کانگریس کیلئے 89 جیسے حالات

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
عوام کے منیڈیٹ کو عزت نہ دینے کا نتیجہ حکمراں پارٹی تلنگانہ راشٹرا سمیتی کے لیے صدمہ خیز ہو تو سیاسی حالات کروٹ بدلیں گے ۔ اس وقت تلنگانہ میں جو سیاسی حالات ہیں اس میں چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کے لیے کئی خطرات بھی امڈ چکے ہیں ۔ کیوں کہ انہوں نے اول تو عوام کو ایک وفاقی محاذ بتاتے ہوئے تلنگانہ اور مرکز میں مستحکم حکومت لانے سے متعلق اپنے عزائم سے واقف کروایا پھر اس خصوص میں چند علاقائی پارٹیوں کے قائدین سے ملاقات بھی کی کچھ دنوں میں ان کا وفاقی محاذ کا جذبہ سرد پڑ گیا اور انہیں مرکز میں نریندر مودی کے ساتھ خوشگوار کیفیت میں دیکھا گیا ۔ یہ قیاس آرائیاں ختم ہوگئیں کہ غیر بی جے پی غیر کانگریس کا وفاقی محاذ نہیں بن رہا ہے بلکہ کے سی آر کا بی جے پی کی جانب جھکاؤ بڑھ گیا ۔ اس بات کی توثیق ان کے فرزند کے ٹی راما راؤ کی بھی نریندر مودی سے ملاقات سے کی جانے لگی ۔ غیر بی جے پی ، غیر کانگریس پارٹیوں سے اتحاد کا دم بھرنے والے چیف منسٹر نے یکایک غیر سیکولر غیر جمہوری لوگوں کے ساتھ ساز باز کرنا شروع کیا ۔ اس میں نہ تو کوئی قومی مفادات کا اور نہ ہی ملک کے استحکام کے ساتھ تلنگانہ عوام کے منیڈیٹ کا احترام ملحوظ رکھا گیا ۔ اگر کے سی آر نے واقعی بی جے پی سے ہاتھ ملا لیا تو اس کا درد تلنگانہ کے عوام کے دلوں میں کانٹا بن کر ایسا پھنسے گا کہ ٹی آر ایس کو بھی مزہ چکھنا پڑے گا ۔ تلنگانہ کے سیاسی حالات کروٹ بدل رہے ہیں۔ بلامبالغہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ تشکیل تلنگانہ کے بعد سے اس ریاست کی بدخواہی کرنے والوں کو ہی حکومت میں مواقع دئیے گئے ہیں ۔ کے سی آر نے تلنگانہ بننے کے بعد دوسری پارٹیوں کو چھوڑ کر ٹی آر ایس میں شامل ہونے والوں کی زبردست پذیرائی کی ۔ انہوں نے دانستہ یا نادانستہ طور پر ایسے لیڈروں کو گلے لگا کر اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے معیارات کی آڑ میں اپوزیشن کو کمزور کرنے کی کوشش کی اور مفاد پرستوں کو اوج سیاست پر پہونچایا ۔ اب یہی قائدین ٹی آر ایس میں رہ کر اس کے خلاف سرگرم ہوگئے ہیں ۔ شاید یہ لوگ اب ٹی آر ایس کو ڈوبتی کشتی سمجھنے لگے ہیں اس لیے اپنی سابق پارٹیوں میں واپس آکر بہر حال اقتدار کا خواب پورا کرنا چاہتے ہیں ۔ بی جے پی سے قربت کے باعث بھی ٹی آر ایس کے خلاف رائے قائم کرنے میں مدد مل رہی ہے ۔ خاص کر 15 جون کو وزیراعظم نریندر مودی سے کے سی آر کی ملاقات اور ٹھیک دو ہفتوں بعد کے ٹی راما راؤ کی وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد ہی کے سی آر نے اعلان کیا کہ وہ عاجلانہ انتخابات کے لیے تیار ہیں ۔ تلنگانہ میں اپریل ۔ مئی 2019 میں اسمبلی اور عام انتخابات ہونے والے ہیں لیکن کے سی آر نے اچانک ریاست میں عاجلانہ انتخابات کا سامنا کرنے کے جذبہ کا اظہار کیا تو یہ مرکز سے ہاتھ ملا لینے کا اثر ہوسکتا ہے ۔ بی جے پی بھی عاجلانہ انتخابات چاہتی ہے ۔ مدھیہ پردیش ، راجستھان ، چھتیس گڑھ اور میزورم میں اس سال دسمبر میں ریاستی انتخابات ہونے والے ہیں ۔ اسی مناسبت سے مرکز کی مودی حکومت بھی بہ یک وقت انتخابات کروانا چاہتی ہے ۔ تلنگانہ اسمبلی میں اس وقت 119 رکنی ایوان میں ٹی آر ایس کے 63 ، کانگریس کے 21 ، تلگو دیشم کے 15 ، مجلس کے 7 ، بی جے پی 5 اور دیگر 8 ارکان ہیں ، لیکن ووٹ حاصل کرنے کے فیصد میں ٹی آر ایس کو 34.3 فیصد ووٹ ملے ہیں ۔

کانگریس کو 25.2 فیصد ، تلگو دیشم کو 14.7 فیصد ، مجلس 3.8 فیصد ، بی جے پی 7.1 اور دیگر کو 14.9 فیصد ووٹ ملے ہیں ۔ لوک سبھا میں ٹی آر ایس کے 11 ارکان پارلیمنٹ ہیں ۔ کانگریس 2 ، تلگو دیشم ایک ، بی جے پی ایک دیگر 2 ارکان پارلیمنٹ ہیں ۔ کانگریس کو حاصل ہونے والے ووٹ فیصد کے اعتبار سے پارٹی کو یقین ہے کہ وہ 2019 کے انتخابات میں اپنا ووٹ فیصد دوگنا کرنے میں کامیاب ہوگی ۔ چونکہ ٹی آر ایس نے بی جے پی سے قریب ہو کر ریاست کی مسلم آبادی کو جو ریاست کی جملہ آبادی کا 13 فیصد ہیں بری طرح نظر انداز کردیا ہے ۔ 119 رکن تلنگانہ اسمبلی کے منجملہ 48 اسمبلی حلقوں میں مسلمانوں کے ووٹ فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں ۔ کانگریس کو جنوبی ہند میں اس سے قبل بھی سخت مقابلہ درپیش رہا ہے ۔ تلگو فلم اسٹار این ٹی راما راؤ نے کانگریس کا بری طرح صفایا کردیا تھا لیکن کانگریس نے بعد کے انتخابات میں این ٹی آر کے سحر کو توڑ کر اقتدار حاصل کیا تھا ۔ اب تاریخ خود کو دہرا سکتی ہے ۔ کے سی آر کو ملنے والے ہمدردی کے ووٹ اب ختم ہوچکے ہیں ۔ اس کا فائدہ کانگریس کو ملے گا ۔ کانگریس کو یہ بھی توقع ہے کہ کے سی آر کے کٹر حریف پروفیسر کودنڈا رام کی پارٹی تلنگانہ جنا سمیتی اس سے ہاتھ ملا کر ٹی آر ایس کو سخت مقابلہ دے گی لیکن ٹی جے ایس اب تک اپنی شناخت بنانے میں ہی ناکام ہے ۔ اس طرح کی پارٹیاں انتخابات کے وقت اتفاق سے مضبوط ہوجاتی ہیں تو وہ ہوا کے رخ کے مطابق قبل از وقت ہی اپنا موقف بدل لیتے ہیں ۔ عرف عام میں ایسی پارٹیوں کو ’ لوٹا ‘ کہتے ہیں ۔ لوٹا نوعیت کی دیگر پارٹیاں بھی ہیں جو اقتدار پر آنے والی پارٹی کی مدح سرائی کرتی ہیں ۔ اپنا قبلہ بدل لینے میں مشہور مقامی جماعت بھی انتخابات کے بعد تھالی کا بیگن ثابت ہوتی ہے ۔ اس کے بعد اس جماعت کے حصہ میں مغلائی طعام کی فرحت بخش مہک مہیا کی جاتی ہے ۔ مغلائی طعام لینے کے بعد شہر حیدرآباد کے تمدن کے پیمانے بدل کر ٹی وی پر ہر ضروری و غیر ضروری بحث کا حصہ بن جاتے ہیں اور انہیں ووٹ دینے والے یہ کہہ کر دل کو مطمئن کرلیتے ہیں کہ نمک کا کنکر ہے یارو چپ ہوجاؤ ۔ ہماری بقا اس ایک نمک کے کنکر کی مرہون منت ہے ۔ ساری دنیا ترقی کے میدان میں گلوبل ویلیج بن گئی مگر مقامی جماعت کو ووٹ دینے والوں کو اس گلوبل ویلیج کے فوائد سے ہی محروم رکھا گیا ۔ اس حقیقت کے باوجود یہ لوگ اس مصنوعی قیادت کو آزماتے رہتے ہیں ۔
kbaig92@gmail.com