کانگریس میں انضمام : آئی ایم سوری!

اے پی ڈائری خیراللہ بیگ

تلنگانہ کی یوم تاسیس 2 جون کو مقرر کی گئی ہے ۔ کانگریس نے تلنگانہ تشکیل دینے کا وعدہ پورا کرکے تلنگانہ راشٹرا سمیتی کو ضم کرنے کے لئے زور دیا لیکن چندر شیکھر راؤ نے شرمندگی اور ندامت بھرے لہجے میں جھکی نظروں کے ساتھ آئی ایم سوری کہنے کے بجائے صاف بہ بانگ دہل سینہ ٹھوک کر کہہ دیا کہ ٹی آر ایس ہرگز ضم نہیں ہوگی ۔ تلنگانہ عوام کے آشیرواد سے شروع ہونے والی تلنگانہ تحریک کامیاب ہوچکی ہے تو اس تحریک کی جڑوں کو پانی دے کر کانگریس کے ساتھ دیگر کئی پارٹیاں اپنا سیاسی حصہ حاصل کرنے کے منصوبے بنارہی ہیں ۔ تلگو دیشم نے اپنے جلسوں کے ذریعہ پارٹی کی عوامی مقبولیت کا ثبوت دینا شروع کیا ہے تو وائی ایس آر کانگریس سربراہ جگن موہن ریڈی بھی تلنگانہ میں لاکھ مخالفت کے باوجود جلسہ اور یاترا نکال کر عوام کی بڑی تعداد کو اپنی جانب متوجہ کررہے ہیں ۔ تلنگانہ کے عوام کا مزاج ہمیشہ دوستانہ رہا ہے وہ ہر پارٹی اور ہرلیڈر کو عزیز رکھتے ہیں ۔ لیکن جب فیصلہ سازی کا وقت آتا ہے تو ان کا ووٹ تلنگانہ کی پہلی حکومت کے لئے حیران کن ثابت ہوگا ۔

تلنگانہ کے حصول میں کامیاب ٹی آر ایس کو پورا یقین ہے کہ عوام اسے ہی ووٹ دیں گے لیکن کانگریس قائدین آسانی سے یہ بات ہضم نہیں کریں گے ۔ الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کے ساتھ ریاستی اسمبلی کے لئے بھی انتخابات کی تاریخ کا اعلان کردیا ہے تو اب تلنگانہ اور سیما آندھرا میں سیاسی سرکس لگ جائے گا جہاں انتخابی مہم کے نام پر ہر روز ایک نیا تماشا سامنے آئے گا ۔ عوام اپنے اطراف بداعتمادی کی دیواروں کو کھڑا دیکھ کر اس میں محصور ہوجائیں گے یا اپنے ووٹ کی طاقت کو زبردست ہتھیار بنا کر ان بداعتمادی کی دیواروں کو گرادیں گے ۔ علاقہ تلنگانہ کا پہلے ہی سے عدم استحکام کا شکار سیاسی ماحول عوامی ووٹوں سے مستحکم ہوتا ہے تو پھر ایک اچھی حکومت آنے کی توقع کی جاسکتی ہے ورنہ نئی ریاست کو معلق حکمرانی نصیب ہوجائے تو پھر سیاسی عدم استحکام برقرار رہے گا ۔ یہ امر تو سات پردوں میں چھپا ہے کہ بی جے پی اور ٹی آر ایس کا خفیہ اتحاد ہوتا ہے تو یہ دونوں اپنی مطلب کی بات نکلوانے کے لئے تلنگانہ کے سیکولر رائے دہندہ کو فرقہ پرستی کا کونسا سبق پڑھائیں گے ۔ فرقہ پرستوں کو اپنی انا کی کلغی اٹھائے ووٹ حاصل کرتے ہوئے دیکھا جائے گا ۔ تلنگانہ بنانے کے ساتھ مرکز نے کئی تنازعہ بھی پیدا کئے ہیں آندھرا پردیش ری آرگنائزیشن ایکٹ 2014 کے اہم دفعات میں سے ایک دفعہ آنے والے دنوں میں زبردست تنازعہ پیدا کرسکتی ہے ۔

اس ایکٹ کی شق 95 پارٹ XI کے تحت اعلی تعلیم میں داخلوں کے لئے دونوں علاقوں تلنگانہ اور سیما آندھرا کے طلبہ کو یکساں مواقع دینے کو یقینی بنانے کا حکم دیا گیا ہے ۔ تمام سرکاری یا خانگی امدادی یا غیر امدادی اعلی تعلیمی ادارں ، ٹکنیکل اور میڈیکل تعلیم میں داخلہ کا موجودہ کوٹہ ہی آئندہ دس سال تک برقرار رہے تو پھر تلنگانہ حاصل کرنے یہاں کے طلبا کی جد وجہد رائیگاں ہوجائے گی ۔ تلنگانہ کے حصول کے لئے سب سے زیادہ قربانیاں طلباء نے ہی دی ہیں مگر جن طلبا نے اپنی جان کی قربانی دی ان کے ساتھی طلباء کو اعلی تعلیم میں کوئی حصہ نہیں ملے گا ۔ تلنگانہ سے فائدہ صرف سیاستدانوں کو ہوگا ۔ سب کے لئے یکساں مواقع کی سہولت اب تک آرٹیکل 371D کے تحت فراہم کی گئی ہے ۔ اب نئے تلنگانہ میں بھی یہی آرٹیکل برقرار رہے تو پھر تلنگانہ کے طلبا کے ساتھ اعلی تعلیم انجینئرنگ ، میڈیکل میں حق تلفی ہوگی ۔ سیما آندھرا کے طلبا کو فائدہ ہوگا ۔ پھر ایک بار مسلم طلباء بھی ڈاکٹر اور اچھے انجینئر بننے سے پیچھے رہ جائیں گے کیوں کہ ان کو حاصل ہونے والی سیٹ سیما آندھرا کے طلبا کو مل جائے گی ۔ تلنگانہ کے لیڈروں نے جس ریاست کے لئے جد وجہد کی اس میں علاقائی طلبا کو تو انگوٹھا دکھایا جارہا ہے ۔

لیڈروں کو ان کی کرسی مل جائے گی او ریہ لوگ اپنے طلبا کے ساتھ ہونے والی حق تلفی کا کوئی نوٹ نہیں لیں گے ۔ پھر سے طلبا کو ہی سڑکوں پر آنا پڑے گا اور جد وجہد کرنی پڑے گی ۔ بہرحال مرکز کی حکومت نے ہر تنازعہ کی یکسوئی کے لئے ایک نئے تنازعہ کو جنم دیاہے ۔ تلنگانہ کے لئے ایک ہزار سے زائد طلبا نے اپنی قیمتی جانیں ضائع کی ہیں ۔ ان کی یہ قربانی ان کے ساتھی طلبا کے کام نہ آئے بلکہ سیاستدانوں کو فائدہ ہوجائے تو یہ صدمہ خیز واقعہ ہوگا ۔ تلنگانہ کے قیام تک نئی ریاست کی تیاری گورنر ای ایس ایل نرسمہن کی نگرانی میں ہوگی ۔ عام انتخابات بھی صدرراج کے تحت ہورہے ہیں تو دونوں علاقوں میں امن و امان کی برقرار گورنر کی اصل ترجیح ہوگی ۔ تلنگانہ میں نظم وضبط عائد کرنے کا وقت آگیا ہے ۔ ایک ایسا علاقہ جہاں کی سیاسی پارٹیاں اپنے علاقہ اور عوام کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنی سیاسی پالیسیوں کو ترتیب دے کر فائدہ ہی فائدہ حاصل کریں گی ۔ بہرحال نیک مقاصد کے لئے یہاں پر صدرراج ایک اچھی مثال نہیں ہے ۔ کانگریس کو دونوں ریاستوں میں نقصان ہوگا ۔

غیر منقسم آندھرا پردیش میں کانگریس کو 42 لوک سبھا حلقوں میں سے بمشکل 6 تا 12 نشستیں ملیں گی تو اسے تلنگانہ بنانے کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی ۔ کیونکہ قومی پارٹی کی حیثیت سے کانگریس نے علاقائی جذبات سے کھلواڑ کرنے میں اندھا دھند مظاہرہ کیا ہے ۔ کیوں کہ حیدرآباد کو 10 سال تک سیما آندھرا کا مشترکہ دارالحکومت بنا کر ان قائدین کو کھلی چھوٹ دیدی ہے کہ وہ ان 10 برسوں تک اپنی من مانی کرلیں ۔ فینانشیل طور پر حیدرآباد کو مضبوط شہر کا موقف حاصل ہے ۔ آنے والے دنوں میں سیما آندھرا اور تلنگانہ کا ہر لالچی لیڈر اس شہر کے مالیہ پر ہاتھ صاف کرنے کی کوشش کرے گا ۔ شہر حیدرآباد پر حق جتانے والے کئی قائدین ہیں ۔ حیدراباد کے میئر ماجد حسین نے بھی اونچی اڑان بھرنے استعفیٰ دیدیا ہے۔ ان میں سابق چیف منسٹر کرن کمار ریڈی بھی شامل ہیں جو آندھرا پردیش کی تقسیم کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع ہورہے ہیں ۔ اس طرح کے کئی قائدین آنے والے دنوں میں دن بہ دن دل آزاری کرتے رہیں گے ۔ تلنگانہ بن جانے کے بعد کیا حالات پیدا ہوں گے یہ نئی حکومت کے لئے آزمائش ہوگی ۔ اگر نئی حکومت نئی ریاست کے لئے بغیر کسی منصوبے بندی کے بے تحاشہ اقدامات کرے گی تو عوام تو پریشان ہوگی اور لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کرنے والے سیاستداں زبردست دھوم مچائیں گے ۔ کرپشن کلچر پرموٹ کس طرح ہوگا اسے نئے تلنگانہ میں دیکھا جاسکے گا ۔

تلنگانہ عوام کی آنکھیں نئی ریاست کی ترقی دیکھنے کی بجائے لیڈروں کی لوٹ کھسوٹ دیکھیں گی اور عوام کی آنکھیں دن بہ دن معیشت میں گرفتار ہوجائیں تو پھر دونوں آنکھیں روزانہ ایک منظر دیکھیں گی کہ ان کے منتخب لیڈر انھیں کس طرح دھوکہ دے رہے ہیں ۔ اس لئے لیڈروں کو منتحب کرنے سے پہلے عوام کو مستقبل کی سیاسی صورتحال کا اس سے اندازہ کرکے ووٹ دینا ہوگا ۔ تلنگانہ کے خلاف سپریم کورٹ میں سابق چیف منسٹر کی درخواست کے عدالتی نتائج کیا برآمد ہوں گے یہ چند دنوں میں واضح ہوجائے گا ۔ لیکن ٹی آر ایس نے کانگریس میں انضمام سے انکار کرکے کانگریس کو ناراض کردیا ہے تو یہ گماں پیدا کیاجارہا ہے کہ کانگریس تلنگانہ کے لئے گزٹ اعلامیہ کو روکنے کے لئے کوئی چال چلے گی ۔ کرن کمارریڈی کا سپریم کورٹ سے رجوع ہونا اور تلنگانہ کے قیام کی دستوری افادیت پر مقدمہ داخل کرنایہ سب کانگریس کی عقبی دروازے کی سازش ہے تو پھر کئی دستوری سوال اٹھیں گے ۔ دستور میں ترمیم کے بغیر تلنگانہ کے قیام کا سوال اٹھا کر سیما آندھرا کے قائدین کچھ نہ کچھ رخنہ اندازی ڈالنے کی کوشش کریں گے ۔ کے سی آر نے انضمام سے انکار کردیا ہے تو پھر کانگریس کے تعلق سے کئی شبہات پیدا ہوں گے ۔ تلنگانہ کے 29 ویں ریاست بن جانے کی تاریخ 2 جون ہے ۔ اس سے پہلے لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات ہورہے ہیں ۔ منتخب ارکان کا تعلق اپنے متعلقہ علاقوں سے ہوگا اگر تلنگانہ کے لئے سپریم کورٹ نے کوئی حکم التوا جاری کیا تو پھر منتخب ارکان متحدہ آندھرا کے ہی قائدین کہلائے جائیں گے یا یہ اپنے علاقہ کی نمائندگی کرتے ہوئے 2 جون کو تلنگانہ اور سیما آندھرا کا الگ الگ چیف منسٹر حلف لے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا ۔
kbaig92@gmail.com