کانگریس 2019 یا 2024 کے انتخابات لڑرہی ہے

برکھا دت

کیا کانگریس 2019 انتخابات کی بجائے 2024 میں اقتدار حاصل کرنے کا منصوبہ بناچکی ہے کیونکہ کانگریس کی انتخابات کے لئے جو حکمت عملی دکھائی دے رہی ہے وہ واضح نہیں ہے کہ ہندوستان کی قدیم جماعت اس سال اقتدار میں آنا چاہتی ہے یا پھر 2024 میں نریندر مودی کو شکست دینے کی خواہاں ہے۔ کیا راہول گاندھی اور ان کی بہن پرینکا گاندھی نے اندازہ لگا لیا ہے کہ مودی کی اقتدار میں واپسی کے امکانات ان کی کانگریس کے حکومت بنانے سے زیادہ ہے جس کے تحت وہ اقتدار حاصل کرنے کی بجائے اپنی جماعت کو مستحکم کرنے کے خواہاں ہیں۔ حالیہ دنوں میں کانگریس نے عام آدمی پارٹی کے ساتھ اتحاد کے امکانات کو جس انداز میں ختم کیا ہے اس کے علاوہ بہار اور جھارکھنڈ میں ہم خیال جماعتوں سے بھی جس طرح اس نے طرز رسائی اختیار کی ہے اس نے بھی کئی ایک سوال کھڑے کردیئے ہیں۔ کیا کانگریس سمجھتی ہے کہ وہ اپنے بل بوتے پر 100 نشستوں کی کامیابی حاصل کرتے ہوئے نفسیاتی طور پر اس اہم ہندسے کو عبور کرے گی۔ اترپردیش، راجستھان، گجرات، مدھیہ پردیش، کرناٹک، مہاراشٹرا اور پنجاب کانگریس کو امید ہے کہ وہ 100 سے زائد نشستیں حاصل کرلے گی۔ غیر بی جے پی اور غیر کانگریس جماعتوں کے درمیان بھی یہ پیش قیاسیاں کی جارہی ہیں کہ شاید کانگریس نے 2019 کے بعد کے لئے اپنے مقاصد طے کرلئے ہیں۔ جیسا کہ عام آدمی پارٹی کے صدر اروند کجریوال نے اپنے ایک بیان میں کہہ دیا ہے کہ کانگریس اور بی جے پی نے ایک خفیہ معاہدہ کرلیا ہے جس کے تحت اقتدار کی میعاد دونوں نے تقسیم کرلی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کانگریس یہ واضح کرنے کے موقف میں دکھائی نہیں دیتی ہے کہ آخر وہ ہریانہ میں 10 اور دہلی میں 7 نشستوں پر عاپ کے ساتھ اتحاد نہیں کرنا چاہتی ہے۔ کانگریس میں کئی ایسے قائدین ہیں جو کہ راہول گاندھی کو اس بات پر منانے کے کوشاں ہیں کہ وہ کجریوال کے ساتھ اتحاد کرلیں حالانکہ ان کی کوشش 2018 میں راجیہ سبھا کے ڈپٹی چیرمین کے انتخابات کے وقت سے ہے اور حالیہ دنوں میں شردپوار کی رہائش گاہ پر جب دونوں قائدین دوبدو ہوئے تھے تو بھی گاندھی نے اس موقع پر کجریوال کے ساتھ اپنے اتحاد کی تمام پیش قیاسیوں کو مسترد کردیا ہے حالانکہ گاندھی کو خود ان کی جماعت عام آدمی پارٹی کے ساتھ اتحاد کے لئے مسلسل منانے کی کوشش کررہی ہے۔

جہاں راہول گاندھی عام آدمی پارٹی کے ساتھ اتحاد نہیں کررہے ہیں وہیں کانگریس کے حامی اس کی وجہ بتانے کی کوشش کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ کجریوال نے آر ایس ایس اراکین کے ساتھ مخالف بدعنوانی مہم شروع کی تھی تو اس وقت انہوں نے راجیو گاندھی سے بھی بھارت رتن ایوارڈ واپس لینے کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ ایسا مطالبہ تھا جس کی ہمت بی جے پی بھی نہیں کرپائی تھی۔ کانگریس کی جانب سے ایک اور حکمت عملی بھی سوالیہ نشان کے دائرہ میں ہے کہ جہاں ایک جانب بی جے پی قومیت اور حب الوطنی کا پورا موضوع اپنے قبضہ میں کرچکی ہے لیکن کانگریس کی جانب سے ایسے کوئی بیانات سامنے نہیں آرہے ہیں۔ کانگریس کی جانب سے صرف مودی کو نشانہ بنانے اور ان پر تنقید کرنے کے علاوہ کوئی دوسرے موضوعات کو اہمیت نہیں دی جارہی ہے۔ حالیہ دنوں میں سام پٹروڈا کا بیان بھی اہمیت کا حامل ہے جو انہوں نے پلوامہ اور بالاکوٹ کے موضوعات پر دیئے ہیں۔ کانگریس کی حکمت عملی ایک اور جھول پرینکا گاندھی سیاست میں آمد کا وقت بھی ہے۔ پرینکا گاندھی نے بھلے ہی اپنی پرکشش شخصیت کے بل بوتے پر حالیہ دنوں میں ہجوم اپنی جانب مبذول کروانے میں کامیاب ہوئی ہیں لیکن ان کی جو آمد ہوئی ہے وہ صحیح وقت پر نہیں ہوئی ہے۔ گنگا یاترا کے ذریعہ انہوں نے عوام میں مقبولیت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے لیکن کیا ہی بہتر ہوتا کہ انہیں 2019 انتخابات میں پارٹی کی کامیابی کے لئے کم از کم ایک سال پہلے متحرک کردیا جاتا۔ اب جبکہ پرینکا کی سیاست میں آمد ہوچکی ہے تو ان کے لئے حالات سخت ترین امتحان سے کم نہیں ہیں۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ اگر کانگریس کے پاس 2024 کا منصوبہ ہوتا تو وہ پرینکا گاندھی کو 2019 کے انتخابات کے بعد سیاسی میدان میں اتارتی۔