کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

طلاق ثلاثہ آرڈیننس …ہندو راشٹر اصل ایجنڈہ
مسلم خواتین سے ہمدردی … مودی اپنی گھر والی سے انصاف کریں

رشیدالدین
ہندوتوا ایجنڈہ پر عمل آوری کے ذریعہ ہندو راشٹر کی تشکیل کی سمت پیش قدمی کرتے ہوئے بی جے پی حکومت نے طلاق ثلاثہ کو کالعدم قرار دیتے ہوئے آرڈیننس کو منظوری دے دی ہے۔ حکومت کو شریعت میں مداخلت اور طلاق ثلاثہ کے ذریعہ سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی اس قدر جلدی ہے کہ اس نے ایک ہی دن میں کابینہ میں آرڈیننس کو منظوری دی اور اسی دن صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند نے دستخط کردیئے۔ سنگھ پریوار اور جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کے نشانہ پر شریعت آج سے نہیں بلکہ جن سنگھ سے بی جے پی کے نام کی تبدیلی سے شریعت کھٹک رہی ہے۔ بابری مسجد اور یکساں سیول کوڈ بی جے پی کے ایجنڈہ میں شامل ہیں۔ بی جے پی کو شریعت میں مداخلت اور اسے نشانہ بنانے کیلئے موقع کی تلاش تھی اور آخر کار طلاق ثلاثہ جیسا حساس مسئلہ ہاتھ آگیا۔ اس مسئلہ پر مسلمانوں میں مسلکی اختلاف رائے کا فائدہ اٹھاکر بآسانی سیاسی کھیل کھیلنے کا موقع مل گیا۔ چند اسلام بیزار اور بے دین قسم کی خواتین اور تنظیموں کا سہارا لیکر یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اسلام میں خواتین کو مساوی درجہ حاصل نہیں ہے۔ اسلام کو مخالف خواتین مذہب کے طور پر عوام کے درمیان پیش کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی اور آرڈیننس کی منظوری اسی سازش کا حصہ ہے۔ لوک سبھا میں بل منظور کرلیا گیا جبکہ راجیہ سبھا میں یہ زیر التواء ہے۔ حکومت کو پارلیمنٹ کے سرمائی سیشن تک انتظار کی فرصت نہیں اسی لئے درمیان میں ہی آرڈیننس منظور کرلیا گیا۔ طلاق ثلاثہ ایسا مسئلہ ہے جس پر شریعت سے ناواقف خواتین کی ہمدردیاں بآسانی حاصل کی جاسکتی ہیں۔ اسلام میں طلاق کو ناپسندیدہ عمل قرار دیا گیا ہے اور جہاں تک ایک وقت میں تین طلاق کا مسئلہ ہے، کسی بھی مسلک نے اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی ۔ مرکز کی جانب سے آرڈیننس کی منظوری از خود کئی سوال کھڑے کرتی ہے۔ طلاق ثلاثہ کو قابل سزا جرم قرار دیتے ہوئے تین سال قید کی گنجائش رکھی گئی جبکہ اس آرڈیننس کا مقصد طلاق ثلاثہ کو کالعدم قرار دینا ہے۔ کس طرح ایک قانون میں دو علحدہ معیارات اختیار کئے جاسکتے ہیں ؟ جب طلاق واقع ہی نہیں ہوئی تو قانون کے اعتبار سے سزا کی گنجائش کیا معنی رکھتی ہے۔ بہ الفاظ دیگر جب جرم ہوا ہی نہیں تو پھر سزا کا سوال کیسے پیدا ہوگا؟ آرڈیننس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت تین طلاق کو تسلیم کر رہی ہے، اسی لئے تو سزا کی گنجائش رکھی گئی ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر حکومت کو آرڈیننس کی عجلت کیا تھی۔ پارلیمنٹ کا سرمائی سیشن قریب ہے ، اس مسئلہ پر مباحث کئے جاسکتے تھے۔ دراصل نریندر مودی حکومت کو انتخابی فائدہ کی فکر لاحق ہے اور وہ آئندہ لوک سبھا انتخابات کیلئے فرقہ وارانہ ایجنڈہ تیار کرچکی ہے۔ گزشتہ چار برسوں کے دوران مودی حکومت کا ایک بھی کام ایسا نہیں جسے کارنامہ قرار دیا جاسکے جس کی بنیاد پر عوامی تائید کے حصول کی توقع کی جاسکے۔ عوام سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل توکجا الٹا عوام پر مہنگائی کا ناقابل برداشت بوجھ عائد کردیا گیا۔ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے بعد مہنگائی نے مودی حکومت کو عوام میں غیر مقبول کردیا ہے۔ حقیقی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے فرقہ وارانہ ایجنڈہ کو آگے کردیا گیا اور طلاق ثلاثہ پر آرڈیننس اس سمت میں پہلا قدم ہے۔ آرڈیننس کا مقصد حکومت کی ناکامیوں کے بارے میں عوامی برہمی کو متنازعہ مسائل کے ذریعہ کم کرنا ہے۔ سنگھ پریوار اچھی طرح جانتا ہے کہ کسی بھی قوم کی تباہی کیلئے اسے مذہب اور تہذیب سے دور کردیا جائے۔ اسی فارمولہ کے تحت طلاق ثلاثہ کے مسئلہ سے شروعات کی گئیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب کبھی شریعت کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کے بجائے اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی گئی تو تباہی اور ذلت اور رسوائی کے ساتھ زوال مقدر بن گیا ۔ جن حالات میں طلاق ثلاثہ آرڈیننس کو منظوری دی گئی، سیاسی مبصرین اسے وسط مدتی انتخابات کی تیاری کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ وزیراعظم کا اپنے حلقہ انتخاب کا دورہ اور وہاں سیاسی تقاریر اور آر ایس ایس کے تین روزہ کانکلیو کے اہتمام کے فوری بعد آرڈیننس کی اجرائی اہمیت کی حامل ہے۔ چار ریاستوں میں اسمبلی انتخابات سے عین قبل آرڈیننس کی اجرائی کو اچانک کیا گیا فیصلہ نہیں بلکہ اسے منصوبہ بند حکمت عملی کہا جاسکتا ہے ۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ چار ریاستوں میں بی جے پی کے خلاف لہر کو دیکھتے ہوئے حکومت نے مذہبی کارڈ کھیلنے کی کوشش کی ہے۔ راجستھان ، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ ایسی ریاستیں ہیں جہاں گزشتہ دنوں ہجومی تشدد کے واقعات پیش آئے ۔ ان واقعات کے سبب پہلے ہی صورتحال فرقہ وارانہ ہوچکی ہے۔ ایسے میں طلاق ثلاثہ کے آرڈیننس کے ذریعہ اس ماحول کو مزید بھڑکانے کی کوشش کی جاسکتی ہے تاکہ کسی طرح ان ریاستوں میں دوبارہ کامیابی حاصل کی جاسکے۔ مبصرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ نریندر مودی لوک سبھا کے وسط مدتی انتخابات کی تیاری کرسکتے ہیں۔ پٹرولیم اشیاء کی قیمتوں میں دن بہ دن اضافہ نے حکومت کے کٹر حامیوں کو بھی مخالفت پر مجبور کردیا ہے۔ ان حالات میں بی جے پی کے پاس ہندو توا ایجنڈہ کی طرف لوٹنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ ہندوتوا کارڈ پر آئندہ عام چناؤ لڑا جائے گا اور ملک میں فرقہ وارانہ منافرت کے ماحول کو مزید ہوا دی جاسکتی ہے۔

طلاق ثلاثہ کو کالعدم قرار دینے کیلئے مرکزی حکومت 22 مسلم ممالک کی مثال پیش کر رہی ہے جہاں تین طلاق کی گنجائش نہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہندوستان کے کسی داخلی معاملہ میں دیگر ممالک کی مثال کس طرح لی جاسکتی ہے۔ اگر کوئی شخص اور خاص طور پر مسلمان کسی معاملہ میں پاکستان یا کسی اور ملک کی مثال پیش کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کرے تو اس پر ملک دشمنی کا الزام تھوپ دیا جاتا ہے لیکن اب اپنے مفاد کیلئے نریندر مودی حکومت ایک دو نہیں بلکہ پاکستان کے بشمول 22 ممالک کی مثال پیش کر رہی ہے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے مودی حکومت کسی بھی ملک کو مثال بناسکتی ہے لیکن وہاں کی دیگر اچھائیوں کو اختیارکرنے کیلئے تیار نہیں۔ اگر مسلم ممالک کو مثال ہی بنانا ہے تو حکومت زانی کو سنگسار کرنے، شرابی کو کوڑے مارنے اور چور کے ہاتھ کاٹنے جیسی سزاؤں کو بھی ہندوستان میں اختیار کریں۔ اس سے نہ صرف جرائم کی شرح میں کمی آئے گی بلکہ معاشرہ میں امن و امان قائم ہوگا۔ شریعت کو نشانہ بنانے کیلئے ہمیشہ خواتین سے ہمدردی کا ڈھونگ کیا جاتا ہے۔ نریندر مودی تو مسلم ’’بہنوں اور بیٹیوں‘‘ کو انصاف دلانے کا لال قلعہ سے عہد کرچکے ہیں۔ یقیناً لال قلعہ کے خطاب کو دنیا بھر میں دیکھا گیا اور خواتین کو مودی کے اس عہد پر ہنسی ضرور آئی ہوگی۔ خاص طور پر وہ خاتون جو مودی کی زندگی میں شریک حیات بن کر آئی تھی لیکن آج مودی اسے شریک حیات کی حیثیت سے تسلیم کرنے اور شناخت دینے سے انکار کر رہے ہیں۔ اس خاتون کو بہنوں اور بیٹیوں کو انصاف دلانے سے متعلق مودی کے اعلان پر حیرت ضرور ہوئی ہوگی۔ خواتین کے حقوق کے خود ساختہ علم برداروں اور مسلم بیٹیوں اور بہنوں کو انصاف دلانے کا بیڑہ اٹھانے والے مودی سے ہمارا سوال ہے کہ آخر ’’گھر والی‘‘ کو انصاف کب ملے گا جو در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کردی گئی ہے۔ کیا اس خاتون کو اس بات کا حق نہیں کہ وہ مودی کے ساتھ ان کی سرکاری قیامگاہ میں زندگی بسر کرے اور ان کے ہر سرکاری دورہ میں شامل ہوتے ہوئے بیرونی ممالک کی تفریح کرے۔ مودی کو مسلم مردوں کو سزا دینے میں دلچسپی ہے لیکن دیگر مذاہب کے ایسے افراد کی سزا کا تعین کون کرے گا جنہوں نے اپنی بیویوں کو بے یار و مددگار اور بے سہارا چھوڑ دیا ہے۔ طلاق ثلاثہ آرڈیننس پر عمل آوری سے پہلے مودی کو خود اپنے لئے سزا کا تعین کرنا چاہئے یا پھر جشودا بین کو مکمل احترام کے ساتھ گھر واپس لائیں جس طرح 7 پھیروں کے فوری بعد ان کی گھر آمد ہوئی تھی۔ کئی خواتین کی تنظیموں نے طلاق ثلاثہ آرڈیننس کے بعد حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایسے افراد کے لئے بھی قانون سازی کے ذریعہ سزا تعین کرے جنہوں نے اپنی بیویوں کو لاوارث چھوڑ دیا ہے۔ مودی حکومت کے اقدامات سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ صرف اسلام میں خواتین کو ان کے حقوق حاصل نہیں ہیں حالانکہ اگر کوئی صدق دل اور نکتہ چینی کے جذبہ کے بغیر اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرے تو اندازہ ہوگا کہ دیگر مذاہب کے مقابلہ اسلام میں عورت کو ہر اعتبار سے بلند مقام دیا گیا ہے۔ جس مذہب میں ماں کے قدموں کے نیچے جنت کا تصور ہے ، اس سے بڑھ کر عورت کا کیا درجہ ہوسکتا ہے۔ سروے کے مطابق اسلام سے زیادہ دیگر مذاہب میں طلاق کی شرح زیادہ ہے اور طلاق کے بغیر ہی لاکھوں کی تعداد میں خواتین کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا ، ان کے ساتھ عدالتوں نے بھی انصاف نہیں کیا۔ مخالف اسلام طاقتوں کے شریعت پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے لیکن افسوس کہ امت مسلمہ اور اس کی قیادت پر سناٹا طاری ہے اور وہ خواب غفلت کا شکار ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مذہب اور شریعت سے ہماری وابستگی صرف رسمی رہ گئی ہے۔ ہمیں ٹاملناڈو کے عوام سے سبق لینا چاہئے جنہوں نے محض ایک روایتی تقریب جلی کٹو کو برقرار رکھنے کیلئے سپریم کورٹ کے فیصلہ کو ماننے سے انکار کردیا اور حکومت اور عدالت کو عوام کے جذبات کے آگے جھکنا پڑا ، حالانکہ یہ کوئی مذہبی تقریب نہیں بلکہ ٹاملناڈو کی تہذیب کا حصہ ہے ۔ اگر مسلمانوں میں بے حسی جاری رہی تو حلالہ اور وراثت کے مسائل میں بھی مداخلت کی جائے گی۔ علامہ اقبال نے شائد آج کے حالات پر ہی کہا تھا ؎
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا