کانگریس کی غلطیوں پر کب تک روؤگے؟ خود سے کچھ تو اچھا کردکھاؤ!

عرفان جابری
کسی فرد کی زندگی ہو یا کوئی قوم یا سیاسی جماعت کا معاملہ ہو، ہر جگہ ماضی کے واقعات، حال اور مستقبل کو سنوارنے کیلئے سبق کا کام کرتے ہیں۔ اگر کوئی ماضی کے خراب تجربات یا غلطیوں پر صرف روتے اور سر پیٹتے بیٹھ جائے تو نہ اُس کا حال بہتر ہوگا اور نا ہی مستقبل اچھا ہونے کی امید کی جاسکتی ہے۔ 25 جون 1975ء تا 21 مارچ 1977ء تقریباً 21 ماہ کی مدت آزاد ہندوستان کی تاریخ میں عمومی طور پر تلخی کے ساتھ یاد کی جاتی ہے، کیونکہ یہ وہ دَور رہا جب کانگریسی وزیراعظم اندرا گاندھی نے سارے ملک میں ’ایمرجنسی‘ نافذ کر رکھی تھی۔ آگے بڑھنے سے قبل کچھ ’ایمرجنسی کی حالت‘ کے بارے میں جان لیتے ہیں۔ ہندوستان میں یہ ایسی حکمرانی کا دَور ہوتا ہے جو کچھ تبدیل شدہ دستوری ڈھانچہ کے تحت چلائی جاتی ہے، جس کا اعلان صدرجمہوریہ ہند قوم کو داخلی اور بیرونی ذرائع سے یا بحران کے اقتصادی حالات محسوس ہونے پر کرسکتا ہے۔ مرکزی مجلس وزراء کے مشورہ پر اور دستورِ ہند کے پارٹ XVII کے تحت حاصل اپنے اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے صدرجمہوریہ دستور کی ایسی کئی دفعات کو مسترد کرسکتا ہے جو ہندوستان کے شہریوں کو بنیادی حقوق کی ضمانت دیتے ہیں اور وفاق میں شامل ریاستوں کو اختیارات سونپتے ہیں۔

آزاد ہند کی تاریخ میں ایمرجنسی کے تین اَدوار گزرے ہیں۔ پہلی بار 26 اکٹوبر 1962ء تا 10 جنوری 1968ء ہند۔ چین جنگ کے دوران ایمرجنسی نافذ کی گئی تھی۔ دوسری مرتبہ 3 ڈسمبر 1971ء تا 21 مارچ 1977ء ہند۔پاک جنگ کے دوران ایمرجنسی کی حالت نافذ رہی۔ اسے ابتدائی طور پر ہند۔پاک جنگ کے دوران شروع کیا گیا اور اسی کی توسیعی مدت ہندوستان کی تیسری ایمرجنسی ثابت ہوئی، جس کیلئے سیاسی عدم استحکام کے متنازع حالات کو جواز کے طور پر پیش کیا گیا اور بتایا گیا کہ انڈیا کی سکیورٹی کو ’’داخلی گڑبڑ و انتشار سے خطرہ‘‘ لاحق ہے۔ ظاہر ہے متنازع وجوہات کو سارے اپوزیشن قائدین نے تاڑلیا اور قوم کو واقف کرایا۔ اسی کا نتیجہ ہوا کہ 1947ء میں ملی آزادی کے بعد سے پہلی بار مرکز میں غیرکانگریسی حکومت قائم ہوئی، یعنی اندرا گاندھی کابینہ کو اپنے اقدام کی سزا بھگتنی پڑی۔ مگر قوم کی سیاسی زندگی کا معاملہ اس طرح ختم نہیں ہوجاتا۔ ملک کے ذمہ دار شہریوں ؍ ووٹروں نے دیکھ لیا کہ مرار جی دیسائی اور چودھری چرن سنگھ دونوں کی حکومتیں ملک کو بمشکل 2 سال اور 10 ماہ کی حکمرانی فراہم کرپائیں۔ چنانچہ قوم کو مایوسی ہوئی اور اُس نے وہی اندرا گاندھی کو زبردست اکثریت سے پھر ایک بار اقتدار سونپ دیا جو 31 اکٹوبر 1984ء کو اُن کے قتل پر ختم ہوا۔

قارئین کرام! میں نے ہندوستان کی آخری ’معلنہ ‘ ایمرجنسی اور اس کے پس منظر کے بارے میں چند سطور سے آپ کو اس لئے واقف کرایا ہے کیونکہ اِن دنوں لگ بھگ ہر محاذ پر ناکام نریندر مودی حکومت اور اُن کی پارٹی (بی جے پی) کی حکمرانی والی ریاستیں 1975ء سے 1977ء کی تقریباً 21 ماہ والی ایمرجنسی کا رونا رو رہے ہیں، واویلا کررہے ہیں کہ اس سیاسی اقدام نے ملک میں جمہوریت کا گلا گھونٹ دیا گیا، یہ اندرا گاندھی کی تاریخی فاش غلطی ہوئی، وغیرہ۔ جہاں تک تاریخی غلطی یا فاش غلطی کا سوال ہے، کانگریس نے اور بھی کئی غلطیاں کئے ہیں، جیسے آزادی سے دہا 1990ء کے ابتدائی دَور تک مرکز اور ریاست دونوں جگہ کانگریس حکمرانی کے دوران ملک کے خطہ خطہ میں ہندو۔ مسلم فسادات پیش آنا؛ نس بندی کی مشکوک مہم؛ اندرا گاندھی کے قتل پر ملک بھر میں سکھ دشمن قتل عام کو روکنے میں حکومتوں کی بے عملی؛ شاہ بانو کیس؛ شیلا نیاس؛ رام رتھ یاترا کی اجازت دینے کے بعد بابری مسجد کی شہادت پر مرکز کا خاموش تماشائی رہنا، وغیرہ۔ لیکن ایسی غلطیوں سے قوموں کا آگے بڑھنا نہیں رُک جاتا۔ چنانچہ کانگریس کی ہر سنگین غلطی کا ووٹروں کی شکل میں قوم نے (بیالٹ پیپرز کے ذریعے) جواب دیا اور خاطی حکمران پارٹی کو سبق سکھایا۔ پھر جب جب دیکھنے میں آیا کہ کانگریس کے متبادل گوشے ہندوستان کے دستوری ڈھانچے کے مطابق ملک کو یک جٹ رکھتے ہوئے اور تمام طبقات کو ساتھ لیکر آگے بڑھنے والی حکمرانی پوری پانچ سالہ میعاد تک فراہم کرنے میں ناکام ہورہے ہیں ، تب تب کانگریس دوبارہ برسراقتدار آتی گئی ہے۔ 1977ء میں اندرا گاندھی حکومت کی شکست سے لیکر 2014ء میں یو پی اے ۔II کی ناکامی تک پورا ماضی اسی انتخابی رجحان کا شاہد ہے۔

تاہم، مودی حکومت، برسراقتدار بی جے پی، اور اُس کی سرپرست آر ایس ایس نے شاید تاریخ کے اِس پہلو پر نظر نہیں ڈالی ہے۔ وہ یہ بھی فراموش کرگئے ہیں کہ کوئی بھی غیرکانگریس حکومت مرکز میں پورے 5 سال کی بھرپور میعاد تک حکمرانی ابھی تک نہیں کرپائی ہے۔ دراصل مودی حکومت 8 نومبر 2016ء کو ’نوٹ بندی‘ کی فاش اقتصادی غلطی کے بعد سے قوم کو کسی نہ کسی طرح نقصان پہنچانے والے اقدامات ہی کئے جارہی ہے۔ وزیراعظم کے فضول بیرونی دوروں اور بلند بانگ جھوٹے دعوؤں میں موجودہ بی جے پی زیرقیادت این ڈی اے حکومت کے قیمتی چار سال یوں ہی گزر چکے ہیں۔ ماقبل چناؤ ڈھیر سارے وعدے کردیئے گئے لیکن شاید ہی کوئی وعدہ وفا ہوپایا ہے۔ چنانچہ اب اگلے جنرل الیکشن سے قبل آخری سال میں قوم کے سامنے دِکھانے کیلئے کوئی مثبت کارنامہ نہیں ہے، اس لئے اپوزیشن پارٹی کے ماضی کے بعض غلط اقدامات کی یاد کا جب بھی موقع آتا ہے بس پرانا راگ الاپنے لگ جاتے ہیں۔ کیا جاپان نے دوسری جنگ عظیم کے دوران دہا 1940ء کے اوائل میں اپنے ہیروشیما اور ناگاساکی شہروں پر امریکہ کے تباہ کن و اذیت ناک ایٹم بم حملوں کے بعد اسی طرح کا واویلا کیا ، جیسے اب مودی حکومت کے دور میں 43 سال قبل کی ’ایمرجنسی‘ کے معاملے میں کیا جارہا ہے؟ کانگریس کی کارگزاری کیا اتنی محدود اور ناقص ہے جو اوپر مذکورہ غلط اقدامات کا ہی احاطہ کرتی ہے۔ آزادی کے تقریباً 71 سال میں کانگریس کے 6 وزرائے اعظم ہوئے اور 55 سال سے زائد حکمرانی کئے، جس کے برخلاف 8 غیرکانگریسی وزرائے اعظم کی مجموعی حکمرانی زائد از 15 سال رہی ہے۔ یہ اعداد و شمار اپنے آپ میں ثبوت ہیں کہ قوم نے کانگریس پر اُس کی تمام تر غلطیوں کے باوجود جملہ مدت کے تقریباً 80 فیصد حصے تک بھروسہ کیا ہے۔ 15 اگست 1947ء کو پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کو حکمرانی کی باگ ڈور ہندوستان کی کس شکل میں حاصل ہوئی اور 1977ء سے مختصر وقفے اور پھر 2014ء تک کئی مختصر وقفوں کے ساتھ کانگریس کی بالخصوص مرکز میں حکمرانی میں ہندوستان کن کن شعبوں میں ترقی کرتے ہوئے ایشیا کے چند طاقتور ممالک میں گنا جانے والا انڈیا بنا ہے، اس کی تفصیل بتانے کی میرے خیال میں یہاں حاجت نہیں ہے۔ یہ تاریخی تفصیل باشعور شہری ؍ رائے دہندے بخوبی جانتے ہیں۔

1975ء والی ایمرجنسی کے دَور میں میری پرائمری اسکول کی تعلیم چل رہی تھی؛ اب مجھے یا میری اولاد کو اپنا حال اور مستقبل سنوارنے کیلئے 43 سال قبل کے سیاسی اقدام پر سینہ پیٹنے کی ہرگز ضرورت نہیں۔ مجھے اور نئی نسل کو حکومت ِ وقت سے مطلب ہے کہ وہ ہمارے حال اور مستقبل کیلئے کیا کررہی ہے؟ لہٰذا، اب مودی حکومت اور بی جے پی کیلئے آخری وقت ہے کہ لفاظی اور جملے بازی کو ترک کرتے ہوئے قوم کے مفاد میں ٹھوس اقدامات پر توجہ مرکوز کرے، ورنہ اس حکومت کا حشر وہی ہوگا جو یو پی اے۔ II کا ہوا ہے! 2014ء کے انتخابی وعدوں میں نوٹ بندی، جی ایس ٹی، کیاش لیس اکنامی، گو ٔ کشی پر امتناع، اظہار خیال پر غیرمعلنہ پابندی، وزیراعظم کے فضول بیرونی دوروں جیسی باتیں ہوئیں اور نا ہی ملک کو اس کی ضرورت رہی ہے؛ لیکن ان تبدیلیوں نے اب انڈیا کی بُری درگت بنا ڈالی ہے۔ بیروزگاری بڑھتی جارہی ہے، اقلیتوں میں خوف کا احساس پایا جاتا ہے، مہنگائی آسمان چھورہی ہے، ایندھن کے ذریعے عوام کو لوٹا جارہا ہے؛ نہ ملک میں پُرامن بقائے باہم کا ماحول ہے ، اور نا ہی بیرونی حالات ہند کیلئے حوصلہ بخش ہیں۔ کسی بھی پڑوسی کے ساتھ ہندوستان کے روابط گرمجوشانہ نہیں رہے ہیں! امریکہ، یو کے، روس جیسی بڑی طاقتیں عملاً ہندوستان کو مسترد کرچکی ہیں۔ وہ اپنے مطالبات ہم سے منوا لیتے ہیں لیکن ہم نہ H1-B ویزا معاملے میں امریکی نظم و نسق پر اثرانداز ہوپاتے ہیں، نہ اقوام متحدہ میں روس کی مدد سے نیشنل سکیورٹی سے متعلق اپنی تجاویز منوا پاتے ہیں، نا ہی برطانیہ میں مقیم ہمارے بگھوڑے مودیوں یا شراب کے بڑے تاجر مالیا کو وطن واپس لاپارہے ہیں کہ اُن کو قانون کے کٹھہرے میں کھڑا کیا جاسکے۔ شاید یہی حالات کی مختصراً تشریح میں ایک قومی لیڈر نے خوب کہا ہے کہ مودی حکومت نے ملک میں ’غیرمعلنہ ایمرجنسی‘ نافذ کررکھی ہے، جسے ختم کرنا ہوگا!!!
irfanjabri.siasatdaily@yahoo.com