ڈاکٹر مسعود جعفری معتبر شاعر مومن خاں شوق کا نیا شعری مجموعہ

متاع شوق
ملے پلی کی وسیع و عریض ، پرشکوہ مسجد کے باب الداخلہ کی بائیں جانب سڑک کے کنارے ایک اودا دروازہ ہے ۔ اس کی دیوار پر ایک تختی آویزاں ہے اور اس پر شاہین ہال لکھا ہوا ہے ۔ یہ ہے حیدرآباد کے مشہور و معروف شاعر مومن خاں کا کاشانہ ۔ پرہجوم پتلی سڑک کے کنارے شاہین ہال کئی ادبی و تہذیبی محافل کی منہ بولتی نشانی ہے ۔ اس میں کئی مذاکرات ، کئی مشاعروں کی روداد اور واہ واہ مضمر ہے ۔ اقبال کے پاس شاہین ایک پرندہ ہے ۔ مومن خان شوق کے پاس شاہین ایک مل بیٹھنے کی جگہ ہے ۔ ان کا اصل نام مومن خاں ہے ۔ وہ شوق تخلص فرماتے ہیں۔ ان کی شاعری کا سفر 1970 ء کی دہائی سے شروع ہوا جو تادم تحریر جاری ہے ۔ ان کے اب تک چھ شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ انہیں زودگو شاعر کہا جاسکتا ہے ۔ اس تیز رفتاری کے باوجود ان کی شاعری میں اعتدال ، توازن ، احتیاط ، ضبط و تحمل کے Shades ملتے ہیں۔ ا نہوں نے غزل کی خوبصورتی ، اشاریت ، نزاکت اور رعنائی کو برقرار رکھا ہے۔ زبان و بیان سبک اور دلنشیں ہے۔ وہ غزل کی روایتوں کا لحاظ رکھتے ہیں، غزل کے پیکر کو مجروح ہونے نہیں دیتے ۔ نئے تجربات کے نام پر لفظوں سے کھلواڑ نہیں کرتے ۔ ٹامانوس تراکیب کلام کو گنجلک نہیں بناتیں۔ ترسیل و ابلاغ کا بحران پیدا نہیں کرتیں۔ شوق کی زبان سیدھی سادھی اور ازروئے قواعد ہوتی ہے۔ وہ لسانی چہرہ دستیوں سے اجتناب کرتے ہوئے شعر گوئی کرتے ہیں۔ اسی لئے ان کے شعر راست دل میں اترتے چلے جاتے ہے ں۔ ان کی شاعری میں عیوب کے کانٹوں سے زیادہ محاسن کے لعل و گہر ملتے ہیں۔ انہیں اظہار خیال پر ملکہ ہے ۔ انہیں ہر گام پر شائستگی کی فکر دامن گیر رہتی ہے۔ وہ شوقیانہ مضامین سے بچتے ہوئے پاکیزہ افکار عالیہ کو اشعار کے سانچے میں ڈھالتے ہیں۔ اسی منزل پر وہ منفرد لب و لہجہ کے شاعر بن جاتے ہیں۔ ان کی شاعرانہ شخصیت جسد ہوجاتی ہے ۔ وہ چشم بددور بن جاتی ہے۔ 8 جولائی 2018 ء کی سہ پہر اپنے جلو میں حشر سامانیاں لئے ہوئے تھی ۔ شوق صاحب کے منتخبہ کلام متاع شوق کی رسم رونمائی تھی ۔ شہر کی نامور ادبی ہستیاں خراماں خراماں صفدریہ مدرسہ اناث کے صغرا ہال میں رونق افروز ہورہی تھیں۔ ان میں کچھ این آر آئی شخصیتیں بھی تھیں۔ صحیفہ نگار بھی تھے ۔ آنے والوں میں پروفیسر اور دانشور بھی تھے۔ تعلیمی درس گاہوں کے صدور بھی کتاب کی رسم اجراء تزک و احتشام سے ہوئی ۔ تالیوں کی گونج سے کشادہ ہال گونج گونج اٹھا۔ شوق نے وفور شوق میں اپنے منتخبہ کلام میں حمد ، نعت ، سلام ، قطعات ، نظمیں اور غزلیں رکھی ہیں ۔ شوق بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔ تاہم انہوں نے موضوعاتی نظمیں بھی کہی ہیں جو اس میں شریک کی گئی ہیں۔ شوق کا سماجی و سیاسی شعور بہت گہرا ہے ۔ اس کا جیتا جاگتا ثبوت و تاریخی نظمیں ہیں جو انہوں نے جواہر لعل نہرو ، مولانا آزاد ، سر سیداحمد خان ، بہادر شاہ ظفر کی شخصیت پر منظوم کی ہیں۔ اپنے اسلاف کی عظمتوں اور بلندیوں کو تسلیم کرنا، انہیں بھرپور خراج عقیدت پیش کرنا ، شوق کی ذہنی پختگی ، نظر کی بلوغت اور اونچے کردار کی گواہی ہے۔ نہرو پر لکھی گئی نظم کا ایک بند ملاحظہ کیجئے۔
نہرو جدید ہند کے معمار اولیں
وہ آبشار نور چمکتی ہوئی جبیں
وہ شانتی کا پاسباں وہ پیار کا امیں
تھی گفتگو بھی ان کی دلآویز دل نشیں
شوق نے حیدرآباد کی ممتاز شاعرہ بانو طاہرہ سعید کی رحلت پر نہایت پر اثر نظم لکھی ہے ، اس کا آخری بند دیکھئے ۔
وہ دیدہ ور تھیں اور محبت شناس شاعر تھیں
رباعی اور غزل میں بلا کی ماہر تھیں
وہ جاچکیں تو خلاء سا ہوا ہے محفل میں
چہار سمت میں جلوہ تھا اور ظاہر تھیں
شوق نے حقیقت افروز نذرانہ عقیدت بانو طاہرہ سعید کو پیش کیا ہے ۔ ایک ایک لفظ تاثیر میں ڈوبا ہوا ہے ۔ مومن خاں شوق کی محبوب صنف سخن غزل ہے۔ غزل غالب و میر سے لے کر شوق تک اپنی آب و تاب کے ساتھ زندہ و تابندہ ہے۔ شوق نے غزل میں عصری حسیت پیدا کردی ہے۔ اسے ایک نیا بانکپن ایک نئی قبا ایک نیا پیرہن عطا کیا ہے۔ ان کی غزل کے تیور تیکھے ترش بھی ہیں اور دلنواز بھی ۔ انہوں نے غزل کی روایت کو باقی رکھتے ہوئے اس کی پاسداری کی ہے۔ شوق کا مشاہدہ عمیق اور تجربہ متنوع ہے۔ لہجہ مانوس اور طرز اسلوب پیارا پیارا سا ہے۔ غزلوں میں جذبات کی دھیمی دھیمی آنچ لپکتی دکھائی دیتی ہے۔ رفاقتوں کااحساس جگہ جگہ ہوتا ہے۔ احساس زیاں مفقود رشتوں کی کہکشاں پھیلی ہوئی ہے۔ وہ اپنے ہمسفروں کو یاد دلاتے ہیں۔ انہیں سوچ کے جزیرے میں لے چلتے ہیں ۔ رہزن سے باخبر رہنے کا اشارہ کرتے ہیں۔
چلچلاتی دھوپ ہے وہ پیڑ کا سایہ نہیں
ہم نے سمجھایا بہت تھا آپ نے سمجھا نہیں
شوق سرزمین دکن کی قوت صیقل ، اس کی طلسماتی کشش کا بیان کرتے ہیں او رایک تاریخی حقیقت کو واشگاف فرماتے ہیں۔ داغ ، امیر مینائی ، فانی ، حیرت بدایونی ، نریندر لوتھر ، شمالی ہند سے وارد ہوئے اور حیدرآباد کی آغوش میں بیٹھ گئے ۔ دکن کی مٹی کی بھینی بھینی مہک ان کی مشام جاں کو معطر کرتی رہی۔ لوتھر کو چھوڑ کر سبھی سخن کے ستارے دکن کی خاک میں محو خواب ہیں۔ شوق اس زمینی سچائی کو یوں شعری قابل میں ڈھالتے ہیں۔
یہ دکن کی سر زمیں کا سب سے روشن وصف ہے
جو بھی آتا ہے یہاں وہ لوٹ کر جاتا نہیں
مومن خاں شوق کی ادبی خدمات بھی یادگار ہیں۔ ان کی انجمن سوغات نظر نے ادب کے چراغ کو فروزاں رکھا ۔ اس ادبی انجمن کے بانی ممتاز شاعر جناب صلاح الدین نیر تھے ۔ وہ ایک عرصہ دراز تک اس بزم کے مربی و سرپرست رہے۔ انہوںنے اس انجمن کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کیا ۔ سوغات نظر نے جہاں شہر کے ادیبوں ، شاعروں کا خیرمقدم کیا وہیں ورنگل ، کریم نگر ، محبوب نگر کے قلمکاروں کی پذیرائی کی ۔ بہت سے نئے شاعروں کو متعارف کرایا ۔ ان کی شاعری کو Limelight میں لایا۔ ان ہیں ایک نئی اڑان عطا کی ۔ اضلاع کے اہل قلم کی اہمیت کو مانا اور انہیں ایک اعتبار بخشا۔ شوق نے مختلف النوع عنوانات جیسے شاعری کی عصری معنویت ، شاعروں کی سماجی ذمہ داریاں وغیرہ پر مذاکرات کا شاہین ہال میں اہتمام کیا۔ شاعروں کے ساتھ شاعرات بھی سوغات نظر کی محافل میں مدعو کی جاتی رہیں۔ اس بزم کے بہت سے ادبی اجلاس ڈاکٹر صادق نقوی اور پروفیسر میر تراب علی کی صدارت میں منعقد ہوئے۔ حیدرآباد کے سبھی اہم شاعر سوغات نظر میں آتے رہے۔ ان میں جناب صلاح الدین نیر ، ریس اختر ، سردار اثر، مجتبیٰ فہیم ، سلیم عابدی ، حلیم بابر ، حفیظ انجم ، اقبال شیدائی ، جمیل نظام آبادی ، شفیع اقبال ، صادق نوید، رحمت سکندرآبادی ، مسعود جاوید ہاشمی ، فریدالدین صادق ، یوسف روش ہیں۔ ان کے علاوہ اور شعراء ہوں گے ، مجھے ان کے اسمائے گرامی معلوم نہیں۔ شوق کے کچھ منتخب اشعار کی بہاریں دیکھتے چلیں
جسپر بھی تیری چشم مروت ٹھہر گئی
اس بد نصیب شخص کی قسمت سنور گئی
اتنے برس تو گزرے یوں ہی ہنسی خوشی میں
افتاد آ پٖڑی ہے اکیسویں صدی میں
کتنے ہی تجربوں سے گزرا سخن ہمارا
اک شہر آرزو ہے اردو کی شاعری میں
ہم بھلا کس سے ملاقات کی خواہش کرتے
اپنے ہی شہر میں ہر شخص تھا تنہا تنہا
بہار بے خزاں ہے عید کا دن
گلوں کا کارواں ہے عید کا دن
مسرت رقص فرما ہر طرف ہے
ادھر ادھر کی لسانی لغزشوں کے ماسوا شوق کا شعری مجموعہ متاع شوق لائق مطالعہ ہے۔ متاع شوق میں سلیس غزلیں ، نظمیں ، قطعات ، نعتیں اور سلام موجود ہیں۔ شوق ریاست تلنگانہ کے منفرد لب و لہجہ کے شاعر ہیں۔ ان کی شاعری کا کینوس بڑا ہے ۔ ان کے شعروں میں ہمہ گیریت پائی جاتی ہے ۔ ان کی شاعرانہ عظمتیں اور بلندیاں مسلمہ ہیں۔ ان کی شاعری میں معنی و مفہوم کی تہہ داریاں ہیں۔ شوق کا ماضی ، امروز اور فرداً تایاں ہے۔ متاع شوق کی اشاعت پر دلی مبارکباد دیتا ہوں۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ ۔