تحقیق و نقاد جناب اسلم مرزا ، ڈاکٹر مسعود سراج میسور سے اور فہیم صدیقی ناندیڑ سے آئے گلبرگہ سے اکرم نقاش بھی آنے والے تھے مگر اپنی سرکاری ذمہ داریوں کے مسائل کی وجہ سے اکرم نقاش آ نہیں پائے۔
کنڑا بھون کے نینا ہال میں دن میں گیارہ بجے سمینار کا آغاز ہوا ہے ۔ مولانا نعمان نے قرأت کلام پاک میں سورہ جمعہ کی آخری تین آیات کی تلاوت فرما کر ترجمہ بھی پیش کیا۔ سمینار کی کنوینر ڈاکٹر فاطمہ مہرا کی صاحب زادی نے اپنی والدہ کی نعت ترنم میں سنائی ۔ اس اجلاس کی نظامت ڈاکٹر ملنسار اطہر سابق ڈائرکٹر آل انڈیا ریڈیو بنگلور فرما رہے تھے ۔ انہوں نے ڈاکٹر فاطمہ زہرا سے گزارش کی کہ وہ صدر ، مہمانوں اور مقالہ نگاروں کا تعارف کرانے کی ذمہ داری قبول فرمائیں۔ اس افتتاحی اجلاس کی صدارت ڈاکٹر قدیر ناظم چیرمین اردو اکیڈیمی کرناٹک نے کی ۔ آئی اے ایس آفیسر جناب محمد محسن ، سکریٹری محکمہ اقلیتی بہبود و حج و اوقاف حکومت کرناٹک نے اپنے افتتاحی کلمات میں سراج اورنگ آباد کے فکر و فن پر جامع خیالات کا اظہار فرماتے ہوئے کہا سراج اورنگ آبادی دنیا و دین دونوں کو ساتھ لے کر چلتے تھے ۔ انہوں نے صوفیانہ زندگی گزاری ان کی زندگی کے عشق مجازی و حقیقی کے پہلوؤں پر گفتگو ہوگی ۔ اس طرح کے سمینار کے ذریعہ دراصل نئی نسل کی تربیت مقصود ہونی چاہئے ۔ کنوینر ڈاکٹر فاطمہ زہرا نے دل نواز ترنم میں سراج کی مشہور و معروف غزل سنائی ۔
خبرِ تحیرِ عشق سن نہ جنوں رہا نہ پری رہی
نہ تو تو رہا نہ تو میں رہا جو رہی سو بے خبری رہی
پروفیسر عتیق اللہ نے اپنے طویل ترین کلیدی خطبے میں سراج کے تقریباً تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا۔ انہوں نے بڑی صاف گوئی سے فرمایا کہ وہ اپنے موضوع سے ہٹ کر بھی اپنے مطالعے کا نچوڑ پیش کرنے کے عادی ہیں۔ چنانچہ انہوں نے فرمایا کہ ہر سچائی آدھی سچائی ہوتی ہے (Every Truth is Half Truth) ۔ تحقیق کبھی مکمل نہیں ہوتی۔ جب کوئی یونیورسٹی کا استاد ہوجاتا ہے تو اسے دانشور کہا جانے لگتا ہے ۔ سب سے بڑا کارنامہ روایت سازی ہے جو دکن میں ہوئی اگر اس روایت کو منہا کردیں تو اردو ادب کنگال ہوجائے ۔ شعر و ادب کی بنیادیں دکن میں قائم کی گئی ہیں۔ جیسے بیجا پور حیدرآباد دکن ۔ ہندوستان میں چار ہزار بولیاں تھیں اب لے دے کر تینتالیس چوالیس رسم الحظ ہند میں باقی رہ گئے ہیں۔ لوک ادب اور صوفی تحریک میں مخلوط قسم کی شاعری ہوتی ہے جو اجتماعی کلچر کی نمائندگی کرتی ہے ۔ ہمارے ادب پر کوئی مکھوٹا نہیں ہوتا۔ ڈیڑھ گھنٹہ طویل اس کلیدی خطبے میں سراج کے موضوع پر بھی اظہار خیال کرتے ہوئے پروفیسر عتیق اللہ نے کہا کہ سراج کی غزل خبرِ تحیرِ عشق سن… والی غزل پر کسی نے غزل کہنے کی ہمت نہیں کی سوائے یگانہ چنگیزی کے غالباً عتیق اللہ ہی کے دوران قیام اورنگ آباد سراج اورنگ آبادی کی صدی تقاریب میں یہ مصرع بطور طرح دیا گیا تھا اور سکندر علی وجد ، بشیر نواز ، قاضی سلیم ، جاوید ناصر ، ناصر زماں خان ، خان شمیم ، سحر سعیدی وغیرہ نے اس طرحی مشاعرہ میں حصہ لیا تھا ۔
پروفیسر عتیق اللہ نے یہ بھی کہا کہ سراج کی مذکورہ غزل کی بحر میں علامہ اقبال نے غزلیں کہیں جیسے :
ترا جلوہ کچھ بھی تسلی دل نا صبور نہ کرسکا
نہ وہ گریۂ سحری رہا نہ وہ آہِ نیم شبی رہی
کبھی اے حقیقتِ منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں
عتیق اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ ولی دکنی نے جو روایت سازی کی وہ قدیم و جدید کا سنگم ثابت ہوئی ۔ دکن میں تحقیق کا کام نہایت سست رہا ہے مگر مولوی عبدالحق نے وجہی کی سب رس منظر عام پر لاکر کارنامہ انجام دیا۔ ایسا نہیں کہا جاسکتا کہ سعداللہ گلشن نے ولی کے لئے شاعری کا ایک نسخہ تجویز کردیا تھا بلکہ ولی تو پہلے ہی سے اس قسم کی شاعری کر رہے تھے جو ان کی پہچان بن گئی تھی ۔ جناب عتیق اللہ نے کہا کہ بچہ ہمیشہ باپ کے نقشِ قدم پر چلنا چاہتا ہے مگر خود بھی باپ بننا چاہتا ہے ۔ داؤد اورنگ آبادی تو سراج کو مانتے ہی نہیں تھے۔ افلاطون کے استاد سقراط نے اپنے شاگرد افلاطون کو ترکِ شاعری کا مشورہ دیا تھا جس پر اس نے عمل بھی کیا مگر افلاطون کا عینی تصور مشہورہے۔ عتیق اللہ نے فرمایا کہ تین چیزیں جو سراج کے ہاں ہیں وہ ولی کے ہاں نہیں ملتیں۔
– 1 شدتِ وجود (Density of Existence) استغراق
– 2 شدتِ حسن Intensity of Beauty اور
– 3 شدتِ عشق Intensity of Love
انہوں نے اپنے مطالعے کے حوالے سے مزید فرمایا کہ اپنے آپ کو معشوق بناکر پیش کرنا دراصل دراوڑین عشق ہے ۔ کالی داس اور کمار سمبھو نے عشق کیا ۔ شمس الرحمن فاروقی کے ناول کو مقدس وصل کے جذبے سے سرشار ناول قرار دیا ۔ (حالانکہ داغ دہلوی کی ماں وزیر خانم بغیر نکاح کبھی کسی انگریز مارسٹن بلیک ، نواب شمس الدین خان ، آغا تراب علی اور بعد میں بہادر شاہ کے بے ٹے مرزا فخرو کو شربت وصل سے سیراب کرتی رہی ہے)
صدر اجلاس ڈاکٹر قدیر ناظم نے افتتاحی اجلاس اور کلیدی خطبے پر اپنے تاثرات پیش کرتے ہوئے کہا کہ دکن کے دو نمائندہ شعراء ولی و سراج گزرے ہیں جن میں سے فی الحال سراج پر سم ینار کا اہتمام کیا گیا ہے ۔ نئی نسل کی تربیت کیلئے کرناٹک اردو اکیڈیمی ورکشاپ کرنے والی ہے ۔ پروفیسر عتیق اللہ س صرف تین دن پہلے رابطہ کیا گیا اور انہوں نے ہماری دعوت قبول کر کے سمینار کو عزت بخشی ۔
اس اجلاس کے اختتام پر ظہرانے کا انتظام کیا گیا تھا اور تمام شرکائے اجلاس کی ضیافت بہترین بریانی سے کی گئی ۔
دوسرا اجلاس پروفیسر عتیق اللہ اور چیرمین کرناٹک اردو اکیڈیمی قدیر ناظم کی صدارت میں ہوا ۔ ڈاکٹر مسعود سراج سابق صدر شعبہ اردو میسور یونیورسٹی نے دکن کا باکمال شاعر سراج کے عنوان سے مقالہ پیش کر کے کہا کہ میر کے نکات الشعراء میں سرتاج کے اکیس اشعار کا بار پانا ایک اعزاز سے کم نہیں ۔ انہوں نے شکوہ کیا کہ سراج پر باضابطہ کوئی تنقیدی کام نہیں ہوا ۔ انہوں نے سراج کے ہاں شعری محاسن و محاکات کے کئی حوالے پیش کئے۔
دیارِ سراج سے تشریف لانے والے جناب اسلم مرزا نے ’’سراج پر ہندوی اثرات ‘‘ پر مقالہ پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ ہندو دھرم اور ہندو اساطیر کے اثرات اردو ادب پر پڑے ہیں۔ سنت گیانیشور اور سنت ایکناتھ جب گزرے اس وقت ولی و سراج موجود تھے ۔ سراج کے دوستوں میں ہندو مسلم سب تھے ۔ ہندوؤں کے مقدس ویدوں اور پوتھی پر سراج نے شعر کہے۔ سمدر متھن کا ذکر بھی سراج کے ہاں ہے۔ سورج گرہن اور چاند گرہن کے موقعوں پر مندروں کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں جس کا ذکر سراج کی شاعری میں بھی آیا ہے۔ (حالانکہ گرہن کے موقعوں پر مساجد میں نماز کسوف یا نماز خسوف کا اہتمام کیا جاتا ہے)
تیسرا اجلاس پروفیسر م ن سعید کی صدارت میں ہوا جس میں دو مقالے پیش کئے گئے ۔ پہلا مقالہ حیدرآباد کے ڈاکٹر رؤف خیر نے سراج کی ٹنویوں کے حوالے سے ’’سراج بے زجاج‘‘ کے عنوان سے پیش کیا ۔ رؤف خیر نے فروغ اردو NCPUL دہلی کے ادارے سے شائع کردہ ڈاکٹر یحییٰ نشیط کے مونوگراف سراج اورنگ آبادی کے حوالے سے کہا کہ بارہ تیرہ برس کی عمر میں سراج پر دیوانگی کا دورہ پڑا تو انہوں نے برنگی اختیار کی ۔ ان کے والد ننگ دھڑنگ سراج کو حضرت برہان الدین غریب کے مزا پر بیڑیاں پہناکر چھوڑ آئے ۔ عالم دیوانگی میں سراج سینکڑوں فارسی اشعار کہتے تھے جنہیں جمع کرلیا جاتا تو ایک ضخیم دیوان تیار ہوجاتا ۔ کچھ دن بعد اس کیفیت جذب و مجذوبیت سے نکلے تو اردو میں شعر کہنے لگے اور ایک دیوان انوارالسراج تیار ہوا ۔ پھر مرشد کے کہنے پر شاعری ترک کردی مگر چھٹتی کہاں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی ۔ سراج نے اپنی مثنوی بوستانِ خیال کے بارے میں خود کہا کہ وہ ان کی آپ بیتی ہے۔
ڈاکٹر فہیم صدیقی (ناندیڑ) نے سراج کے اشعار میں پیکر تراشی کے عنوان سے مقالہ پیش کرتے ہوئے طلبہ و طالبات کو پیکر کی تعریف سمجھائی اور میر و غالب کے اشعار کا زیادہ حوالہ دیا ۔ سراج کے اشعار میں بھی پیکر تراشی دکھائی ۔ پروفیسر م ن سعید نے صدارتی خطاب کیا۔
دوسرے اجلاس کی نظامت زریں شعاعیں کی مدیرہ فریدہ رحمت اللہ صاحبہ نے اور تیسرے اجلاس کی نظامت ڈاکٹر ملنسار اطہر نے چلائی ۔ اجلاس کے فوری بعد ڈاکٹر قدیر ناظم کی صدارت میں آخر میں محفل شعر منعقد ہوئی جس میں صدر کے علاوہ مسعود سراج فریدہ ، رحمت اللہ ، فاطمہ زہرا ، رؤف خیر ، اسلم مرزا اور فہیم صدیقی نے کلام سناکر داد پائی۔
اسی طرح یہ ایک روزہ قومی سمینار اختتام پذیر ہوا۔