کاروانِ غزل

سعید حسین
آسمان ادب کے تین روشن ستارے جناب منظور الامین ڈاکٹر عقیل ہاشمی جنہوں نے کاروانِ غزل کے نام سے اُردو کی نایاب غزلوں کا انتخاب فرما کر حضرت امیر خسرو کے زمانے سے عصر حاضر کے تمام نامور ، معتبر اور مستند شعراء کرام کے چنندہ غزلیات کو یکجا کرکے پروفیسر منظور عالم کی سرپرستی میں یہ کتاب شائع کر کے جو کارنامہ انجام دیا ہے۔ یہ کتاب تشنگان ادب، شعرائے کرام ،ریسرچ اسکالرس اور ادب کے وہ قاری جو غزل کے شیدائی ہیں اُن تمام کے لئے بہترین تحفہ اور ایک عظیم سرمایہ ہے۔
تحریر اور تقریر میں موزوں اور مناسب الفاظ کی اہمیت مسلمہ ہے۔ ہر لفظ اپنی مخصوص پہچان رکھتا ہے۔ اردو زبان کی شیرینی سے بھلا کسے انکار ہوسکتا ہے۔ ’’اُردو‘‘ الفاظ کے ذخیرے میں سے ایک لفظ ایسا ہے جو اپنی پیاری کشش کی وجہ سے زمانہ قدیم سے ماحول کو معطر بنا رکھا ہے اور ایک عالم کو متاثر کیا ہوا ہے۔ وہ لفظ ہے۔ ’’غزل‘‘۔
غزل… اُردو شاعری کی اہم ترین صنف ہے۔ جو اُردو نہیں جانتے وہ بھی غزل کے دیوانے ہیں۔ تب ہی تو پدم شری پروفیسر رشید احمد صدیقی نے کہا۔ ’’غزل اُردو زبان کی آبرو ہے‘‘۔
ہم سے پوچھو کہ غزل کیا، غزل کا فن کیا
چند لفظوں میں کوئی آگ چھپادی جائے
خورشید احمد جامیؔ کا دعویٰ ہے ؎
نئی راہیں، نئے شعلے نیا اسلوب دیتا ہوں
غزل کی آبرو کو وقت کا مکتوب دیتا ہوں
شاعری بھی اتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ زبانیں۔ عربی، یونانی اور سنسکرت ساری زبانوں کی مائیں ہیں۔ سبھی زبانوں کے ہاں شعری سرمایہ کی کمی نہیں۔ اردو اور انگریزی بذات خود زبان نہیں بلکہ دیگر زبانوں کے سلیس الفاظ کا مجموعہ ہیں۔ اسی لئے آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہیں اور تیزی سے پھیل بھی گئی ہیں۔
شعری مزاج و آہنگ کی رہنمائی کرنے والی پہلی تنقیدی تصنیف مولانا الطاف حسین حالیؔ کی ’’مقدمہ شعر و شاعری‘‘ ہے۔ اردو تنقید کے دبستان کا آغاز یہیں سے ہوتا ہے۔
غزل قصیدے کی ’’دختر نیک اختر‘ ہے۔ مدحیہ قصیدہ میں جو مشبب یا بہار یہ حصہ ہوتا ہے وہ حمد اور نعت شریف کے بعد آتا ہے۔ جسے تمہید یہ بھی کہتے ہیں۔ اس بہار یہ حصہ میں مناظرِ قدرت، باغ و بہار کا بیان بہت ہی عمدگی، حسین و دلکش انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ یہی قصیدہ کا جز علیحدہ ہوکر ’’غزل‘‘ کہلاتا ہے۔ عربی میں بھی غزل کے قدیم سے قدیم نمونے ملتے ہیں۔ جس طرح ایرانی شعراء نے قصیدے کو اپنایا اسی طرح غزل کو بھی اپنایا اور غزل میں اتنے تجربے کئے کہ غزل کو غزل بنادیا۔ غزل عربی لفظ ہے جس کے ایک معنی ہیں۔ ’’کاتنا‘‘، ’’رسی بٹنا‘‘ یا ’’سوت ریشی‘‘ کرنا۔ دوسرے معنی ہیں ’’عورتوں سے گفتگو کرنا‘‘۔ تیسرے معنی ہیں ’’ہرن کی وہ آواز کہ جب شیر ہرن کا شکار کرکے گردن دبوچ لیتا ہے، تب ہرن کی آخری لمحوں والی درد ناک آواز نکل جاتی ہے۔ اسی آواز کو ’’غزل‘‘ کہتے ہیں اور چوتھے معنی ہیں ’’عشق و عاشقی کی وہ باتیں کوئی مرد کسی عورت سے کرتا ہے۔‘‘
اسی طرح دوبارہ رشید احمد صدیقی کی یاد دہانی کرتے ہوئے ان کے قول کو شعری جامہ سے نوازا ابوعلی الکندی نے۔ ان کا شعر ہے ؎
بہت ہیں یوں تو اصنافِ سخن پر
غزل ہی شاعری کی آبرو ہے
کئی نئے پرانے اصناف سخن کی موجودگی کے باوجود غزل کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوتا رہا جبکہ غزل بہت ہی قدیم صنف سخن ہونے کے باوجود ’’سدا بہار‘‘ اور پرُکشش صنف رہی۔ عرب، ایران اور ہندوستان میں بہت سے اتار چڑھاؤ دیکھے۔ اب تو پاکستان کے علاوہ اُردو کی ساری بین الاقوامی نئی بستیوں میں بھی غزل کا بول بالا ہے ؎
غزل ہماری تہذیب و سخاوت کی روح ہے اس کے ذریعہ تسکین، آسودگی و مسرت کا حصول ممکن ہے۔ اس میں فنی اعتبار سے اجمال و اختصار، اشاروں، کنایوں کا جادو اپنا اثر دکھاتا ہے۔ اُردو اصناف شاعری میں غزل گوئی ایک عظیم و مضبوط روایت رہی ہے۔ کیونکہ اس میں انداز دلبری اور طرز دلربائی بھی ہے اس کے اس اثر سے شاید ہی کوئی بچ سکا ہو۔ کیا غریب، کیا امیر، کیا مفلس، کیا تونگر، عوام اور خواص ہر ایک اس کا دلدادہ ہے اور اس کا عاشق ہے۔ بقول شخصے…
صوفیوں کی محفل میں اس نے ہنگامے برپا کئے ،رندوں اور قلندروں کو اس نے اپنا گرویدہ بنالیا ذاہدان پاک بازوں کے دلوں پر اس کا قبضہ رہا۔ اس کی ہمہ گیری، معاملاتِ حسن و عشق کی مختلف کیفیات کی ترجمان رہتی ہے۔ جبکہ زندگی کے نشیب و فراز کی وہ تصویر کشی میں پیش پیش رہی۔ اس کی مقبولیت کا راز اس کے متنوع موضوعات سے زیادہ اس کے نرم و نازک، شبنمی لب و لہجہ، دلنشین بہاروں میں پوشیدہ ہے، نیز اس کی ترنم ریزی و موسیقیت احساس جمالی فرحت و لذت سبھی کچھ شامل ہے۔اس تمہیدی گفتگو کا منشاء و مقصد ایک ایسے انتخاب کے بارے میں لب کشائی کرنا ہے جس کو ’’کاروان غزل‘‘ کے نام سے ان دانشور حضرات نے ترتیب دیا ہے۔
اردو ادبیات کی کئی ایک اصناف ہیں، جنہیں اردو ادیب برسہا برس سے برتتے چلے آئے ہیں۔ ان اصناف میں ایک مہتم بالشان صنف غزل ہے، جو اردو کے ادیبوں اور شاعروں میں بہت مقبول رہی ہے۔ کسی شاعر نے کہا ہے:
غزل اُس نے چھیڑی مجھے ساز دینا
ذرا عمر رفتہ کو آواز دینا
قد آور معتبر قلم کار اسلوب کی فنکارانہ ہنر مندی سے واقف ہیں۔ ان کا کلام حیات و کائنات سے مطابقت رکھتا ہے، ان کی فکر اعلیٰ و ارفع اور کلاسیکی ہوتی ہے۔ ماہرین لسانیات کہتے ہیں کہ زبان کا ایک نامیاتی وجود ہوتا ہے، جو فطرت کے ابدی قانون کے تحت اپنا سفر طے کرتا رہتا ہے۔
کاروان غزل سنگیت کے چاہنے والوں اور گلوکاروں کے لئے بہت کارآمد تحفہ ہے۔
کتاب کے مرتبین کا مقصد یہ نہیں ہوتا ہے کہ جو بھی کتاب انہوں نے ترتیب دی یا لکھی ہے اس سے ان کا نام ہو یا اور کسی قسم کا مفاد ہو بلکہ وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ جو کتاب انہوں نے لکھی یا ترتیب دی ہے۔ اس سے عوام الناس، قارئین اور اردو داں حضرات کو اس کا سب سے زیادہ فائدہ پہنچے۔
مثال کے طور پر اس کتاب میں جن شعرائے کرام کی منتخب غزلیات کو پیش کیا گیا جن میں کی اکثر غزلیات کو نامور گلوکاروں نے گار کر دادِ تحسین حاصل کی ہے۔
مثال کے طور پر داغ دہلوی کی غزل
غضب کیا تیرے وعدہ پہ اعتبار کیا
تمام رات قیامت کا انتظار کیا
الطاف حسین حالی
ہے جستجو کے خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹھہرتی ہے دیکھئے جا کر نظر کہاں
مرزا غالب
یہ نہ تھی ہماری قسمت کے وصال یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
آہ کو چاہئے ایک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک
آتش
سن تو صحیح جہاں میں ہے تیر ا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا
کاروان غزل تقریباً 750 صفحات پر مشتمل ہے اس میں حضرت امیر خسرو سے لے کر عصر حاضر تک کے 70 شعرائے کرام کی مقبول، مشہور اور مستند غزلیات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ یہ کتاب ایک ایسا سرمایہ ہے جو اردو داں حضرات کے لئے ایک ہی کتاب میں تمام مشہور شعرائے کرام کی مشہور غزلیات مل جائیں گی۔ ان ہی اردو غزلیات کو ہندی رسم الخط میں ڈاکٹر افسر النساء بیگم صاحبہ کی نگرانی اور سرپرستی میں شائع کیا گیا ہے اور اس پورے کاروان کے روح رواں پروفیسر منظور عالم صاحب ہیں جو کسی تعارف کے محتاج نہیں اور اس کتاب کو ’’انڈین اسکول آف ایکسیلینس گلشن کالونی ٹولی چوکی نے شائع کیا ہے۔
مندرجہ بالا تمام اصحاب اس کارنامہ کو شائع کرکے منظر عام پر لانے کے لئے مبارکباد کے مستحق ہیں ۔کتاب کی طباعت بہت ہی عمدہ ہے۔ سرورق بہت ہی دیدہ زیب ہے۔