کانگریسی ’نیائے‘ ملکی وسائل پر غریبوں کا پہلا حق

پی چدمبرم
آخرکار، ایک سیاسی پارٹی نے کٹھن کام انجام دینے کی ہمت جٹائی ہے۔ طویل عرصہ تک ہم اس مسئلہ سے صرفِ نظر کرتے رے، اخلاقی دلائل کا سامنا کرنے سے انکار کئے، اور غربت کا صفایا کرنے کے بنیادی اقدامات کرنے میں ہماری عدم آمادگی کیلئے بہانے بازی کرتے رہے۔ ہندوستان کی وسیع اکثریت ہمیشہ غریب رہی۔ (مجھے قوم دشمن ہونے کا موردِ الزام ٹھہرایا جاسکتا ہے)۔ ہم آزادی کے وقت بہت غریب تھے۔ فی کس آمدنی (اُس وقت کی قیمتوں کے اعتبار سے 247 روپئے تھی۔ زراعت کے علاوہ تھوڑے لوگ ہی جابس کرتے تھے۔ شرح خواندگی 17 فی صد تھی۔ پیدائش پر متوقع زندگی 32 سال تھی۔ یہ تمام اشارے بتاتے ہیں کہ زبردست اور وسیع پیمانے پر غربت تھی۔ 72 برسوں میں یہ تمام اشارات میں بہتری آئی ہے۔ کروڑوں افراد زراعت سے آگے بڑھ گئے اور اب منظم شعبے میں نوکریوں کے حامل ہیں۔ شرح خواندگی 73 فیصد ہے، پیدائش پر متوقع زندگی 68 سال اور موجودہ قیمتوں (2018ء) پر فی کس آمدنی 1,12,835 روپئے ہے۔

حیران کن اعداد و شمار
ہمیں خوش ہونا چاہئے؛ ساتھ ہی ہمیں شرمند ہ ہونا چاہئے کہ تقریباً 250 ملین (25 کروڑ) افراد ہنوز بہت غریب ہیں۔ اسی طرح کی تعداد سامنے آئے گی اگر ہم ایسے لوگوں کی گنتی کریں جو مناسب گھر (جھونپڑی نہیں) سے محروم ہیں؛ یا کوئی قطعہ اراضی نہیں رکھتے؛ یا مہینہ کے کئی دنوں میں معقول غذا سے محروم رہتے ہیں؛ یا آمدنی کا باقاعدہ ذریعہ نہیں رکھتے۔ ہم واجبی طور پر فخر کرسکتے ہیں کہ کروڑوں افراد غربت کی لعنت سے چھٹکارہ پاچکے ہیں۔ ہر سروے نے رپورٹ دی کہ 2004-05 سے 2013-14 کے درمیان (یو پی اے حکومت کے سال) کم از کم 140 ملین افراد کو غربت سے نکالا گیا۔ مزید لوگوں نے ہوسکتا ہے این ڈی اے حکومت کے دوران خط ِ غربت کو پیچھے چھوڑ دیا ہے، لیکن شاید نوٹ بندی اور نقائص والے جی ایس ٹی سے شدید متاثرہ افراد ہوسکتا ہے خط غربت سے نیچے چلے گئے۔ میرا اندازہ ہے کہ این ڈی اے حکومت میں ایک نمبر نے دیگر کی تنسیخ کردی ہے۔ ہمیں اس مدت کے ڈیٹا کا انتظار کرنا پڑے گا۔ اٹل نتیجہ تو یہی ہے کہ آبادی کا نمایاں تناسب غربت میں جی رہا ہے۔ یہ تناسب مختلف اندازوں میں 20 تا 25 فی صد کے درمیان بتایا گیا ہے۔ قطعی تعداد دیکھیں تو یہ 250 تا 300 ملین افراد ہوتے ہیں۔ معاشی سوال ہے کہ کیا ہم انھیں غربت سے نکالنے کیلئے صرف شرح ترقی پر انحصار کرسکتے ہیں؟ اُصولی سوال یہی ہے کہ کیا ہمیں ایسے لوگوں کو غربت سے باہر نکالنے کیلئے صرف ترقی کی رفتار پر انحصار کرنا چاہئے؟

معاشی ذہن، ہمدرد قلب
معاشی سوال کا جواب یہ ہے، ہاں ہم کرسکتے ہیں۔ تیز ترقی بالآخر غربت کا صفایا کردے گی۔ اس سے ہمیں سوشل سکیورٹی سسٹم بنانے میں مدد بھی ملے گی جو شخصی سانحہ یا بزنس میں ناکامی کے سبب خط غربت کے نیچے چلے جانے کی صورت میں کسی بھی فرد کو مدد بہم پہنچائے گا۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ اس کیلئے کئی برس لگ سکتے ہیں، اور اس مدت کے دوران بہت غریب لوگوں کو کافی مصیبت اور ذلت برداشت کرنا پڑے گا۔ لہٰذا، اس معاشی سوال کا جواب پوری طرح قابل قبول نہیں ہے۔ اُصولی سوال کا جواب ہے، نہیں ہم ایسا نہیں کرسکتے۔ ہمیں ضرور شرح ترقی سے کہیں آگے دیکھنا اور شدید غربت کو ختم کرنے کیلئے دیگر بنیادی اقدامات روبہ عمل لانے چاہئیں۔ ایک اقدام جو ماہرین معاشیات اور سماجی اُمور کے ماہرین کی سب سے زیادہ تائید و حمایت رکھتا ہے، مخصوص آبادی کو نقدی کی راست منتقلی کردینا ہے۔ درحقیقت، ڈاکٹر اروند سبرامنیم جو 2014ء اور 2017ء کے درمیان معاشی مشیر اعلیٰ رہے، انھوں نے اکنامک سروے 2016-17 میں اس آئیڈیا کیلئے ایک پورا باب وقف کیا ہے۔ یونیورسل بیسک انکم (یو بی آئی) کے خیال پر کئی برس مباحث ہوئے ہیں۔ عوام کے مطلوبہ گروپوں کو ڈائریکٹ کیاش ٹرانسفر یو بی آئی کی ایک شکل ہے۔ مخصوص گروپوں کو نقدی کی منتقلی کے بارے میں تجرباتی اسکیمات کئی ملکوں میں آزمائی جاچکی ہیں۔ اس موضوع کے بارے میں کافی لٹریچر موجود ہے۔ ڈائریکٹ کیاش ٹرانسفر کے تعلق سے کئی شبہات کا مؤثر جواب دیا جاچکا ہے۔
نیونتم آئے یوجنا (NYAY، مطلب انصاف) جس کا کانگریس پارٹی نے اعلان کیا ہے، بہت غریب 50 ملین خاندانوں کو ہر ماہ ؍ سال نقدی کی راست منتقلی کرنے کا وعدہ ہے۔ اس کیلئے صَرف ہونے والی رقومات قابل لحاظ ہیں لیکن آیا 72 سالہ آزادی کے بعد ہندوستان کو غربت مٹانے کیلئے اس طرح کی اسکیم شروع کرنا چاہئے، اس کا جواب ضرور معاشی ذہنیت اور ہمدرد قلب کے ذریعے دینا چاہئے۔ میری رائے میں صرف ایک جواب ہوسکتا ہے: ہاں، ہمیں تمام تر چیلنجوں کو شکست دیتے ہوئے ضرور ایسا کرنا چاہئے۔ اچھی حکومت کی صفت کسی مشکل اسکیم پر کامیاب عمل آوری میں مضمر ہے، نہ کہ ایسی اسکیم کو فوت کردیا جائے جو اُصولی طور پر ناگزیر اور معاشی طور پر قابل عمل ہے۔
مالی سال 2023-24 تک جی ڈی پی 400,00,000 کروڑ روپئے تک پہنچ جانے کی توقع ہے۔ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے جملہ مصارف کا تخمینہ 2018-19 میں 60,00,000 کروڑ روپئے رہا، اور یہ اعداد بھی ہر سال وصولیات میں اضافے کے ساتھ ساتھ بڑھیں گے۔ اُصولی۔ معاشی سوال ہے کہ کیا ملک کو غریبوں میں غریب ترین 20 فی صد کو سہارا دینے کیلئے اپنی GDP کا 2 فی صد مختص نہیں کرنا چاہئے۔ یاد رکھیں کہ احمدآباد اور ممبئی کے درمیان بلٹ ٹرین پر 1,00,000 کروڑ روپئے سے زیادہ لاگت آئے گی! چند کارپوریٹ اداروں کے دیوالیہ پن کے معاملوں کی یکسوئی ابھی تک زائد از 84,000 کروڑ روپئے تک پہنچ چکی ہے۔ اگر چند لوگ اس طرح کی دریادلی کے ’مستحق‘ ہیں تو کیوں 50 ملین خاندانوں (250 ملین افراد) کو جی ڈی پی یا جملہ مصارف کے معمولی حصہ کا مستحق نہیں ہونا چاہئے؟ غریبوں کا ملک کے وسائل پر پہلا حق ہے۔ کانگریس نے یہ اصول کو سمجھ لیا اور چیلنج پیش کردیا ہے۔