کرایہ کو زکوۃ میں ضم کرنا

سوال :  میں جس گھر میں مقیم ہوں اس سے متصل ایک سفالی مکان تھا جس کو میں خریدلیا لیکن وہ رہائش کیلئے مناسب نہیں ہے ۔ اس کا کرایہ تقریباً بارہ سو روپئے آسکتا ہے۔ اور میں اس میں کسی کو کرایہ پر بھی رکھنا نہیں چاہتا ۔ ہمارے پاس ایک خاتون کام کرتی ہے، اس کا شوہر اس کو چھوڑ چکا ہے ، اس کے دو بچے ہیں۔ کیا ہم اس عورت کو اس مکان میں رہنے کی اجازت دیکر اس سے کرایہ حاصل کئے بغیر تقریباً ایک ہزار روپئے ہم پر فرص شدہ زکوٰۃ میں شامل کرسکتے ہیں ۔ اگر اس طرح رخصت ہو تو بہتر ہوگا۔
محمد فردوس خان، ملک پیٹ
جواب :  زکوٰۃ میں مستحق زکوۃ کو مال کا مالک بنانا لازم ہے ۔ اس لئے اگر کوئی شخص کسی محتاج و ضرورتمند کو اپنے گھر میں زکوۃ کی نیت سے سکونت فراہم کرے تو یہ اس کی طرف سے زکوۃ کے لئے کافی نہ ہوگا ۔ البحرالرائق جلد 2 ص : 353 میں ہے : الزکاۃ لاتتأدی الا بتملیک عین متقومۃ حتی لواسکن الفقیر دارہ سنۃ بنیۃ الزکاۃ لا یجزئہ لان المنفعۃ لیست بعین متقومۃ۔
پس صورت مسئول عنہا میں آپ گھر کی خادمہ کو اپنے مکان میں زکوۃ کی نیت سے سکونت فراہم کریں تو شرعاً زکوۃ ادا نہ ہوگی۔

امامت کی اہلیت
سوال :   شرائط امامت کیا ہیں ؟ کونسا شخص امامت کرسکتا ہے ؟
نام …
جواب :  شرعاً ایسے شحص کی امامت درست ہے جو تمام شرائط صحت نماز کا جامع ہو۔ یعنی مسلم ہو، عاقل ہو ، بالغ ہو، طہارت وضوء ، غسل، شرعی طریقہ سے انجام دیتا ہو، صحیح الاعتقاد ہو، تلاوت قرآن صحیح تجویدکے موافق کرتا ہو، احکام صلاۃ فرائض واجبات سنن و مفسداتِ نماز سے واقف ہو ، ہیئت اسلامی و سنن نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا عامل ہو ۔ فاسق و فاجر معلن یعنی علانیہ احکام شریعت و سنن کی خلاف ورزی کرنے والا نہ ہو، نیز اخلاق ذمیمہ کا مرتکب نہ ہو۔
جیسا کہ تنویر الابصار میں ہے : اعلم باحکام الصلوۃ ثم الاحسن تلاوۃ و تجوید اللقرأۃ ثم الاورع ای اکثر اتقا ء للشبھات … ثم الاحسن خلقا … عالمگیری جلد اول باب الامامۃ میں ہے ۔ و یجتنب الفواحش الظاہرۃ۔

دوسروں کو تکلیف دینا
سوال :  آج کے پر آشوب دور میں مسلمان روز بروز دینی تعلیمات سے دور ہوتے جارہے ہیں اور اسلامی فکر اور مزاج سے ناواقف ہوتے جارہے ہیں۔ شریعت میں کسی کو تکلیف دینے کی اجازت نہیں ہے لیکن آج کل مسلمان دانستہ و نادانستہ اس میں مبتلا ہوتے جارہے ہیں۔ بعض حضرات کسی کارخیر کو نیک سمجھ کر دوسروں کو تکلیف دے رہے ہیں۔ کیا اسلام میں اس بات کی اجازت ہے کہ ہم کار خیر کرتے ہوئے کسی مسلمان یا کسی کو بھی ایذا و تکلیف پہنچائیں ۔ اس بارے میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کار کو واضح کریں تو مہربانی ۔
محمد الطاف، کنگ کوٹھی
جواب :  آپؐ ہمیشہ اس بات کا شدت سے اہتمام فرماتے تھے کہ آپؐ کی کسی بات یا کسی طرز عمل سے دوسروں کو تکلیف نہ پہنچے ، آپؐ کا ارشاد ہے : ’’ سچا مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے اس کے مسلمان بھائی محفوظ رہیں (البخاری) ۔اسی بناء پر آپؐ کو اگر کسی شخص میں موجود برائی کا ذکر کرنا ہوتا تو اس کا نام کبھی نہ لیتے، البتہ یہ فرماتے : لوگوں کا کیا حال ہے کہ وہ یہ کہتے ہیں (ابو داؤد ، 143:5 ، حدیث 4788 ) ۔ ام ا لمؤمنین حضرت عائشہؓ  بیان فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ آپؐ نے فرمایا : ’’ اللہ کے نزدیک سب سے برا شخص وہ ہے جس کی برائی کے ڈر سے لوگ اسے چھوڑدیں (البخاری (الادب) ، مسلم (البر ) 2002:24 ، حدیث 2591 ، مالک : موطا ، (حسن الخلق) ، احمد بن حنبل : مسند) ۔ آپؐ اپنے صحابہ کی بابت بھی یہ التزام فرماتے تھے کہ ان کی زبان اور کلام سے بھی کسی کا دل مجروح نہ ہو۔ ا یک موقع پر ام المومنین حضرت زینبؓ  نے بتقاضائے بشریت ام المومنین حضرت صفیہؓ کو غلط انداز میں یاد کیا ۔ آپؐ  کو اس سے سخت صدمہ ہوا اور کئی دن تک حضرت زینبؓ  سے کلام نہ فرمایا (ابو داؤد ، 9:5 ، حدیث 4602) ۔ ایک مجلس میں ایک شخص حضرت ابوبکر ؓ کے سامنے ان کو برا بھلا کہہ رہا تھا اور حضرت ابو بکر ؓ خاموش تھے لیکن جب وہ حد سے بڑھا تو حضرت ابو بکر ؓ نے اسے جواب دیا ۔ یہ دیکھ کر آپ مجلس سے ا ٹھ کر چل دیئے ۔ حضرت ابوبکرؓ نے وجہ پوچھی تو فرمایا : پہلے تمہاری طرف سے جواب دینے پر ایک فرشتہ مامور تھا ، مگر جب تم نے جواب دیا تو وہ چلا گیا اور اس کی جگہ شیطان نے لے لی اور میں کسی ایسی مجلس میں نہیں ٹھہراسکتا جہاں شیطان ہو (ابو داؤد ، 204:5 ، حدیث 4896 ) ۔ ایک مرتبہ حضرت ابو ذرؓ نے ایک صحابیؓ (حضرت بلالؓ) کو ’’ حبشی کا بیٹا‘‘ کہہ دیا ۔ آپؐ کو پتہ چلا تو فرمایا : اے ابو ذر ! ابھی تم میں جاہلی عادات باقی ہیں اور پھر انہیں معاملہ صاف کرنے کا حکم دیا ۔ (ابو داؤد ، 359:5 ، حدیث 1557 ) ۔
متذکرہ تفصیلات سے واضح ہے کہ اسلام میں مومن کے اکرام و احترام کی کافی اہمیت ہے اور کسی کی دل شکنی دل آزاری کسی صورت میں روا نہیں ہے۔ اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ایسے کاموں سے بچیں جس سے دوسروں کو ایذاء و تکلیف پہنچتی ہو ۔

غیر اللہ کو سجدہ کرنا
سوال :  ہر مسلمان جانتا ہے کہ شرک ایک ناقابل معافی گناہ ہے پھر بھی ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ کئی مسلمان شرک کے مرتکب ہوتے ہیں اور اس کا احساس بھی نہیں کرتے۔ مثلاً سب جانتے ہیں کہ اللہ کے سوا کسی اور کو سجدہ کرنا شرک ہے۔ پھر بھی ہم آئے دن دیکھتے ہیں کہ کئی لوگ درگاہ کی چوکھٹ پر ہی فوراً سجدہ کر کے اندر داخل ہوتے ہیں، پھر اس کے بعد قبروں کو سجدہ کرتے ہیں اور اس کے علاوہ کسی بھی درگاہ میں محفل سماع کے وقت مرشد کو باقاعدہ سجدہ کرتے ہیں۔ جیسا کہ نماز میں کیا جاتا ہے ۔ کیا یہ کھلا ہوا شرک نہیں ہے اور اسے ہمارے علماء روکتے کیوں نہیں۔
– 2 نماز جمعہ اور نماز عید کے لئے امامت کرنے کیلئے کیا امام کو کسی مدرسہ کا فارغ تحصیل ہونا ضروری ہے یا اسے سند یافتہ خطیب ہونا ضروری ہے  اور عربی زبان کو اچھی طرح جاننا ضروری ہے یا کوئی بھی نیک مسلمان جو گناہ سے بچتا ہو اور نیکیاں کرتا ہو جسے سب لوگ عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہوں امامت کر سکتا ہے۔ برائے مہربانی ان سوالوں کا جواب جلد از جلد دیں۔
برہان الدین، وٹے پلی
جواب :  غیر خدا کو سجدہ کرنا جائز نہیں۔ قرآن مجید کی مختلف آیتوں میں صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرنے کا حکم ہے۔ غیر خدا کو سجدہ کرنے سے سختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے ۔ لاتسجدوا للشمس ولا للقمر الایۃ (تم سورج اور چاند کو سجدہ مت کرو) واسجدواللہ الذی خلقھن ان کتنم ایاہ تعبدون۔ (اگر تم اللہ ہی کی عبادت کرتے ہو تو صرف اور صرف اس کو سجدہ کیا کرو) ۔ لہذا تمام اہل اسلام کو چاہئے کہ وہ قبر ، مزارات کی چوکھٹ اور پیر و مرشد کو سجدہ سے احتراز کریں۔ عقیدت ایک قلبی کیفیت کے نام ہے اور وہ محمود و مطلوب ہے لیکن اس کے اظہار کے لئے غیر شرعی طریقہ اختیار کرنا جہالت ہے  اور غیر خدا کو خدا جان کر سجدہ کرنا بلا شبہ شرک ہے۔ وہ اسلام سے خارج ہے اور غیر خدا کو مخلوق سمجھتے ہوئے تعظیم کی خاطر سجدہ کرنا ممنوع و ناجائز ہے،شرک نہیں۔
– 2 جمعہ و عیدین کی امامت کے لئے اہلیت شرط ہے ۔ کسی مدرسہ کا سند یافتہ یا فارغ ہونا ضروری نہیں۔ تاہم مدرسہ کی سند اس کی اہلیت کی ایک علامت ہے۔ گناہ سے بچنا اور نیکی کرنا اہلیت امامت کے لئے کافی نہیں۔

جماعت تاخیر سے ٹھہرانا
سوال :  نماز کا وقت مقرر ہو مگر امام جماعت کا اہتمام عموماً دیری سے کرے، صرف ذاتی وجوہات کی بناء پر تو کیا ایسی نماز میں قباحت نہیں آئے گی اور امام و موذن فرض نماز سے پہلے کی سنتوں کا اہتمام نہ کرے چاہے وہ سنت موکدہ ہی ہو تو کیا نماز فرض ایسے امام کے پیچھے پڑھنی جائز ہیں ؟
سید زمرد احمد، ملے پلی
جواب :  وقت مقررہ پر جماعت کا اہتمام کرنا چاہئے۔ امام صاحب کو بھی اس جانب توجہ کرنا چاہئے ۔ تاہم کسی وجہ سے جماعت تاخیر سے کھڑی ہو تو تاخیر کی بناء جماعت پر کوئی اثر واقع نہیں ہوتا۔ بارش کی وجہ یا امام مسجد کے انتظار میں بعض اوقات تاخیر میںکوئی قباحت نہیں۔ اس طرح امام بغیر سنت ادا کئے نماز پڑھا دے تو نماز ادا ہوجائے گی لیکن امام صاحب کا سنتوں کو بلا وجہ ترک کرنا اور اس کو عادت بنالینا سخت معیوب ہے ۔ امام ، قوم کا مقتدا و پیشوا ہے ۔ اس کو بدرجہ اولی سنت کا اہتمام کرنا چاہئے ۔ وہ خود اس میںکوتاہی کرے تو قوم کے لئے کیا نمونہ ہوگا ۔

بعد وفات آنکھ، گردہ سے متعلق وصیت کرنا
سوال :  آپ سے معلوم کرنا ہے کہ کیا کوئی مسلمان اپنی زندگی میں اپنے لواحقین کو وصیت کرسکتا ہے کہ بعد انتقال اس کی آنکھیں ، گردے وغیرہ دوسروں کے استعمال کے لئے یعنی لگانے کیلئے دیئے جائیں۔ Donate) کرنے کیلئے) اس بارے میں شرعی احکام کیا ہیں۔ کیا ایسا عمل ثواب کا کام ہوگا یا گناہ ؟ برائے مہربانی معلوم کریں۔ غیر مسلمین میں یہ رواج ہے کہ دواخانوں کو پہلے سے کہہ دیا جاتاہے اور وہ ڈاکٹرز بعد مرنے کے اسے لے جاتے ہیں اور ضرورت مند لوگوں کو آپریشن کے ذریعہ لگاتے ہیں۔
محمد خان، نواب صاحب کنٹہ
جواب :  جس چیز کی وصیت کی جارہی ہے، وصیت کنندہ کا اس کا مالک ہونا ضروری ہے ۔ اگر کوئی شخص غیر مملوکہ چیز کی وصیت کرے تو وہ شرعاً باطل ہے ۔ وصیت کا مفہوم یہ ہے کہ وصیت کنندہ تاحیات جس چیز کا مالک و متصرف ہے بعد وفات وہ چیز موصی لہ ، (جس کے حق میں وصیت کی جارہی ہے) کی ملک ہوگی۔ ازروئے شرع انسان کو اپنی حین حیات اپنے اعضاء فروخت کرنے کا حق نہیں۔ حتی کہ بوقت ’’ اضطرار ‘‘ مردار بھی حلال ہوجاتا ہے لیکن ایسے وقت میں کوئی پیشکش کرے کہ میرا ہاتھ کاٹ لو اور کھاکر اپنی جان بچاو، ایسے وقت بھی انسان کا عضو کاٹ کر استعمال کرنا مباح نہیں۔ حاشیہ ابن عابدین جلد 5 ص : 215 میں ہے : وان قال لہ : اقطع یدی وکلھا لایحل لان لحم الانسان لایباح فی الاضطرار و لکرامتہ ۔ فتاوی خانیہ جلد 3 ص : 404 میں ہے: مضطری یجد المیتۃ وضاف الھلاک فقال لہ اجل : اقطع یدی وکلھا لا یسعہ الامر ۔ اعضاء انسانی سے نفع حاصل کرنا جائز نہیں۔ فتاوی عالمگیری جلد پنجم ص : 354 میں ہے : الانتفاع باجزاء الآدمی لم یجز قیل للنجاسۃ وقیل لکرامتہ وھو الصحیح ۔ نیز انسان کے انتقال کے ساتھ ہی اس کی مملوکہ ہر چیز میں اس کے ورثہ کا حق متعلق ہوجاتا ہے لیکن مرحوم کے جسم اور اس کے اعضا پر اس کے ورثہ کا کوئی حق ثابت نہیں ہوتا کیونکہ وہ اللہ کی امانت ہے ۔ بعد انتقال آدمی جس کا مالک و متصرف نہ رہے ، اس کے متعلق وصیت کرنا شرعاً باطل ہے۔ لہذا اگر کوئی اپنی آنکھ ، گردہ و دیگر اعضاء بعد وفات دوسرے ضرورتمندوں کو دینے کی وصیت کرے تو ایسی وصیت ناقابل نفاذ ہے ۔ بظاہر اس میں انسانی ہمدردی معلوم ہورہی ہے لیکن در حقیقت یہ انسانی عظمت و احترام کے قطعاً منافی ہے۔