ڈاکٹر منیر الزماں منیر ۔ ایک مطالعہ

پروفیسر میر تراب علی
ڈاکٹر منیر الزماں منیر کی شخصیت کی تشکیل میں خاندانی روایات ، مستعد پورہ اسکول کا ادبی ماحول ، حیدرآباد کے تہذیبی عناصر اور جامعہ عثمانیہ کی علمی و ادبی روایات نے اہم کردار ادا کیا ہے ۔
منیر صاحب کا بچپن مستعد پورہ میں اس وقت پروان چڑھا جب خواب معاشرہ کی سمت و رفتار کا تعین کرتے تھے ۔ اس معصومیت میں جب شعور جاگا تو سارے خواب حقائق سے ٹکرا کر پاش پاش ہوچکے تھے ۔ زندگی کی دھوپ جب آنکھوں میں اتری تو اذیتوں کے لب وا ہوگئے ۔ منظر چبھنے لگے ، خواب اپنی بے بسی کا اعلان کرنے لگے ۔ فرماتے ہیں ۔

ہر اعتبار کی حد سے گذر گیا کب کا
جو خواب دیکھا تھا میں نے بکھر گیا کب کا
منیر صاحب کی شخصیت کا نمایاں پہلو دردمندی ، شرافت اور انکساری ہے ۔ انکی شخصیت ایک کھلی کتاب کی طرح ہے جس میں تہہ داری بھی ہے اور گہرائی بھی ، اعتدال بھی ہے اور اعتماد بھی ، رواداری بھی ہے اور خود داری بھی ۔ یہ عزتیں اور یہ وقار ایک دن میں تونہیں مل جاتا ہے ۔ اس کے لئے کڑی تپسیا ، سخت محنت اور دھوپ دھوپ چلنے کا خوگر بننا پڑتا ہے ۔
بقول اردو کے عالمی شہرت یافتہ طنز و مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی ’’جب آدمی کو یہ نہ معلوم ہو کہ اس کی نال کہاں گڑی ہے اور پرکھوں کی ہڈیاں کہاں دفن ہیں وہ تو منی پلانٹ کی طرح ہوجاتا ہے جو مٹی کے بغیر صرف بوتلوں میں پھلتا پھولتا ہے‘‘ ۔
امریکہ جسے مادیت کا صدر مقام ہونے کا شرف حاصل ہے ۔ڈالر ، گلیمر ، دولت کی ہوس اور انفرادی زندگی کے مسائل نے خود سے ہٹ کردیکھنے یا سوچنے کا حوصلہ ہی نہیں رکھا ہے ۔ بشیر بدر کے لفظوں میں

خدا ہم کو ایسی خدائی نہ دے
کہ اپنے سوا کچھ دکھائی نہ دے
مجھے بے حد خوشی اور فخر ہے کہ منیر صاحب اس جلتے الاؤ سے اپنا دامن بچاگئے ۔ شکاگو میں رہ کر حیدرآباد کو جینا بڑے حوصلے کا کام ہے ۔ وہ شکاگو میں اردو زبان ، ادب ، تہذیب کی بقا اور استحکام کے لئے ہمہ تن مصروف رہتے ہیں ۔ منیر صاحب شکاگو میں حیدرآباد کے اچھے ادبی سفارت کار ہیں ۔ شکاگو کے شعراء اور نثر نگاروں کی تخلیقات کو حیدرآباد سے شائع کرواتے ہیں ۔ انکی شخصیت ایک طرح سے حیدرآباد اور شکاگو کے درمیان ایک ادبی پل کی حیثیت رکھتی ہے ۔ جگر مرادآبادی کے الفاظ میں
اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں
فیضان محبت عام تو ہے عرفان محبت عام نہیں
منیر صاحب بنیادی طور پر ایک تخلیق کار ہیں انکی غزل اپنے لہجے کی تازگی اور شفافیت کے سبب ایک نمایاں مقام رکھتی ہے ۔ ہر اچھے تخلیق کار کی طرح انکا تنقیدی و تحقیقی شعور بھی کافی متوازن اور نکھرا ہوا ہے ۔

منیر صاحب کی غزل کا کمال یہ ہے کہ انکی غزل میں غم مسکراتا نظر آتا ہے ۔ خیال خوشبو کی طرح مہکتا ہے ۔ آنسو دامن پر ستاروں کی مانند چمکتے ہیں اور درد تہذیب کی شکل اختیار کرکے مہذب گفتگو کرنے لگتا ہے ۔ انکا انداز دیکھئے ۔
احساس کے بدن میں ابھی ارتعاش ہے
انسانیت کی آنکھ میں باقی ہے دم ابھی
یہ واقعہ ہے کہ ہر شاعر اشعار کی تخلیق کرتا ہے لیکن یہ بھی واقعہ ہے کہ کچھ اشعار شاعر کی تخلیق کرتے ہیں ۔ یعنی شاعر کو شناخت ہی نہیں بلکہ ایک معتبر مقام اور منصب عطا کرتے ہیں ۔ منیر کی غزل گوئی کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے غزل کو غزل ہی رہنے دیا اور اپنی غزل کے افکار و اظہار کو غم و غصہ کا برہنہ پیکر نہیں بنادیا ۔ بات یہ ہے کہ غزل میں کوئی جدت یا تجربہ تغزل کی قیمت پر نہیں کیا جاسکتا ۔ اقبال اشہر نے خوب کہا ہے ۔

یہ پھول پھول سا لہجہ سنبھال کر رکھئے
یہاں تو اونچی صداؤں کا بول بالا ہے
منیر کا انداز دیکھئے
میں آئینہ ہوں مجھے دیکھو کتنا سچا ہوں
مری نگاہ کا رشتہ جمالیات سے ہے
بے شک جمالیاتی حس بیچ کر ہم زندہ رہیں بھی تو کیسے ؟ اور کب تک؟ یہ زندگی تمام تر کھردری سچائیوں ، گوناگوں مسائل ، کانٹا کانٹا مراحل کے باوجود بڑی حسین ہے ۔ منیر کے دو اشعار ملاحظہ فرمایئے۔
اس لئے مہکتا ہے خوشبوؤں سے پیرہن
آپ کے محلے میں میرا آنا جانا ہے
گلوں میں اک نئے انداز کی مہک ہوگی
جو چھوکے ان کا بدن باد نو بہار چلے
اعلی انسانی اقدار کی برتر سوجھ بوجھ پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ادب اور آرٹ کے توسط سے ہماری روزمرہ زندگی کے معمولی پن میں جمالیاتی امکانات روشن کئے جاتے رہیں ۔

منیر کی غزل میں شامل کردار اپنے زمینی رقبہ مزاج و انداز کے لحاظ سے وحشتوں میں دشت آباد کرتے ہیں نہ رات دن غم ہجر میں رو رو کر خود کو برباد کرتے ہیں ۔ ان میں زندگی کرنے کا حوصلہ بھی ہے اور زندگی کے تضادات میں شخصی ہم آہنگی پیدا کرنے کا سماجی شعور بھی مقابلتاً زیادہ ہے۔
چند اشعار دیکھئے
ہوائیں شہر کی دیواریں جب گرادیں گی
اداسیاں ہی مرے حوصلے بڑھادیں گی
تمہیں یہ غم ہے رئیسوں سے سلسلہ نہ ملا
مجھے خوشی ہے فقیروں کے گھر سے کیا نہ ملا
کیا ہوا زندگی گر دار پہ یہ چڑھ بھی گئی
سربلندی رہی مقتل میں بھی دیوانوں کی
اصل میں غزل میں فکشن کی ایک دنیا آباد ہے ۔ غزل کا شاعر غزل کی جن روایات سے متاثر ہوتا ہے ، ان میں فکشن کی روایت سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔

منیر کے اشعار میں جو چھوٹی چھوٹی کہانیوں جیسے لمحے سانس لیتے محسوس ہوتے ہیں جو رشتے اور ضابطے بنتے بگڑتے دکھائی دیتے ہیں ان میں شخصی شب و روز کی نرمیاں بھی ہیں اور بدلتی ہوئی قدروں کی گرمیاں بھی ہیں ۔
حالات کے چہرے پہ کڑی دھوپ ہے کیسی
دیکھو ذرا دیوار کے سائے سے نکل کے
اکثر بلندیوں سے رہی میری گفتگو
پرواز کا شعور مرے بال و پر میں تھا
میں اپنی روشنی خود ہی تلاش کرلوں گا
تو اپنے ساتھ ہی یہ کاسۂ نظر لے جا
منیر صاحب کے یہاں فکر و احساس کی صداقت اور ان کے اظہار میں ایسی تہذیبی متانت ہے کہ وہ عصری مسائل ، ماضی کے تجربات اور مستقبل کے جوابوں کو شعری پیکر عطا کرتے ہیں ۔