کامیاب زندگی کیلئے رہنمایانہ خطوط

سید اعجاز احمد
دنیا میں کئی مخلوقات ہیں ان سب میں انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیا گیا ہے ۔ کیونکہ انسان غور وتدبر کرسکتا ہے ۔ قدرت کی نشانیوں کا مشاہدہ کرسکتا ہے ۔ نیکی اور بدی میں فرق محسوس کرسکتا ہے ۔ سچائی کے راستے کی نشندہی کرسکتا ہے اور زندگی کا مقصد سمجھ سکتا ہے ۔ ان صفات کو ہم دوسری مخلوقات میں نہیں دیکھ سکتے ہیں ۔
ذیل میں صحیح غور و تدبر کے لئے اور کامیاب زندگی کے لئے چند نکات پیش کئے جاتے ہیں ۔ اگر آپ ہم ان پر عمل کریں تو زندگی کو کامیاب بناسکتے ہیں ۔
۱۔ سب سے پہلے انسان اپنی زندگی میں ایک فلسفہ حیات کو اپنانا چاہئے ۔ بغیر فلسفہ کے زندگی ویران لگتی ہے ۔ سب فلسفوں میں صحیح اعلی و اونچا فلسفہ اسلامی فلسفہ ہے ۔ فلسفہ حیات کو اپنانے سے ہم زندگی کے مقاصد کو سمجھ سکتے ہیں اور صحیح غور و فکر پیدا کرسکتے ہیں ۔
۲ ۔ کامیاب زندگی کے لئے اپنے اندر ڈسپلن (نظم و ضبط) کو پیدا کرنا چاہئے ۔ ڈسپلن نام ہے اصول و ضوابط کی پابندی کرنا ۔ اس کے تحت ہم اپنے طرز عمل کو قابو میں رکھ سکتے ہیں ۔ اور صحیح سوچ و فکر پیدا کرسکتے ہیں ۔
۳ ۔ بہت سے انسانوں میں دو طرح کی سوچ ہوتی ہے ۔ ایک تعمیر سوچ اور دوسری تخریبی سوچ ۔ تخریبی سوچ اگر غالب آجائے تو خود انسان کو اور سماج کو اجاڑ دیتی ہے ۔ اگر فرد تعمیری سوچ کو استعمال کرے گا تو سماج کے لئے کارآمد بن سکتا ہے اور خود زندگی میں ترقی کرسکتا ہے ۔
۴ ۔ کہا جاتا ہے کہ انسان کی عقل جب پک جاتی ہے تو وہ خاموشی اختیار کرلیتا ہے اور بات کرتا ہے تو بھی تول کر بات کرتا ہے ۔ ایک ناسمجھ انسان بغیر سوچے سمجھے بات کرتا ہے اور سمجھدار انسان پہلے سوچتا ہے پھر بات کرتا ہے  ۔اس لئے بغیر سوچے سمجھے بات نہیں کرنا چاہئے ۔ بات چیت میں ہم کو عاقبت اندیش ہونا چاہئے ۔
۵ ۔ ہمارے غور و فکر کی آخری منزل قوت فیصلہ ہے ۔ اس لئے کسی بھی بڑے فیصلے سے پہلے ہر زاویئے سے سوچنا چاہئے ۔ ایک ناسمجھ اپنی سوچ پر فیصلہ کرتا ہے اور عقلمند تجربہ کار لوگوں سے مشورہ لے کر فیصلہ کرتا ہے ۔
۶ ۔ ہماری سوچ کے ساتھ عمل بھی چاہئے ۔ یاد رکھئے کہ حرکت سے برکت ہے ۔ خیالی پلاؤ بہت پکایئے ۔ زیادہ سوچنا بھی نہیں چاہئے ۔ اس لئے کہ اس سے ارادے کمزور پڑجاتے ہیں ۔
۷ ۔ اپنی زندگی میں سادگی کو اپنایئے ۔ لیکن خیالات کو بلند رکھئے ۔ انسان کی پہچان اور قدر اس کے خیالات و نظریات اور کردار سے ہوتی ہے نہ کہ اس کے ظاہری دکھاوے کی شخصیت سے ۔
۸ ۔ انسان کا مقصد حیات عبادت ہے ۔ اس لئے ہر روز عبادت کے لئے کم از کم پانچ نمازوں کے لئے ہمیں ڈھائی گھنٹے نکالنا چاہئے ۔ اس سے ہمارے خیالات ، فکر اور روح میں شفافیت اور پاکیزگی پیدا ہوگی ۔ نمازوں کی پابندی سے زندگی میں ڈسپلن آئے گا ۔ کاہلی چلی جائے گی ۔ وقت کی پابندی بھی آجائے گی ۔ جسمانی و روحانی صحت بھی بہتر ہوجائے گی ۔ یاد رکھئے کہ ہم صرف ڈھائی گھنٹے کے مسلمان نہیں ہے بلکہ پورے 24 گھنٹے کے مسلمان ہیں ۔ اس لئے زندگی کے تمام خاص کر شادی بیاہ کے معاملات میں اپنے آپ کو صحیح رکھنا چاہئے ۔ دیہی مقولہ کے مطابق نماز پڑھے اللہ کے واسطے اور کڑوی چرائے بھینسوں کے واسطے والی بات نہیں ہونا چاہئے ۔
۹ ۔ دماغ کو ادھر اُدھر بھٹکنے نہیں دینا چاہئے ۔ اس کو کنٹرول میں رکھنا چاہئے ۔ اگر ہمارا دماغ بے قابو رہے گا تو ذہنی انتشار پیدا ہوسکتا ہے ۔ جو ذہنی دباؤ کا باعث بنے گا ۔ ذہنی دباؤ کئی بیماریوں کو دعوت دیتا ہے ۔ انسان کی زندگی میں تھڑا بہت یا کسی قدر ذہنی دباؤ بھی چاہئے ۔ اس سے انسان جد وجہد کی طرف راغب ہوگا اور کامیابیوں کے منازل طے کرے گا ۔
۱۰۔ بیکار خالی دماغ شیطان کا کارخانہ ہوتا ہے ۔ اس لئے اپنے آپ کو اور ہمارے دماغ کو مصروف رکھنا چاہئے ۔ دماغ کو کبھی بھی کاہل نہیں بنانا چاہئے ۔ اس لئے کہ جسمانی کاہلی سے زیادہ ذہنی کاہلی بہت خطرناک ہے ۔ اگر ہم دماغ کو استعمال نہیں کریں گے تو اس کی کارکردگی متاثر ہوگی ۔ اس لئے ہمارا دماغ متحرک ہونا چاہئے ۔ فرصت کے لمحات کو ضائع کئے بغیر ہمیں اپنے زندگی کے مسائل کو جائزہ لینا چاہئے اور ان کے حل کے لئے منصوبہ بنانا چاہئے ۔ ان ہی اوقات میں اپنے ہابی یا شوق کو بھی وقت دینا چاہئے ۔ اس سے ہم کو روحانی تسکین حاصل ہوگی ۔
۱۱ ۔ روشن خیالی کے لئے ہم کو ہر روز ایک گھنٹہ اچھی کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہئے ۔ اور کوئی ایک مکمل اردو اخبار پڑھنا چاہئے ۔ یہ مطالعہ ہم کو ذہنی غذا فراہم کرے گا ۔ اس کے ساتھ ساتھ نیک اور کامیاب لوگوں کی قربت بھی حاصل کرنا چاہئے ۔ علمائے دین ، تعلیمی مفکرین اور دانشوروں (سیاست دان کو چھوڑ کر) سماجی مصلح کے خطابات اور لکچرس کو سننا چاہئے ۔ یہ ان کے کئی کتابوں کے مطالعہ کا نچوڑ ہوتا ہے ۔ سمینار اور سپموزیم میں بھی شرکت کرنا چاہئے ۔ بہرحال یہ مصروفیات ہماری زندگی کے راستے میں ایک روشنی کا کام کرینگے ۔
۱۲ ۔ ہر رات سونے سے پہلے ہم کو دو کام کرنا ہے  ۔پہلے یہ سوچنا چاہئے کہ میں آج کتنی نیکیاں کمایا اورکتنے گناہ کئے ۔ اس کا محاسبہ کرکے اپنے اعمال کو درست کرنا چاہئے ۔ پھر دوسرا کام یہ ہے کہ ہمیں کل کونسے کام انجام دینا ہے اس کو طے کرنا چاہئے ۔ اس لئے کہ طے کردہ مشاغل یا کام کے نتائج بہتر نکلتے ہیں ۔ پھر رات کو سونے سے پہلے تمام تفکرات خدا پر چھوڑ دینا چاہئے ۔ اللہ سے مدد مانگ کر اس پر توکل کرنا چاہئے ۔ اس لئے کہ اللہ بہت غفور الرحیم ہے ۔ اگر ہم رات بھر تفکرات میں جاگتے رہیں گے تو صحت متاثر ہوجائے گی ۔ زندگی کے مسائل سے ہم کو کبھی بھی گھبرانا نہیں چاہئے۔ مسائل کا نام زندگی ہے ۔ یہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہر مسئلہ عارضی ہوتا ہے ۔ آتا ہے اور چلا جاتا ہے ۔
۱۳ ۔ ہمیں زندگی میں دماغ کا غلام نہیں بننا چاہئے ۔ بلکہ دماغ ہمارا غلام ہونا چاہئے ۔ عموماً دماغ اچھے کام کے خلاف کام کرنے کو کہتا ہے ۔ مثلاً ہمارا دماغ رات بھر دوستوں میں بیٹھ کر گپیں لڑانے کے لئے کہتا ہے تو گھر سے باہر نہیں جانا چاہئے بلکہ سوجانا چاہئے ۔ اگر دماغ صبح دیر تک سونے کے لئے چاہتا ہے تو بستر سے جلد سے جلد اٹھ جانا چاہئے ۔ بہرحال جو دماغ کہتا ہے اس کے خلاف کام کرنا چاہئے اور ضمیر جو ہمارا رہبر ہے اس کے مشورے پر چلنا چاہئے ۔
۱۴ ۔ خواب دیکھنے کا حق ہر انسان کو ہے صرف امیروں کو نہیں ۔ روشن مستقبل کے لئے خواب ضرور دیکھنا چاہئے لیکن دن کے خواب نہیں ۔ ان خوابوں کو حقیقت میں تبدیل کرنے کے لئے لائحہ عمل تیار کرنا چاہئے ۔ اور مسلسل جستجو ، محنت و استقلال کے ساتھ مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرنا چاہئے ۔ چند انسانوں کی سوچ بہت ہی محدود ہوتی ہے جو آج یا کل کا ہی سوچتے ہیں ۔ ان میں دور اندیشی نہیں ہوتی ۔ یہ خواب دیکھنا بھی نہیں چاہتے ۔ اپنی زندگی کے حالات سے یا زندگی میں جو بھی مقام ملا ہے اس سے سمجھوتہ کرلیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ بس میری تقدیر میں یہی تھا ۔ آگے بڑھنے کے لئے ان کے پاس کوئی پروگرام ہی نہیں ہوتا ۔ کامیاب زندگی کے لئے ہماری سوچ و فکر میں بصیرت بھی ہونی چاہئے ۔ اس سے انسان اپنی دل کی بینائی سے کام لے گا اور کامیاب زندگی کے لئے بہتر منصوبے بنائے گا ۔
۱۵ ۔ ہماری سوچ میں مستقل مزاجی ہونی چاہئے ۔ شام میں ایک فیصلہ کرکے پھر صبح اسے تبدیل کرنے یا ملتوی کرنے سے ہم کبھی بھی کامیابی حاصل نہیں کرسکتے ۔