کائنات سخن کا ایک معتبر نام : ضرروصفی

ڈاکٹر وصی مکرانی ، نیپال
حیدرآباد کی سرزمین ادبی و شعری لحاظ سے بڑی زرخیز ہے۔ حیدرآباد کی ادبی تاریخ بہت پرانی ہے، وہاں کی شعری فضاؤں میں قدیم و جدید شعراء حضرات بڑے انمول اور بیش بہا تخلیقات کے جواہر پارے جمع کردیئے ہیں۔ اسی فہرست میں جناب ضرروصفی کا نام منفرد و معتبر شناخت کا حامل ہے۔ افتخار امام صدیقی خود بھی بڑے اچھے ادیب اور مستند شاعر ہیں ، ضرروصفی کے تعلق سے بڑی اچھی رائے رکھتے ہیں۔ ان کے کلام پر علی احمد جلیلی نے اپنے تبصرہ میں ضرروصفی کی تنقیدی بصیرت پر بہت ہی مفید گفتگو کی ہے۔ عشرت ظفر نے بھی ان کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ فرحت حسین خوشدل نے ضرروصفی کو نئے شعری آفاق کو روشن کرنے والا ایک ایسا فنکار قرار دیا جو اردو شعر و ادب کی بساط پر اپنی منفرد آواز اور صالح فکر کی ترجمانی کرتا ہے۔ مگر ان کی فکری ارتقاء وسعت کی معراج ابھی باقی ہے۔ پروفیسر احتشام اختر نے ان کے کلام میں حیدرآباد کی ثقافت کا رکھ رکھاؤ اور وضع داری کا ذکر کیا ہے۔ ان کے کلام کو حیدرآباد کی بریانی کی طرح لذیذ اور لطیف قرار دیا ہے۔ افتخار امام صدیقی نے اپنے ماہنامہ شاعر ممبئی دسمبر 2007ء کے شمارہ میں ان کا خصوصی مطالعہ ’’کل آج اور کل ‘‘کے عنوان سے شائع کیا تھا۔ سبق اردو الہ آباد نے ان پر ایک خصوصی گوشہ شائع کیا ہے۔ اسباق میں بھی نذیر فتحپوری نے ان کا مختصر گوشہ نکالا ہے۔ ساتھ میں ’’ رنگ ‘‘ نے بھی ان کے تعارف میں اپنا کردار نبھایاہے۔
تقریباً 5دہائیوں سے شعری ادب کے گیسوئے خمدار کو سلجھانے اور اپنی فکری بصیرت کی خوشبوئیں بکھیرتے ہوئے شاہراہ شعر و ادب پر گامزن ہیں۔ اپنے شعری سفر کے 25/30 سال بڑے ہی صبر وتحمل اور ضبط سے کام لیا ہے نہ کبھی ہما ہمی کی تگ و دو میں رہے اور نہ کبھی ستائش کی تمنا کی۔ ان کی محنت و ریاضت کا ذائق اب انہیں مل رہا ہے۔
ادبی ورسائل و جرائد میں متواتر چھپ رہے ہیں۔ اور اسی سے ان کی شعری حیثیت قائم و دائم ہے۔ جہاں تک ان کے بارے میں میں نے سمجھا اور جانا ہے وہ ایک سادہ لوح انسان، مخلص دوست، بے لوث خادم اردو، نہ کوئی آرزو نہ کوئی تمنا، ان کی کارکردگی خلوص پر مبنی ہے۔ ’’ حرف حرف لہو لہو ‘‘ سے پیشتر بھی شعری مجموعہ ہائے گل خند ان ذکر کیا ہے مگر میں نے دیکھا نہیں ہے مگر ادباء و شعراء حضرات کے تاثرات سے اندازہ لوانا دشوار نہیں کہ اس کی ابھی اہمیت و حیثیت کم نہیں ہے۔ ’’ حرف حرف لہو لہو ‘‘ میں بھی ایسے بہت سے اشاعر ہیں جو درِ دل پر دستک دیتے رہتے ہیں۔ اس مجموعہ میں شامل نظمیں موثر اور دلپذیر ہیں۔ غزلوں کے اشعار میں جو دلکشی اور چاشنی ہے اس کا انوکھا ذائقہ دہن و دماغ کو عطر بار کرتا رہتا ہے۔ چند اشاعر ملاحظہ کیجئے:
میں ایک قطرۂ نشیاں تھا اے ضرر وصفی
دکھادیا ہے صدف نے مجھے گہر کرکے
ہیرے موتی میں مت تول
شعر ضرر کے ہیں انمول
لوری بچپن ماں کی گود
کہاں ملیں گے بس وہ بول
لب ان کے لبوں سے جو مس ہوگئے
مہکتے گلابوں کا رس ہوگئے
وہ دمکتا بدن جوانی میں
دودھیا جسم نیلے پانی میں
ہیں گہر گہرے سمندر کے صدف میں پنہاں
منکشف ہونہ سکے لوگوں پہ اوصاف میرے
یوں تو سبھی اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ہے مگر اصل میں ضرروصفی غزل کے شاعر ہیں اور غزل ہی میں ان کے فنی جوہر نکھرے ہیں۔ شاعری میں نسبت خاص کے تعلق سے ضررصاحب خود کہتے ہیں کہ:
نسبت خاص میں رکھتا ہوں غزل سے ہی ضرر
ہیں پسندیدہ سخن میں سبھی اصناف مرے
آجکل رسائل میں گوشے نکالنے اور نکلوانے کی ایک مہم چلی ہوئی ہے ۔ رسائل کے مدیران رسالوں کی بقاء کی خاطر شعراء حضرات کو خود مدعو کرتے رہتے ہیں۔ اور ایسے مدیران سے اہل ثروت شعراء حضرات اپنے گوشے نکلوانے کی حرص و ہوس میں خزانہ کا منہ کھول دیتے ہیں۔ مگر کیا آجکل جتنے گوشے نکل رہے ہیں سبھی غلط ہیں، ایسے تمام صاحبِ گو شاعر واقعی بے وقت اور غیر معیاری ہی ہوتے ہیں۔ پرانے وقتوں میں بھی تمام بڑے معتبر و مستند شعراء پر کیا گوشے نکالے گئے۔ آج کے عہد میں بھی کئی معتبر شاعر پردۂ راز میں چھپے بیٹھے ہیں۔ اچھے اور معیاری اشعار کہنے، گوشہ نشینی اختیار کرنے، شعری محفل، ادبی سرکل سے دور رہنے، رسائل و جرائد میں نہ چھپنے یا معیاری شعری مجموعہ شائع نہ کرنے اور خود کو خود سے بڑا کہنے سے کوئی شاعر بڑا نہیں ہوتا۔
فراق گورکھپوری کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ اپنے اور اپنی شاعری کے بارے میں دوسروں کے نام سے مضامین خود لکھ کر شائع کرواتے تھے اور آج کے عہد میں بھی ایسے حضرات کی کمی نہیں جو دوسروں کیلئے P.HD. کی تھیسیس لکھ رہے ہیں۔ میں نام لینا نہیں چاہتا۔ میرے پاس کئی P.HD. اردو میں پی ایچ ڈی حضرات کی تحریریں موجود ہیں جنہیں دیکھ کر اور پڑھ کر افسوس ہوتا ہے کہ اگر ایسے لوگ اردو کے ڈاکٹر ہوں گے تو اردو کا مستقبل کیسا ہوگا۔؟
بہر کف تو میں بات کررہا تھا ’’ حرف حرف لہو لہو ‘‘ کی اور شاعر ضرر وصفی کی شاعری کی۔ ان کے کلام میں پختگی ، شائستگی ، سادگی اور پرکاری کے ساتھ لطافت بھی ہے۔ کہییں جوانی کے ایام کے جذباتی لمحوں کی کسک ہے تو کہیں پیری کے عہد کی تجربہ کاری کا عکس بھی ہے۔ زمانے کے ہنگاموں، قومی ہم آہنگی ، ہمدردی، محبت ، انسانیت کی کمی کا احساس شاعر کو پژمردہ کردیتا ہے تو کہیں معاشرے میں بھائی چارگی ، میل ملاپ کے خوشگوار ماحول کو دیکھ کر ان کی شاعری میں مسرت کی بہاریں مسکراتی اور نظارے گنگناتے بھی نظر آتے ہیں۔ عمر کے حساب سے تجربات اور مشاہدات اور محسوسات کی جلوہ ریزیاں ان کی شاعرانہ عظمت کو مستحکم کرتی ہیں۔ انسان کرنا تو بہت کچھ چاہتا ہے مگر اس کی زندگی کا وقت متعین ہے جتنا کچھ بھی کرے آخری وقت یہی احساس لئے کف افسوس ملتے ہوئے کہ میں نے کچھ نہیں کیا، سونچتے ہوئے اس دار فانی سے کوچ کرجاتا ہے۔ لیکن اس کی تحریروں سے آنے والی نسلوں کو بہت کچھ مل جاتا ہے اور صاحب ذوق اس سے مستفیض ہوتے رہتے ہیں۔ خداوند قدوس ضرر صاحب کو ہر ضرر سے محفوظ اور سلامت رکھے اور صحت و تندرستی کے ساتھ عمر دراز کرے۔ ( آمین ثم آمین )