کتاب الحاوی طب کی ایک شاہکار تصنیف اور اس کا انگریزی ترجمہ

پدم شری پروفیسرحکیم سید ظل الرحمن،  علی گڈھ
قدیم یونانی طبیبوں کی طرح ابتدائی عربی عہد کے اطبا، طب کے ساتھ فلسفہ ودیگر سائنسی علوم میں مہارت رکھتے تھے۔ کندی، ثابت بن قرۃ، ابن سینا، ابن رشد، ابو البرکات ہبت اللہ اور کتنے ہی صاحب علم ودانش طبیب ہیں، جن کاامتیاز محض طب نہیں ہے۔ فلسفہ، منطق، ریاضی، طبیعیات، فلکیات، ہیئت، نجوم، مابعد الطبیعیات میں انہیںاختصاصی منزلت حاصل ہے۔ ان موضوعات پر ان کی تصانیف ماخذ اور استناد کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اور ان میں ان کی شہرت کسی طرح طبی مرتبہ سے کم نہیں ہے۔ محمد بن زکریا رازی اگرچہ اپنے زمانہ کے عام ذوق اوررجحان کے مطابق مختلف علوم وفنون میں طاق تھا۔ اور علم کیمیا سے خاص دلچسپی رکھتا تھا، لیکن وہ ایک ایسا طبیب ہے، جس کی خصوصیت فلسفہ اور نظری وکتابی علوم سے زیادہ کیمیاوی اورطبی اعمال سے اس کا غیر معمولی شغف ہے۔ عملی و کلینکی مشاہدات اس کی توجہ کااصل مرکز تھے۔ لیبارٹریز میں کیمیاوی تجربات ، تحلیل وتجزیہ اور نبض وقارورہ و براز کے معائنہ کے ذریعہ وہ تشخیص مرض ومعالجہ کادلدادہ تھا۔  ذاتی مطب اور معائنہ مرضا کے علاوہ تشخیص امراض میں بول وبراز کے امتحان ومعائنہ پر اس کی خصوصی توجہ کا مذاق اڑاتے ہوئے ابن سینا نے کہا تھاکہ ’’رازی کا کام صرف پیشاب پاخانہ کی جانچ ہے‘‘۔ صاحب تتمہ نے لکھا ہے کہ اس میں شک نہیں واقعی رازی کواس قسم کے طبی اعمال سے بیحد دلچسپی تھی ۔

رازی کو سریریاتی و عملی اعتبارسے عرب اطباء میں سب سے زیادہ فوقیت کا مرتبہ حاصل ہے۔ وہ ہر معنی میں طبیب تھا۔ زندگی بھر مطب کے فرائض انجام دیتا رہا۔ بڑے ہسپتالوں سے وابستگی اور رئیس الاطبا کے منصب پر فائز ہونے کے علاوہ نجی طور پر بڑے پیمانہ پر اس کے ذاتی مطب کا سلسلہ جاری تھا۔یہاں تک کہ کہا جاتا ہے کہ باوجود فقر و تہی دستی اس نے خود بیمارستان رے قائم کیا۔ وہ ایک مدت تک بغداد، جندیشاپور اور رے کے سرکاری شفاخانوں میں معالجاتی تجربات کرتا رہا۔ اور اسی لئے ’’مجرب‘‘ کے لقب سے موسوم ہوا۔ اور ’’جالینوس العرب‘‘ کے خطاب سے نوازا گیا۔

عربی عہد کے دو مایہ ناز طبیبوں رازی اور ابن سینا کے فن اور ان کے ذوق وذہن کا یہاں موازنہ مقصود نہیں ہے، لیکن ان کے درمیان ایک بہت بڑافرق یہ ہے کہ ابن سینا نظریات وفلسفہ طب کا آدمی ہے، اس کے یہاں نہ کبھی عوامی مطب کاسلسلہ رہااور نہ کسی بیمارستان سے وابستگی کااسے موقع ملا۔ رازی کاتعلق خالص مطب ومعالجہ سے ہے۔ اسی امتیاز اور فنی رویہ کااثر ہے کہ اصول وکلیات پر مشتمل ابن سینا کی کتابیں درسیات کے کام کی زیادہ ہیں، مطب اور عملی زندگی میں ان سے فائدہ اٹھانے کی صورتیں کم ہیں۔ جبکہ رازی کی کتابیں معالجین اور عاملین طب کے لئے خاص طورپر کارآمد ہیں۔ ان میں تجربات ہیں ، تشخیصی نکات ہیں، مریضوں کے ذاتی وخاندانی حالات ہیں ، مرض کی روئداد اور مطب میں کام آنے والے رموز واشارات ہیں۔چنانچہ ایک تسلیم شدہ حقیقت کے طور پر اعتراف کیا گیا ہے کہ اس کی کتابیں روایتی ورسمی انداز کی نہیں ہیں۔ وہ اس کے تجربات پر مبنی ہیں۔ انہیں اس نے آزمایاہے اور استعمال کیا ہے۔

رازی کے سنہ پیدائش میں اگرچہ کافی اختلاف ہے، لیکن اس کی زندگی کے حالات و واقعات کی مطابقت سے ۲۴۰ھ؍۸۵۴ء زیادہ قرین صحت ہے۔ اس کا باپ ابوبکرتاجر تھااور وہ اسے تجارت کے پیشے سے وابستہ کرنا چاہتاتھا، مگر رازی کوکاروبار سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ آزاد منش اور شاعری وموسیقی کادلدادہ تھا۔ عود (بربط) بہت اچھا بجاتاتھا۔ عمر کی تین سے زیادہ دہائیاں اسی طرح تفریحی مشغلہ میں گزریں۔تقریبا ۵ ۳ برس کی عمر میں یعنی ۱۲۷۵ھ کے آس پاس تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے اس نے بغداد کاسفر کیا۔ بعض لوگوں نے مسافرت بغداد کے وقت اس کی عمر ۴۰ بیان کی ہے۔کہا جاتا ہے کہ بغداد پہنچتے ہی وہاں کے ایک بیمارستان میں رئیس الصیادلہ(چیف دوا ساز) سے اس کی اتفاقی ملاقات ہوئی۔اس کے فن اور منزلت سے متاثر ہو کر وہ تعلیم طب کی طرف راغب ہوا  اور آگے چل کر اسی بیمارستان میں رئیس الاطبا کے منصب جلیلہ پر فائز ہوا۔ رازی نے بغداد کے جس شفاخانہ میں تعلیم پائی اور جہاں وہ رئیس الاطباء کے منصب پر مامور ہوا وہ اصل میں دسویں عباسی خلیفہ متوکل کاتعمیر کردہ تھا۔ یہاں کے زمانہ قیام میں رازی نے کتاب فی صفات بیمارستان تحریر کی تھی۔ آخر میں ۳۱۳ھ تا سال وفات ۳۲۰ھ اس کا قیام اپنے وطن رے میں رہا۔

بیشتر مؤرخین نے طب میں علی بن ربن طبری (صاحبِ فردوس الحکمۃ) سے اس کی شاگردی کا لکھا ہے۔لیکن رشتہ تلمذ کی یہ نسبت کسی طرح صحیح نہیں ہوسکتی ہے۔ علی بن ربن طبری کاسال وفات ۲۴۰ھ ہے، جو رازی کاسال پیدائش ہے۔ اسی طرح کہا جاتا ہے کہ فلسفہ کی تعلیم اس نے ابو زیداسمعیل احمد بلخی سے بغداد میں حاصل کی۔ یہ روایت بھی کچھ اس لئے درست نہیں معلوم ہوتی کہ بلخی کی وفات ۳۵۰ھ میں ہوئی ہے۔ جبکہ رازی اس سے بیس یا پچیس برس پہلے ۳۲۰ھ یا ۳۲۵ ھ میں فوت ہوا ہے۔

کم وبیش ۲۸۰ میں بغداد میں طب کی تعلیم کی تکمیل کے بعد رازی اپنے وطن رے واپس ہوا اور وہاں نہ صرف مطب کاسلسلہ جاری کیا، بلکہ بغداد کے طرز پر رے میں ایک بڑا بیمارستان بنایا۔ بیمارستان رے میں موجودہ زمانہ کے ہسپتالوں کی طرح اطباء کی مشاورتی ودرسی مجلسیں منعقد ہوتی تھیں۔ رازی ان کی صدارت کرتا تھا۔ درس وتدریس کے سلسلہ کے علاوہ مریضوں کاشروع میں اس کے ابتدائی درجہ کے شاگرد معائنہ اورتشخیص وتجویز کرتے۔ اگر تشخیص میں مشکل پیش آتی تو ان سے اوپر کے طلبہ سے رجوع کیا جاتا اور آخر میں خود رازی مریض کامعائنہ اور تشخیص مرض کرتا۔ اس طرح شاگردوں کی عملی وسریریاتی تربیت ہوتی اور انہیں فن کے تعلق سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا۔ ابن ندیم ،ابن  القفطی اور دوسرے مؤرخین نے اس انداز درس وافادہ کا ذکر کیا ہے۔

ابن ندیم ، ابن قفطی، ابن ابی اصیبعہ، ابو ریحان البیرونی، ابو الفرج ابن العربی کا یہ بیان بھی کہ باقلا اس کی پسندیدہ غذا تھی، اس کے کثر ت استعمال سے اس کی آنکھوں میںرطوبت اتر آئی تھی، درست نہیں معلوم ہوتا۔ باقلا کے کثرت استعمال سے کسی طرح آنکھوں میں رطوبت کا نزول نہیں ہوتا۔ واقعہ یہ ہے کہ جیسا کہ اکثرزیادہ عمر میں لوگوں کونزول الماء کی شکایت ہو جاتی ہے، اسی طرح رازی کوبھی اس کی شکایت ہوئی۔ ابو الفرج ابن العربی کی یہ روایت درست ہے کہ جس وقت کحال اس کی آنکھ کا قدح(آپریشن) کرنے آیا تورازی نے آنکھ کے طبقات کے بارے میں سوال کیا اور معقول جواب نہ ملنے پر اس نے اس اناڑی سرجن سے آنکھ کا آپریشن کرانے سے انکار کیا اور کہا کہ میں دنیا کو دیکھتے دیکھتے تھک گیا ہوں۔رازی شب وروز مطالعہ اور کتابوں کی تصنیف و تالیف میں مصروف رہا۔ اس کی وجہ سے اس کی عام صحت اور خاص طور پر اس کی آنکھوں کو بہت نقصان پہنچا، آخر میں نابینائی کا ایک سبب اسے بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔
ہندوستان میں جولوگ تاریخ طب پر اردو میں کا م کر رہے ہیں ، وہ محض ابن ندیم ،ابن قفطی، ابن ابی اصیبعہ یازیادہ سے زیادہ ابن جلجل اور قاضی صاعد اندلسی یاجن لوگوں نے شروع میں اب سے سو برس پہلے اردو میں طبی تاریخ سے متعلق کتابیں یامضامین لکھے ہیں، ان کی بنیاداور ان کے حوالے سے لکھنے پر اکتفا کرتے ہیں۔بلاشبہ ان کا تعلق تاریخ طب کے بنیادی ماخذ سے ہے،لیکن گذشتہ سو برس میں تاریخ طب سے متعلق جو نئے حقائق سامنے آئے ہیں، جن نئی معلومات کاانکشاف ہوا ہے، جواصل متون دریافت ہوئے ہیں، اوربہت سے مخطوطات شائع ہو کر منظر عام پر عام آئے ہیں، مخطوطات کی توضیحی فہرستوں کی اشاعت سے علم میں جوتازگی اور نکھار پیدا ہوا ہے، ان سب سے فائدہ اٹھائے بغیر محض قدیم مورخین کے بیانات پر اکتفا اور ان کی پیش کردہ معلومات کے حوالوں پر اصرار کے بجائے تاریخ طب پر جو بہت نیامواد مہیا ہوا ہے اور جو نئی کتابیں منصہ شہود پر آئی ہیں، ان کی روشنی میں از سر نو جائزہ اور مطالعہ ضروری ہے۔

راز ی کثیر التعداد کتابوں کا مصنف ہے۔ اس کی کتابیں طب کے علاوہ فلسفہ، کیمیا، ہیئت، نجوم ، ریاضی اور علوم طبیعی پر مشتمل ہیں۔ ابن ندیم نے ۱۶۷، ابن ابی اصیبعہ نے ۲۳۵، ابن القفطی نے ۱۳۷، البیرونی نے ۱۸۴ کتابیں بیان کی ہیں۔ البیرونی کی پیش کردہ فہرست میں ۵۶ کتابیں طب سے تعلق رکھتی ہیں۔ جب کہ طبیعیات پر ۳۳ اور کیمیا پر ۲۲ کتابیں ہیں۔ اس کی تصانیف کو مختلف موضوعات پرتقسیم کیا گیاہے۔ ان میں بیشتر کتابیں دست برد زمانہ کی نذر ہو گئیں ۔ طبی کتابوں میں رسالہ اطعمۃ المرضیٰ، رسالہ فصد، رسالہ قولنج، منصوری، الشکوک علی جالینوس، کتاب الفاخر، کتاب محنۃالطبیب، کتاب الرد علی الجاحظ فی نقض الطب، کتاب المرشد(کتاب الفصول)،التقسیم والتشجیر، الطب الملوکی، من لا یحضرہ الطبیب (طب الفقرا) کتاب الجدری والحصبہ، کتاب الحصی فی الکلی والمثانہ، کتاب القولنج، کتاب فی اوجاع النقرس، کتاب الابدال، کتاب الصیدلہ، المدخل الی الطب، کتاب الفروق بین الامراض، کتاب الکافی فی منافع الاعضاء، صفات البیمارستان میں سب سے اہم کتاب الحاوی ہے ۔
رازی کے اس کی تالیف میں کم از کم پندرہ برس صرف ہوئے، لیکن موت نے اسے اس کی تکمیل کاموقع نہیں دیا۔اور اس کتاب کو مرتب شکل دینے یا نظر ثانی سے وہ محروم رہا۔اسی لئے اسے کشکول یااردو اصطلاح میں غیر مرتب کتاب سمجھا گیا ہے۔ اس میں تکرار بھی بہت پائی جاتی ہے۔ رازی کے کوئی اولاد نہیں تھی۔ بیوی کا بھی اس کی زندگی میں انتقال ہو گیا تھا۔ ورثا میں صرف اس کو بہن تھی۔
رازی کی وفات کے بعد رکن الدولہ دیلمی کے علم دوست وزیر ابو الفضل بن العمید(وفات ۳۵۹ھ) استاد صاحب بن عماد کے حکم سے الحاوی کے پراگندہ اور منتشر اوراق کو جمع کرنے کااہتمام کیا گیا۔ اس کو انجام دینے میں رازی کی ہمشیر اور اس کے تلامذہ کاتعاون حاصل رہا۔ ابن ابی اصیبعہ نے اسے مکمل شکل میں نہ دیکھنے کااعتراف کیا ہے۔ بعض مورخین نے اس کی تیس بعض نے بیس اور بعض نے ۱۸ جلدیں لکھی ہیں۔ اس کتاب میں رازی نے جس کثرت سے یونانی کتابوں و مصنفین کے حوالے پیش کئے ہیں، اس سے اس کے وسعت مطالعہ پر روشنی پڑتی ہے۔ اس کا اصل نام ’’الجامع الحاضر لصناعۃ الطب ہے۔ اس میں نظامہائے بدن کے امراض کے بکثرت نسخے تحریر ہیں۔
رازی کی دو کتابیں برء الساعۃ اور الحاوی ایسی ہیں جن کانام اس کے بعد میں رکھا گیا ہے۔ مگر فرق یہ ہے کہ برء الساعۃاس کی زندگی میں مکمل ہوگئی تھی اور الحاوی ناتمام رہی اور بعد میں دوسروں نے مرتب کی۔کتاب الحاوی طب کی عظیم ترین اور اہم ترین کتاب ہے ۔ اس میں امراض اور علاج کے تعلق سے اس وقت تک کی متفرق طبی معلومات کو یکجا کیا گیا ہے۔ اور قدیم طبی متون اور اطبا کے اقوال کے حوالے پیش کئے گئے ہیں۔ اس کاشمار طبی دائرۃ المعارف کے طور پر کیا گیا ہے۔
صقلیہ(Sicile)کے بادشاہCharles of Anjau کی فرمائش پر ۱۲۷۹  ء میں فرج بن سالم (Farrangut)نے اس کا Continensکے نام سے لاطینی ترجمہ کیا۔ یہ پہلا لاطینی ترجمہ شمالی اٹلی کے شہر برسیا (Brescia)میں ۱۴۸۶ء میں چھپا تھا۔ اٹلی ہی سے ۱۵۰۵، ۱۵۰۶، ۱۵۰۹ اور ۱۵۴۲ء میں اس کی مزید اشاعتیںنکلیں۔مشہور مترجم جیراڈ آف کریمونا (Gerard of Cremone) نے بھی اس کی بعض جلدوں کالاطینی میں ترجمہ کیا ہے۔یہ ان ۹ کتابوں میں ہے جن سے ۱۳۹۵ء میں پیرس میڈیکل لائبریری کی تشکیل عمل میں آئی۔ حاوی کا مکمل نسخہ کتب خانہ اسکوریا ل (El Escurial)  اسپینکے میں موجودہے۔راقم سطور اسپین کے سفر میں اس کی زیارت کا موقع ملا ہے۔ اس کی اور چند دیگر نسخوں کی روشنی میں دائرۃ المعارف العثمانیہ، حیدر آباد سے ۲۳ جلدوں میں اس کے اصل متن کی اشاعت ہوئی ہے۔

اس کی ضخامت کے پیش نظر مشہور فلسفی و طبیب ابن باجہ نے اس کی تلخیص کی ہے ۔ یہ تلخیص کمیاب ہے۔ اور ابن باجہ کے طبی کاموں میں اہمیت کی حامل ہے۔ ابھی تک اس کا انگریزی ترجمہ نہیں ہوا ہے۔اس کی نویں جلد امراض نسواں سے متعلق ہے۔ امراض نسوں پر طبی ذخیرہ میں زیادہ کتابیں دستیاب نہیں ہیں۔ یہ جلد اس پر ایک مستقل کتاب کی حیثیت سے رکھتی ہے ۔
مرکزی وزارت اقلیتی بہبود، حکومت ہند نے (ہماری دھروہر) کے نام سے ایک اسکیم شروع کیا ہے جس کے تحت دائرۃ المعارف العثمانیہ  سے مطبوعہ سبھی عربی کتابوں کا  انگریزی ترجمہ کرنے کا منصوبہ ہے۔ الحاوی کے علاوہ  دائرۃ المعارف سے طب کی  اہم چار اور کتابیں طبع ہوئی ہیں وہ ہیں : ۱۔کتاب العمدۃ  فی الجراحۃ ابن القف، ۲۔کتاب المختارات ابن ھبل، ۳۔ تذکرۃ الکحالین علی ابن عیسی کحال، ۴۔تنقیح المناظر للفارسی۔ دائرۃ المعارف کی طرف سے ان سبھی کتابوں کا انگریزی ترجمہ کرنے کا ارادہ ہے ۔اور یہ بلا شبہ طب یونانی کے لئے ایک بہت بڑا کام ہو گا۔
مجھے خوشی ہے کہ دائرۃ المعارف العثمانیہ، حیدر آباد نے اس کے انگریزی ترجمہ کی ضرورت کو محسوس کیا اور اس کے لئے ڈاکٹر اشفاق احمد کی قیادت میںمترجمین کی ایک ٹیم کاانتخاب کیا۔ ڈاکٹر اشفاق احمد عربی، انگریزی اور اردو میں مہارت رکھتے ہیں، طب یونانی کے فاضل ہیں۔ تاریخ طب میں انہیں درجہ اختصاص حاصل ہے۔ ان سے زیادہ کوئی دوسرا اس کام کے لئے موزوں نہیں ہو سکتا تھا۔ اس ٹیم نے کما ل ذمہ داری کے ساتھ اس کے ترجمہ کے فرائض انجام دئے ہیں۔ اس ترجمہ کے لئے مرکزی وزارت اقلیتی بہبود، حکومت ہند ، دائرۃ المعارف العثمانیہ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر مہ جبین اختراور ڈاکٹر اشفاق احمد اور پوری ٹیم علمی دنیا کے شکریہ کے مستحق ہیں۔