کانگریس منشور پر بی جے پی کو برہمی کیوں؟

پی چدمبرم

کانگریس کی 54 صفحات پر مشتمل دستاویز نے ’’کبوتروں کے غول میں بلی کو چھوڑ دینے‘‘ کی کہاوت یاد دلائی ہے۔ یہ بات کہ بی جے پی کبوتروں کا جھنڈ ہے… 56 انچ کے سینہ والی شیخی کو بالائے طاق رکھئے… مرگی کے اُس دورے سے ثابت ہوگئی جس میں بی جے پی 2019ء لوک سبھا انتخابات کیلئے کانگریس پارٹی کے انتخابی منشور کی اجرائی کے بعد مبتلا ہوگئی۔ منشوروں کی عام طور پر طاق دان میں رکھے جانے کی مدت کم ہوتی ہے۔ کانگریس منشور 2 اپریل کو اپنی اجرائی کے اندرون چند منٹ شہ سرخیوں میں آگیا، لیکن ہر گزرتے گھنٹے کے ساتھ ایک نیا پہلو حاصل کرتا گیا۔ دن کے اختتام تک، اور بلاشبہ ختم 5 اپریل تک منشور کے کلیدی وعدے ہر شہر اور ٹاؤن اور دیہات تک بھی پہنچ گئے جو شہری علاقوں سے قریب ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ٹیلی ویژن اور انتخابی مہم چلانے والے مل کر ان کلیدی وعدوں کو اندرون چند یوم دیگر تک بھی پہنچا دیں گے۔ یہ پیام اس قدر طاقتور ہے کہ پیام رساں اسے آگے پہنچانے پر مجبور ہیں۔ کانگریس منشور 2019ء کے تعلق سے کیا مختلف ہے جس نے اسے چند گھنٹوں میں ٹاؤن (اور گاؤں) کا موضوع گفتگو بنا دیا؟ جواب یہ ہے کہ کانگریس منشور عوام کی آواز ہے۔ میں بھرپور اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ کانگریس منشور میں شامل ہر خیال یا وعدہ کسی ہندوستانی شہری کا تجویز کردہ ہے جو یا تو تحریری طور پر پیش کیا گیا یا پھر ملک بھر میں 174 مقامات پر مشاورتوں میں سے کسی جگہ تجویز کیا گیا۔ مسودہ سازوں نے بس ان خیالات کو اخذ کرتے ہوئے باقاعدہ زبان میں جملے تحریر کئے ہیں۔

بی جے پی الجھن میں مبتلا
عام طور پر برسراقتدار پارٹی کا منشور اپوزیشن پارٹیوں کی تنقیدوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ مجھے ماضی قریب میں ایسا کوئی موقع یاد نہیں جب اپوزیشن پارٹی کے منشور پر برسراقتدار پارٹی نے اس قدر شدید تنقید کی ہو۔ اس سے سوال پیدا ہوتا ہے، کیوں؟ بی جے پی کو کس بات نے برہم کیا ہے؟ میں سمجھ سکتا ہوں کہ چند باتوں نے ضرور بی جے پی کو متلاطم کیا ہے۔ اول، نوکریوں کا وعدہ۔ بیروزگاری 45 سال کی اونچی شرح 6.1 فی صد تک بڑھ چکی ہے۔ اس کے واضح اور فوری حل بھی رہے، لیکن واضح امکانات کو نظرانداز کرتے ہوئے مسٹر مودی نے سالانہ 2 کروڑ جابس پیدا کرنے کا وعدہ کیا۔ وہ وعدہ بی جے پی کو بار بار ستانے لگا۔ نوکریاں پیدا کرنے کے بجائے بی جے پی حکومت نے نوکریوں کو نوٹ بندی اور ناقص جی ایس ٹی کے ذریعے برباد کیا۔ این ایس ایس او کی آفیشل رپورٹ نوکریاں کھوجانے کی تعداد 4 کروڑ 70 لاکھ بتاتی ہے۔ کانگریس منشور نے بیروزگار نوجوانوں کی بڑی تعداد کو ملازمت دینے کے واضح طریقوں کی نشاندہی کی ہے۔ حکومت وغیرہ میں تمام مخلوعہ جائیدادوں پر بھرتی کرنے کا سادہ سا اقدام تقریباً 24 لاکھ نوجوانوں کو ملازمت دے گا۔

اس کے بعد کانگریس منشور کا زرعی شعبے کے تئیں جرأت مندانہ طرزعمل ہے۔ ایسے وقت جبکہ بی جے پی زرعی قرض معافی کے خیال کا مضحکہ اُڑا رہی ہے، کانگریس منشور نے اعلان کیا کہ دیرینہ زرعی قرضے معاف کردیئے جائیں گے۔ یہ نشاندہی کرتے ہوئے کہ بی جے پی نے دیوالیہ کمپنیوں کے قرضے معاف کردیئے (تاحال 84,585 کروڑ روپئے )، کانگریس نے زرعی قرض معافی کو حق بجانب ٹھہرایا۔ کانگریس منشور کے دو دیگر وعدوں نے کسانوں کی دلچسپی حاصل کی: علحدہ کسان بجٹ اور دیرینہ قرض کی واپس وصولی کی لازمی دیوانی ذمہ داری کو لاگو کرنے کیلئے کسانوں کے خلاف مزید کوئی فوجداری مقدمات نہیں ہوں گے۔ کانگریس منشور نے یہ وعدہ بھی کیا کہ مشہور اگریکلچرل اکسٹنشن سرویسز کو واپس لایا جائے گا، اگریکلچرل پروڈیوس مارکیٹس ایکٹ کو منسوخ کیا جائے گا، قانون اشیائے ضروریہ کو بدلا جائے گا، اور ملک کے ہر ضلع میں ایک کالج آف اگریکلچرل اور ایک کالج آف ویٹرنری سائنسیس قائم کیا جائے گا۔

کوئی پس و پیش نہیں
کانگریس منشور نے وہ مسائل سے نمٹنے میں کچھ پس و پیش نہیں کیا جو حساس نوعیت کے ہیں۔ خواتین کیلئے، اس نے ویمنس ریزرویشن بل کو منظوری دلانے اور حکومت کی تمام جائیدادوں میں ایک تہائی حصہ محفوظ رکھنے کا وعدہ کیا۔ ایس سیز، ایس ٹیز اور او بی سیز کیلئے، اس نے وعدہ کیا کہ کمیشن برائے مساوی مواقع ہوگا، زیادہ اثباتی کارروائی ہوگی اور اعلیٰ تعلیم کے خانگی اداروں میں ریزرویشن دیا جائے گا۔ کانگریس منشورمیں معمر شہریوں، لسانی اور مذہبی اقلیتوں، معذورین اور LGBTQIA+ کمیونٹی (خواجہ سرا اور دیگر) کیلئے بھی وعدے شامل ہیں۔ کانگریس منشور پڑھنے کے بعد ہر طبقہ کو شمولیت کا احساس ہوا۔
کانگریس منشور نے قومی سلامتی، داخلی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے مسائل سے نمٹا اور بی جے پی کو اس کی ناکام پالیسیوں اور کارروائیوں پر چیلنج کیا ہے۔ جب مسٹر جیٹلی نے سوالات اُٹھائے، کانگریس نے حقائق اور جوابی سوالات کے ذریعے جواب دیا۔ کیوں جموں و کشمیر میں دراندازی کی کوششوں کی تعداد، دراندازوں کی تعداد اور ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے؟ کیوں افسپا (AFSPA) کو تریپورہ سے 2015ء میں ، میگھالیہ سے 2018ء میں مکمل طور پر اور اروناچل پردیش کے تین اضلاع سے یکم اپریل 2019ء کو ہٹا لیا گیا؟ آیا بی جے پی جبری گمشدگی، جنسی تشدد اور زدوکوبی کی حمایت کررہی ہے؟ کیوں سیکشن 124A (غداری) جو سامراجی دور کی دفعہ ہے، ضروری ہے جبکہ پارلیمنٹ نے ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ اور قانون انسداد غیرقانونی سرگرمیاں بنائے ہیں؟ یہ واضح ہے کہ کانگریس نے کاٹ دار صلاحیتیں دوبارہ حاصل کرلی ہیں اور بی جے پی سے راست ٹکراؤ پر آمادہ ہے۔ میں مباحثہ کا خیرمقدم کرتا ہوں لیکن مجھے مایوسی ہوئی کہ وزیراعظم کی تقاریر روز بہ روز چیخنے چلانے تک محدود ہوتی جارہی ہیں۔

بی جے پی نے ابھی اپنا منشور جاری نہیں کیا ہے۔ پولنگ کا پہلا مرحلہ 11 اپریل کو مقرر ہے، یعنی اتوار سے بمشکل چار دن دور۔ مجھے شک ہے کہ بی جے پی اپنے مسودہ منشور پر عجلت میں نظرثانی کررہی ہے تاکہ کانگریس منشور کا توڑ کیا جاسکے۔ ایسا ہے تو اچھا ہے۔ بی جے پی کو افکار کی لڑائی میں مشغول ہونے دیجئے۔ ابھی تک، بی جے پی نے جنونی قوم پرستی اور بدگوئی پر انحصار کیا ہے۔ اگر بی جے پی اپنی مہم کو فکروں اور دلائل کی طرف منتقل کرتی ہے تو میں خیرمقدم کروں گا۔ مجھے کئی مرحلہ کی رائے دہی کا آئیڈیا پسند نہیں لیکن کشیدہ ماحول کے پیش نظر، یہ شاید ناگزیر ہے۔ پولنگ کے مرحلوں کے درمیان میڈیا کو ضرور نیوز رپورٹنگ میں غیرجانبدار رول ادا کرنا چاہئے اور الیکشن کمیشن کو ضرور امتیاز کے بغیر قوانین لاگو کرنا چاہئے۔ باقی سب کچھ ہندوستان کے عوام پر منحصر ہے۔