کالج کی لائبریری میں طلباء کا جمعہ ادا کرنا

سوال :  عرض ہے کہ ہمارے کالج میں جمعہ کے دن کالج کے طلباء لائبریری کے اندر جمعہ کا خطبہ دے رہے ہیں اور نماز باجماعت ادا کر رہے ہیں۔ حالانکہ کالج کے نزدیک ہی مسجد ہے جہاں جمعہ کی نماز ہوتی ہے۔ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس تعلق سے کہ کالج کے حدود میں صرف جمعہ کے دن خطبہ اور نماز جمعہ پڑھنا درست ہے ۔ براہ کرم جواب سے مطلع فرمائیے ؟
غلام غوث الدین، خلوت
جواب :  صحت جمعہ کے لئے اذن عام شرط ہے یعنی جس جگہ نماز جمعہ ادا کی جارہی ہے اس میں مصلیوں کو آنے اور نماز جمعہ پڑھنے کی عام اجازت ہو اور اگر کسی مقام میں مخصوص افراد کے لئے نماز جمعہ کا انتظام ہو۔ عام لوگوں کو آنے کی اجازت نہ ہو تو اس مقام میں جمعہ کا ادا کرنا صحیح نہیں۔ مراقی الفلاح شرح نورالایضاح ص : 330 ، 331 میں ہے (و) الخامس من شروط صحۃ الجمعۃ (الاذن العام) کذا فی الکنز لانھا من شعائرالاسلام ، وخصائص الدین فلزم اقامتھا علی سبیل الاشتھار و العموم۔لہذا کالج کی لائبریری میں طلباء کا نماز جمعہ ادا کرنا عام اجازت نہ ہونے کی وجہ سے صحیح نہیں۔ ہاں اگر جمعہ کا اعلان ہو اور کالج کی گیٹ کھلی رہے اور عام لوگوں کو شریک جمعہ ہونے کی اجازت ہو تو جمعہ کا ادا کرنا صحیح ہوگا۔

جمعہ کے دن اردو تقریر کے دوران سنت پڑھنا
سوال :  میں ایک مسجد میں جمعہ پڑھنے کیلئے گیا، مجھے وقت کا علم نہ تھا، کافی دیر پہلے میں مسجد پہنچ گیا، پندرہ منٹ بعد خطیب صاحب نے اردو تقریر کی۔ دوران تقریر قریبی صف میں ایک شخص نے جمعہ سے قبل کی سنت پڑھنا شروع کردی، یہ بات خطیب صاحب کواچھی معلوم نہیں ہوئی ۔ انہوں نے اردو تقریر کے دوران اپنی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اردو تقریر کے دوران سنت نماز پڑھنا صحیح نہیں ہے ۔ خطیب صاحب کے اس بیان سے مجھے اطمینان نہیں ہوا کیونکہ اردو تقریر عموماً ہمارے ہندوستان ، پاکستان میں ہوتی ہے ۔ سعودی عرب و دیگر ممالک میں صرف دو ہی خطبے عربی میں ہوتے ہیں تو کس طرح اردو تقریر کے دوران سنت پڑھنا صحیح نہیں ہوسکتا۔
نعیم الدین، احمد نگر
جواب :   جمعہ کا پہلا عربی خطبہ شروع کرنے کیلئے امام کے قیام سے دونوں خطبے ختم کرنے تک بلکہ نماز جمعہ پڑھ لینے تک سنت ہو یا نفل اور بات کرنا شرعاً مکروہ ہے ۔ در مختار کتاب الصلاۃ باب الجمعہ میں ہے : (واذا خرج الامام) من الحجرۃ ان کان والا فقیام للصعود شرح المجمع (فلا صلاۃ) ولا کلام (الی یتمامھا ۔ ردالمحتار میں ہے : و غایۃ البیان انھما یکرھان من حین یخرج الامام الی ان یفرغ من الصلاۃ ۔ پس خطیب صاحب کا جمعہ کے دن اردو تقریر کے دوران سنت پڑھنے کو صحیح قرار نہیں دینا شرعاً درست نہیں ۔

بیوی کے ساتھ حسن سلوک کی ترغیب
سوال :  میں اپنے شوہر کا بہت خیال رکھتی ہوں۔ ان کی فرمانبرداری کرتی ہوں، ان کی مرضی کے مطابق کام کرنے کی پوری کوشش کرتی ہوں۔ اس کے باوجود وہ مجھ سے ناراض رہتے ہیں۔ خوشی اور مسرت کا اظہار نہیں کرتے۔ میرا خیال نہیں رکھتے۔ کیا شریعت میں صرف عورتوں کو مردوں کی اطاعت اور فرمانبرداری کرنے کا حکم ہے۔ مردوں پر عورتوں کے لئے کچھ بھی احکام نہیں ؟
نام مخفی
جواب :  اسلام نے بیویوں کے  فرائض کے ساتھ ساتھ ان کے حقوق کو بھی بیان کیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ولھن مثل الذی علیھن بالمعروف (سورہ بقرہ)۔ (عورتوں کے فرائض کی طرح ان کے حقوق بھی ہیں)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاندانی زندگی میں عورت کے مقام و مرتبہ کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:  الدنیا کلھا متاع و خیر متاع الدنیا المراۃ الصالحۃ (مشکوۃ المصابیح) یعنی ساری کی ساری دنیا نعمت ہے اور بہترین نعمت نیک بیوی ہے۔ آپ نے مزید فرمایا:  تم میں بہتر وہی ہے جس کا سلوک اپنی بیوی کے ساتھ اچھا ہے اور میرا سلوک میری بیویوں سے سب سے اچھا ہے (ترمذی) ۔ لہذا مرد کو اپنی بیوی کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا چاہئے اور اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وعاشروھن بالمعروف (سورہ نساء) یعنی تم اپنی بیویوں کے ساتھ حسن معاشرت سے پیش آؤ۔ اگر شوہر کو بیوی کی کوئی عادت پسند نہ ہو تو یقیناً کوئی دوسری عادت ضرور پسند ہوگی تو پسندیدہ عادت کی قدر کرے اور ناپسندیدہ عادت کو درگزر کرے اور صبر کرتے ہوئے بتدریج اس کی اصلاح کی کوشش کرے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا : تم عورتوں کے معاملے میں خدا سے ڈرو وہ تمہیں اللہ کی امانت کے طور پر ملی ہیں اور خدا کے حکم سے تم نے ان کا جسم اپنے لئے حلال بنایا ہے۔ تمہاری طرف سے ان پر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ کسی غیر کو (جس کا آنا تم کو گوارا نہیں)۔ اپنے پاس گھر میں آنے نہ دیں، اگر وہ ایسا کرے تو تنبیہ کا حق مردوں کو ہے۔(ترمذی، ابن ہشام جلد 4 صفحہ 251) آپ صلی اللہ علیہ وسلم ازواج مطہرات کے لئے سراپا محبت و شفقت اور رأفت و رحمت تھے۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ھن لباس لکم کی مجسم تصویر تھے۔ لاڈ پیار ، ناز برداری، روٹھنا منانا، دلچسپی کے پہلو پیدا کرنا، رائے لینا اور ناموافق رائے کو برداشت کرنا وغیرہ یہ سب امور جو ایک ازدواجی زندگی میں پیش آتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سب میں محبت ، نرمی ، مودت اور رحمت کا پیکر تھے۔ لہذا شوہر کو چاہئے کہ وہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ازدواجی زندگی کو اپنے پیش نظر رکھے تاکہ دین و دنیا کی سعادت نصیب ہو اور معلوم ہو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات کے ساتھ کیسا حسن سلوک فرمایا۔ علاوہ ازیں اگر شوہر بیوی کے ساتھ حسن سلوک نہ کرے،بیوی کی فرمانبرداری، اطاعت گزاری کے باوجود اس سے خوش نہ ہو تو بیوی کو ان حالات میں صبر سے کام لینا چاہئے اور اپنے حسن سلوک اور اطاعت و فرمانبرداری کو جاری رکھنا چاہئے کیونکہ ہر حال میں شوہر کی زیادتی پر صبر کرنے کا اجر و ثواب اللہ سبحانہ تعالیٰ کے پاس محفوظ رہے گا۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : انما یوفی الصابرون اجرھم بغیر حساب یعنی اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کو بے حساب اجر و ثواب عطا فرماتا ہے۔

رہن کا مکان ہبہ کرنا
سوال :  زید تین منزلہ مکان کا مالک ہے، اس نے اپنے مکان کا گراؤنڈ فلور پانچ لاکھ روپئے میں رہن رکھا، ایک سال کی مدت ختم ہوگئی، مزید ایک سال باقی ہے لیکن خاندانی ذرائع سے معلوم ہوا کہ زید نے اپنا تین منزلہ مکان اپنے دو لڑکے اور ایک لڑکی کے نام ہبہ کردیا اور ان کے نام رجسٹری بھی کردی۔ ایسی صورت میں زید کا رہن کا حصہ کو ہبہ کرنا شرعاً درست ہے یا نہیں ؟ واضح رہے کہ رہن کا حصہ اب بھی قرض دینے والے کے قبضہ و تصرف میں ہے۔
محمد الماس، آغا پورہ
جواب :  اگر قرض دینے والے کی رضامندی کے بغیر زید نے رہن کا حصہ ہبہ کیا ہے تو یہ ہبہ رہن کی رقم واپس کرنے تک شرعاً نافذ نہیں ہے۔ مرتہن (قرض دیکر رہن رکھنے والے) کو یہ حق حاصل ہے کہ رہن کے حصۂ مکان کواپنے قبضہ و تصرف میں رکھے اور اپنی رقم وصول کرلے۔ عالمگیری جلد 5 ص : 462 کتاب الرہن میں ہے : و تصرف الراہن قبل سقوط الدین فی المرھون اما تصرفہ یلحقہ الفسخ کالبیع والکتابۃ والا جارۃ والھبۃ والصدقۃ والاقرار و نحوھا او تصرف لا یحتمل الفسخ کا لعتق والتدبیر والاستیلاد۔ اما الذی یلحقہ الفسخ لا ینفذ بغیر رضاء المرتھن ولا یبطل حقہ فی الحبس و اذا قضی الدین و بطل حقہ فی الحبس نفذت التصرفات کلھا۔
پس صورت مسؤل عنہا میں قرضحواہ کو تا ادائی زر رہن کے حصہ مکان کو اپنے زیر قبضہ رکھنے کا حق ہے۔

دعاء میں صیغہ کی تبدیلی
سوال :   ہمارے محلہ کی مسجد کے امام صاحب اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے پانچوں وقت کی نماز پڑھاتے ہیں۔ رہا سوال یہ کہ قرآن پاک میں لا الہ الا انت سبحنک انی کنت من الظلمین۔ لکھا ہے۔ لیکن ہمارے مسجد کے امام صاحب نماز کے بعد دعا کرتے وقت لا الہ الا انت سبحنک انا کنا من الظلمین پڑھتے ہیں۔ ان دونوں دعاؤں میں کونسی دعا پڑھنا درست ہے۔ براہ کرم ہمیں شرعی طور پر اس مسئلہ کا درست حل دیجئے مہربانی ہوگی ؟
نام ندارد
جواب :  ’’ انی کنت من الظلمین ‘‘ میں ’’ انی کنت ‘‘ واحد متکلم کا صیغہ ہے جس کے معنی میں اپنے نفس پر ظلم کرنے والوں میں سے ہوں اور ’’ انا کنا ‘‘ کے ساتھ پڑھیں تو اس وقت معنی یہ ہوں گے کہ ہم اپنے نفسوں پر ظلم کرنے والے ہیں۔ امام صاحب دعاء میں ’’ انا کنا ‘‘ پڑھتے ہیں تو مصلیوں کو اس میں شامل کرتے ہوئے جمع کا صیغہ پڑھتے ہیں جو کہ درست ہے اور اگر قرآن میں جو الفاظ واحد متکلم کے ساتھ آئے ہیں اس سے بھی پڑھ سکتے ہیں۔ جب قرآنی آیت میں واحد متکلم کے صیغہ کو جمع کے ساتھ بطور دعاء پڑھتے ہیں اور مصلیوں کو شک و شبہ پیدا ہورہا ہے تو بہتر یہی ہے کہ قرآنی آیت کو بلفظہ پڑھا جائے۔

اذان سے متصل نماز کی ترغیب دینا
سوال :  ہمارے موذن صاحب روزانہ فجر کی اذان کے ساتھ ہی چند منٹ بعد ان الفاظ کو دہراتے ہیں’’ نماز نیند سے بہتر ہے‘ نماز جنت کی کنجی ہے‘ پڑھ لو نماز اس سے قبل کہ تمہاری نماز پڑھائی جائے‘‘۔ اس پر کچھ لوگوں کا اعتراض ہے کہ اذان کے جو الفاظ ہیں وہ اول و آخر ہیں۔ اس کے ساتھ کسی اور الفاظ کو شامل نہیں کیا جاسکتا۔ اس پر موذن صاحب کا کہنا ہے کہ ان الفاظ سے جو لوگ گھروں میں سوئے ہوتے ہیں‘ ان کو یہ الفاظ جگاتے ہے اور وہ لوگ نیند سے بیدار ہوکر مسجد کی طرف آتے ہیں۔ کیا موذن صاحب کا یہ اقدام درست ہے ؟ کیا اذان کے ساتھ ان الفاظ کو پڑھنا جائز ہے ؟ کیا اذان کے بعد ان الفاظ کو پڑھنے سے اللہ اور اللہ کے رسولؐ کے بتائے ہوئے شرعی احکام کی خلاف ورزی تو نہیں ؟
محسن پاشاہ، پرانی حویلی
جواب :   اذان ختم ہونے کے پانچ دس منٹ بعد ‘ مسلمانوں کو نماز پڑھنے کی ترغیب کے لئے متنبہ کرنا نماز مغرب کے سوا دیگر نمازوں میں شرعاً درست ہے۔ اس میں ممانعت کی کوئی وجہ نہیں۔ موذن کا عمل ‘ اذان سے متصل نہ ہو تو اشتباہ بھی نہیں ہوسکتا۔

مسجد میں سلام کرنا
سوال :  جمعہ کے دن لوگ خطبہ سے بہت پہلے مسجد میں جمع ہوجاتے ہیں اور قرآن مجید بالخصوص سورہ الکہف ، سورۃ یسین کی تلاوت کرتے ہیں اور دوسرے حضرات اوراد و وظائف میں مشغول رہتے ہیں۔ بعض حضرات مسجد کے اندرونی حصہ میں داخل ہوکر بلند آواز سے سلام کرتے ہیں ۔ کیا اس طرح سلام کرنا شرعی لحاظ سے کیا حکم رکھتا ہے ۔اس کے علاوہ اگر کوئی شخص سلام کردے تو کیا قرآن کی تلاوت میں مشغول افراد پر سلام کا جواب دینا ضروری ہے یا نہیں ؟
محمدسعد، ٹولی چوکی
جواب :  یہ سلام کا وقت نہیں، جمعہ کے دن مسجد میں داخل ہونے والے کو چاہئے کہ وہ سلام نہ کرے ۔ اگر وہ سلام کردے تو بیٹھنے والوں پر اس کے سلام کا جواب دینا  ضروری نہیں۔
عالمگیری جلد 5 کتاب الکراھۃ ص : 361 میں ہے : السلام تحیۃ الزائرین ، والذین جلسوا فی المسجد للقراء ۃ والتسبیح ولانتظار الصلوۃ ما جلسوافیہ لدخول الزائرین علیھم فلیس ھذا اوان السلام فلا یسلم علیھم و لھذا قالوا لو سلم علیھم الدخول وسعھم ان لا یجیبوہ کذا فی القنیۃ۔