کانگریس اور مسلمانوں پر تنقید کرنا مودی کی پرانی عادت

ششی تھرور
وزیر اعظم نریندر مودی نے مہاراشٹرا کے وردھا علاقہ میں حالیہ ایک سیاسی ریالی میں عوامی سطح پر کانگریس کے صدر راہول گاندھی کے کیرالا کے پارلیمانی حلقہ ویاناڈ سے انتخابات لڑنے کے فیصلے کو اپنی تقریر کا موضوع بناتے ہوئے اپوزیشن اور راہول گاندھی پر تنقید کی ہے اور کہا کہ راہول گاندھی میں اتنی جرأت نہیں کہ وہ اکثریتی علاقہ سے انتخابات لڑیں اس لئے وہ ایسے مقامات کا انتخاب کررہے ہیں جہاں اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے رائے دہندگان موجود ہیں۔ وزیر اعظم مودی کے علاوہ بی جے پی کے قومی صدر امیت شاہ نے بھی ویاناڈ کے مقام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے اکثریتی عوام کا علاقہ نہ ہونے کی بات کہی ہے جبکہ ان کے ساتھیوں میں شامل یوگی آدتیہ ناتھ بھی ریمارک کیا ہے کہ کانگریس کو یہ امید ہوتی ہے کہ ان کی کامیابی میں علی کی مدد شامل ہوتی ہے جبکہ بی جے پی والوں کے لئے بجرنگ بلی ہی کافی ہیں جو ہماری مدد کرتے ہیں۔
یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے راہول گاندھی کو اپنی تنقیدوں کا نشانہ بنایا ہے بلکہ وہ گزشتہ کئی برسوں سے عوامی جلسوں میں راہول گاندھی کو تنقید کا نشانہ بناتے آئے ہیں۔ نریندر مودی کا یہ مزاج ہی بن چکا ہے کہ جہاں بھی موقع ملے راہول گاندھی کو مختلف القاب سے پکارا جائے۔ جس وقت راہول گاندھی کانگریس کے نائب صدر تھے اس وقت مودی راہول گاندھی کو ہندی اور اردو کے الفاظ استعمال کرتے ہوئے مخاطب کرتے تھے جیسا کہ مودی نے کبھی راہول گاندھی کو راج کمار کہا تھا تو کبھی اردو اور فارسی کے لفظ شہزادہ سے مخاطب کرتے ہوئے نہرو خاندان سے تعلق رکھنے والے راہول گاندھی کو اسلامک اصطلاحات سے مخاطب کیا ہے۔
دسمبر 2017 میں جب راہول گاندھی کو کانگریس کا صدر بنایا گیا تو مودی نے ان کی حوصلہ شکنی کرنے کے لئے کہا تھا کہ کانگریس میں اورنگ زیب راج کا آغاز کیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ابتدائی دنوں میں جس وقت راہول گاندھی سیاست میں ناتجربہ کار قائد تصور کئے جاتے تھے اس وقت انہیں ’’پپو‘‘ کہا جانے لگا تھا لیکن جیسے ہی راہول گاندھی سیاسی داؤ پیچ کو بہتر سمجھنے لگے تو پھر اب بی جے پی والے انہیں پپو نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ اب نئے نئے القاب سے انہیں مخاطب کررہے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ حالیہ تقاریر میں مودی نے کانگریس کو مسلم نواز جماعت کی بجائے مخالف ہندو جماعت ظاہر کرنا شروع کردیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ ہندوؤں کے ووٹ حاصل کئے جاسکیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مودی کانگریس اور راہول گاندھی کو اپنی تقاریر میں اولیت دیتے ہوئے فرقہ وارانہ پیغامات پہنچا رہے ہیں۔
مودی کی کانگریس اور مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی ایک طویل تاریخ ہے جیسا کہ 2002 گودھرا فسادات کے فوراً بعد اس وقت بی جے پی کے چیف منسٹری کے امیدوار مودی نے انتخابی مہم کے دوران برسر عام کہا تھا کہ گجرات کے مسلمانوں اور پاکستانی صدر میاں مشرف کے درمیان روابط ہیں۔ ستمبر میں جس وقت وہ گجرات گاورو یاترا کی مہم میں سرگرم تھے اس وقت بھی مودی نے مسلمانوں کے خلاف ہم 5 اور ہمارے 25 کا نعرہ بلند کیا تھا اور اس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمان گجرات میں اپنے اقلیتی موقف کو بدلنے کے لئے اس حکمت عملی پر کاربند ہیں۔ 2009 اور 2017 کی مہمات میں مودی نے میاں کا لفظ استعمال کیا لیکن اس مرتبہ انہوں نے میاں مشرف کی بجائے کانگریس کے قائد احمد پٹیل کو نشانہ بنایا تھا اور لفظ ’’احمد میاں‘‘ استعمال کیا تھا۔ اسی طرح گزشتہ ہفتہ کتھوا کی ریالی میں انہوں نے جموں و کشمیر کے سابق چیف منسٹرس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ میں ’’عبداللہز اور مفتیز‘‘ کو ملک تقسیم کرنے نہیں دوں گا۔
مودی ویسے تو راہول گاندھی، کانگریس اور مسلمانوں کو ہمیشہ ہی نشانہ بناتے آئے ہیں لیکن انہوں نے کئی مرتبہ انتخابی ریالیوں میں الیکشن کمیشن کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ 2002 میں جب انہوں نے الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ جلد انتخابات کروائیں لیکن فرقہ وارانہ تناؤ کی وجہ سے جب ریاست میں انتخابات کے لئے مودی کا مطالبہ مسترد کیا گیا تو انہوں نے اس وقت کے الیکشن کمشنر جے ایم لنگدھو کو نشانہ بناتے ہوئے ان کے عیسائیت سے تعلق ہونے اور اقلیتوں کی حمایت کرنے کا الزام لگایا تھا۔ مودی کے حالیہ بیانات اور خاموشی کے ساتھ اقلیتوں کو نشانہ بنانے کا انداز بالکل کرکٹ کے اس امپائر کی طرح ہے جو کہ میدان پر کسی متنازعہ آؤٹ ہونے کے فیصلے کو اپنی طرف سے صادر کرنے کی بجائے خاموشی کے ساتھ ایک اشارہ ٹی وی امپائر کی طرف کردیتا ہے جس سے جو بھی فیصلہ چاہے وہ شائقین کے حق میں آئے یا بیٹسمین کے حق میں آئے اس سے میدان پر موجود امپائر بری الذمہ ہو جاتا ہے۔
2015 بہار اسمبلی کے انتخابات میں بھی وزیر اعظم نریندر مودی نے لالو پرساد یادو کو نشانہ بناتے ہوئے انہیں بیف کھانے والے قرار دیا تھا جس کے 2 سال بعد اترپردیش کے انتخابات کے دوران انہوں نے قبرستان ۔ شمشان کا متنازعہ بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ جب رمضان میں برقی سربراہی منقطع نہیں ہوتی ہے تو پھر کیوں دیوالی کے دوران اسے منقطع کیا جاتا ہے۔ مودی کا یہ بیان بھی فرقہ وارانہ نفرت کو پھیلانے کی وجہ ہے اور اسی سال 2017 کے گجرات اسمبلی انتخابات میں نریندر مودی نے سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ اور سابق صدر حامد انصاری پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ پاکستان سے ساز باز کرتے ہوئے بی جے پی کو انتخابات میں شکست دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ 2018 میں کرناٹک انتخابات کے دوران مودی نے کانگریس پر پھر ایک مرتبہ تنقید کرتے ہوئے کہا تھاکہ وہ سلطان کی یوم پیدائش منارہی ہے جو دراصل ٹیپو سلطان کی یوم پیدائش کی ریاست میں تقاریب منایا جانا تھا۔ بہرکیف مودی کی ایک تاریخ ہے کہ وہ کانگریس، راہول گاندھی اور اقلیتوں کو تقریباً اپنے ہر خطاب میں تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور ان کی تنقید بھی تنقید برائے تعمیر نہیں ہوتی بلکہ تنقید برائے تذلیل ہوتی ہے لہذا ہندوستان کو بی جے پی اور نریندر مودی سے بہتر قائد کی ضرورت ہے اور ہمارا ملک ایک ایسے قائد کا مستحق ہے جو اخلاقی اقدار اور جمہوریت کی بنیادوں پر ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرسکے کیونکہ مودی اس وقت ایسی حالت میں پہنچ چکے ہیں جہاں وہ اخلاقی اقدار اور ہندوستان کے وقار کو مجروح کررہے ہیں۔