کالا سے سفید جادو

پی چدمبرم

نریندر مودی حکومت نے ملک میں 2016کو نوٹ بندی نافذ کی اور اس کے اثرات آج بھی عوام کو پریشان کئے ہوئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ نوٹ بندی کا بھوت مودی حکومت کا مسلسل پیچھا کررہا ہے۔ ریزرو بینک آف انڈیا نے حال ہی میں 2017-18 کی اپنی سالانہ رپورٹ جاری کی ہے اور اس رپورٹ میں جو اعداد و شمار حقائق بیان کئے گئے ہیں اس سے عوام کو اندازہ ہوگیا ہے کہ نوٹ بندی مکمل طور پر ناکام رہی۔
ایک ایسی پالیسی جسے سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت نافذ کیا گیا تھا لیکن اس میں پائی جانی والی خامیاں مودی حکومت کیلئے بدنامی و رسوائی کا باعث بن گئی ہیں۔ نوٹ بندی کی سب سے بڑی خامی اس کا وہ مبہم عمل یا طریقہ کار تھا جسے نوٹ بندی کے اعلان سے قبل اپنایا گیا ۔ 7 نومبر 2016 کو حکومت نے ریزروبینک آف انڈیا سے کہا کہ وہ 500 اور 1000 روپئے کے کرنسی نوٹوں کا چلن ختم کرنے کی تجویز پر دوسرے دن یعنی 8 نومبر تک اپنی سفارشات پیش کرے ریزرو بینک آف انڈیا نے اس مسئلہ پر کسی قسم کی تیاری کی تھی اور نہ ہی کسی قسم کی اسٹڈی کرنے یا جائزہ لینے کا اسے موقع ملا تھا۔ اس کے باوجود چونکہ حکومت کا حکم تھا اس لئے آر بی آئی کے سنٹرل بورڈ نے عجلت میں 8 نومبر کو بناکسی ایجنڈہ اور بغیر کسی نوٹ کے اپنا اجلاس منعقد کیا اور ایک فرض شناس فرمانبردار ملازم کی طرح اس بات کی سفارش کردی کہ 1000 اور 500 کی کرنسی نوٹوں کے چلن پر پابندی عائد کی جاسکتی ہے، ان کا چلن روک دیا جاسکتا ہے۔ اس اہم ترین موضوع یا مسئلہ پر حکومت نے اپنے اقتصادی مشیر اعلیٰ سے مشاورت بھی گوارا نہیں کی چیف اکنامک اڈوائزر ایک سمینار سے خطاب کرنے کیلئے 8 نومبر کو کیرالا میں تھے۔8نومبر کو کابینہ کا اجلاس بھی منعقد ہوا۔ اس میں بھی اس تعلق سے کوئی نوٹ تیار نہیں کیا گیا اور نہ ہی کابینہ میں نوٹ بندی کے تعلق سے کوئی اعلان گشت کروایا گیا۔ اس وقت کابینہ کے اجلاس میں جو وزراء موجود تھے نجی محفلوں میں اعتراف کیا کہ اجلاس میں انہیں بنایا گیا کہ نوٹ بندی نافذ کی جائے گی۔

ناکام مقاصد:
اس کے باوجود مجھے یہ کہنے دیجئے1000 اور 500 کی کرنسی کا چلن ختم کرنے کا فیصلہ بعض مقاصد کے حصول کے ارادہ سے کیا گیا۔ جن میں بلیک منی پر قابو پانا اسے ضبط کرنا، جعلی کرنسی نوٹوں پر روک لگانا اور دہشت گردانہ تنظیموں کو فراہم ہونے والے مالیہ یا ان کی فنڈنگ روکنا شامل تھے، لیکن نوٹ بندی نافذ کئے ہوئے ایک کافی عرصہ گذر جانے کے باوجود حکومت اپنے ان مقاصد میں سے کسی بھی مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ نئی کرنسی کی ذخیرہ اندوزی اور بلیک منی کی حیثیت سے اسے جمع کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی ضبطی کا سلسلہ جاری ہے۔ نئی کرنسی متعارف کروائے جانے کے باوجود جعلی کرنسی منظر عام پر آرہی ہے اور ایسے کئی واقعات پیش آچکے ہیں جہاں جعلی کرنسی ضبط کی گئی ہے اور کی جاتی رہے گی جبکہ دہشت گردی کے واقعات میں بھی کمی نہیں آئی ہے اور کہا جارہا ہے کہ دہشت گرد تنظیموں کی فنڈنگ نئی کرنسی نوٹوں کے ذریعہ کی جارہی ہے۔ ناکام مقاصد کی روشنی میں عوام کو نوٹ بندی کے بارے میں کس نتیجہ پر پہنچنا چاہیئے؟میں آخر میں اس تعلق سے نتیجہ پر پہنچوں گا اور ایک اہم ترین نتیجہ کے بارے میں آپ کو بتاؤں گا اور وہ اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ نوٹ بندی کا خاص طور پر گھروں میں کی جانے والی بچت پر گہرا اثر پڑا ہے یعنی اس سے گھروں میں کی جانے والی بچت متاثر ہوئی ہے۔

زائد رقم ، کم بچت :
آر بی آئی کے مطابق 28 اکٹوبر 2016 میں ( نوٹ بندی نافذ کئے جانے سے قبل ) جو کرنسی زیر گشت تھی اس کی قدر 17,54,022 کروڑ تھی۔ 17 اگسٹ 2018 کو ہمارے ملک میں جو کرنسی زیر گشت رہی وہ 19,17,129 کروڑ روپئے مالیتی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نوٹ بندی کے نتیجہ میں ہمارے پاس رقم کی کوئی کمی نہیں ہوئی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زیر گشت ( زیر استعمال ) کرنسی کو کس طرح شمار کیا جانا ہے۔ یا اس کی گنتی کیسے ہوتی ہے؟
نوٹ بندی ، اس کی ناکامی اور حال ہی میں ریزرو بینک آف انڈیا کی جانب سے جاری کردہ اس کی سالانہ رپورٹ سے بعض حقائق ہمارے سامنے آئے ہیں۔ سب سے پہلا یہ ہے کہ ہندوستان نقد رقم یا کیش میں بھروسہ رکھتا ہے۔ آج ہندوستانی اپنے یہاں 2015-16 سے کہیں زیادہ رقم رکھ رہے ہیں۔ لوگوں کے ہاتھوں میں جو رقم ہے وہ حقیقت میں 1.4 سے بڑھ کر 2.8 فیصد یعنی دوگنی ہوگئی ہے۔ اس کے برعکس بینکوں میں جمع کروائی گئی رقم میں کمی آئی ہے ۔ یہ رقم 4.6 فیصد تھی جو گھٹ کر 2.9 فیصد ہوگئی ہے۔ دوسرے یہ کہ لوگوں نے قرض لیا ہے اور واجبات 2.8 فیصد سے بڑھ کر 4 فیصد ہوگئی ہے۔ ایسے میں GHS ( گھرانوں کی مجموعی بچت ) زیادہ ہے لیکن گھروں کی نقد بچت میں گراوٹ آکر وہ 8.1 فیصد 7.1 فیصد ہوگئی ہے۔ تیسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ گھروں کی نقد بچت میں گراوٹ کا اثر سرمایہ کاری پر مرتب ہوا ہے جس کی پیمائش گراس فکسڈ کیپٹل فارمیشن (GFCF) میں کی جاتی ہے۔ جو حقائق ہیں ان میں چوتھا یہ ہے کہ GFCF میں گراوٹ سے فطری طور پر شرح نمو میں کمی آئی ہے اور نوٹ بندی کے بعد سے شرح نمو میں کمی آئی ہے۔ ان حالات میں 2018-19 کے پہلے سہ ماہی شرح نمو 8.2 فیصد قرار دے کر جشن منانا قبل از وقت ہوگا کیونکہ یہ این ڈی اے حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد 16 سہ ماہیوں میں 5.6 فیصد کے سب سے کم ریکارڈ کردہ شرح کی بنیاد پر ہے۔ آگے بڑھ کر دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ بنیادی اثر حکومت کی معاشی پالیسیوں کے حق میں نہیں ہے، اسی وجہ سے سے اگر معیشت اپنی نمو کی موجودہ رفتار کو برقرار بھی رکھتی ہے تب بھی آئندہ تین سہ ماہی میں شرح نمو میں گراوٹ آنے کی توقع ہے۔

دلائل کی ایجاد :
ان حقائق کو پیش کرنے کے بعد یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوتی ہے کہ حکومت کے ترجمان نوٹ بندی کی خامیوں کامیابی کا دعویٰ کرتے ہوئے شیخی بگھارنے کی خاطر نئے دلائل کی ایجاد کررہے ہیں حالانکہ ان کے دعوے حقیقت سے بعید ہیں۔
ان ترجمانوں کے جو دلائل ہیں اس میں سے ایک دلیل ہے وہ بہت زیادہ زور کے ساتھ پیش کررہے ہیں وہ یہ ہے کہ TAX BASE میں اضافہ ہوا ہے۔ سچ ہے! جاریہ مالیاتی سال میں 5.42 کروڑ انکم ٹیکس ریٹرنس داخل کئے گئے لیکن یاد رکھئے ایک کروڑ کلیئر ریٹرنس سے صفر ٹیکس واجبات ادا ہوتے ہیں یعنی کوئی ٹیکس ادا نہیں کیا جاتا۔
اس کے علاوہ ڈائرکٹ ٹیکس رونیو (DTR) صرف 6.6 فیصد ہے جبکہ بجٹ میں 14.4 فیصد کا اضافہ بتایا گیا ہے۔ حکومت ایک اور خیالی پلاؤ پر مبنی دلیل یہ پیش کرتی ہے کہ رقومات کی مشتبہ منتقلی اور ہزاروں لاکھوں اکاؤنٹس پر نظر رکھی گئی ہے اور ان رقمی لین دین و اکاؤنٹس کی تنقیح کی جارہی ہے۔ یہ بہت اچھا اقدام ہے ! لیکن اس تعلق سے عمل کب شروع ہوگا۔ بشمول ایپلیس اور مزید ایپلسوں کا عمل مکمل بھی ہوگا؟ حکومت دراصل آئندہ واقع ہونے والے غیر یقینی حالات پر بہت زیادہ انحصار کرنے لگی ہے اس کے برعکس نوٹ بندی اور حکومت کی معاشی پالیسیوں کے بارے میں عوام کا یہی تاثر ہے کہ انفرادی طور پر عوام اور پھر کاروباری اداروں پر ٹیکس دہشت گردی کا نفاذ عمل میں لایا گیا ہے۔
حکومت کے ترجمان دوسری دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ ملک میں بڑی تیزی سے ڈیجٹائزیشن ہورہا ہے۔ 2013-14 اور 2017-18 کے درمیان ڈیجیٹل لین دین میں سالانہ 14.3 ، 10.7 ، 9.1، 24.4 اور 12فیصد اضافہ ہوا ہے جو نوٹ بندی کی رفتار میں تیزی کا اشارہ ہے۔ اس کے علاوہ ڈیجٹائزیشن دوسرے ملکوں میں بھی بناء کسی رکاوٹ یا خلل کے کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ اس طرح ہندوستان میں بھی نوٹ بندی اور ڈیجٹائزیشن بناء کسی خلل کے کامیاب رہیں گے۔
آر بی آئی نے حال ہی میں جار کردہ اپنی سالانہ رپورٹ میں یہ کہدیا ہے کہ 15,31,000 کروڑ روپئے اسے واپس مل چکے ہیں جس پر عام تاثر یہی ہے کہ نوٹ بندی دراصل ملک کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کیلئے نہیں بلکہ کچھ لوگوں کو ان کی بلیک منی، وائٹ منی میں تبدیلی کرنے کیلئے کی گئی اور ان لوگوں نے اپنی بلیک منی کو بڑے زعم سے بینکوں کے کاؤنٹر کے ذریعہ جمع کرواتے ہوئے وائٹ منی میں بآسانی تبدیل کرلیا۔
pchidambaram.india@gmail.com