ڈاکٹر فاروق شکیل ’’کل ہم نہ ہوں گے‘‘ جمیلِ سخن

جمیل نظام آبادی
اجمالی تعارف :
نام : محمد عبدالباری، قلمی نام : جمیلؔ نظام آبادی، پیدائش : یکم جنوری 1949 ء ، تعلیم : ایم اے ، کتابیں : ’’سلگتے خواب‘‘ ، ’’تجدید آرزو‘‘،’’صبر جمیل‘‘، ’’دل کی زمین‘‘ ، ’’سب سخن میرے‘‘ (مجموعہ ہائے کلام) ، ’’حرفِ سخن‘‘ (نعتِ مجموعہ) ، ’’ذکر جمیل‘‘ (نثری مضامین) ، ’’حرف جمیل‘‘ (نثری مضامین) ،’’افسانے ہزاروں میں‘‘ (افسانوں کا مجموعہ) ، ’’گونج ادبی البم‘‘ (ریاست کے 155 قلمکاروں کی تصاویر و تعارف)
سرزمین نظام آباد کا جب بھی ذکر ہوتا ہے ، ذہن میں فوری جمیلؔ نظام آبادی کا چہرہ ابھر آتا ہے ۔ جمیل نظام آبادی نہ صرف مخلص اور اچھے شاعر ہیں بلکہ صحافت میں بھی اپنی شناخت بناچکے ہیں۔ تقریباً نصف صدی سے ’’گونج‘‘ (رسالہ) پابندی سے شائع کر رہے ہیں جو خالص ادبی رسالہ ہے جس میں تمام مشاہیر شعراء و ادیب کی تخلیقات شائعہوتی آرہی ہیں ، اس کے علاوہ ’’گونج پبلکیشنز کے زیر اہتمام ایک سو سے زائد شعراء اور ادباء کی کتابیں بھی شائع کی ہیں۔ انہوں نے اردو اکیڈیمی نظام آباد سنٹر کے مینجر کی حیثیت سے بھی 38 سال تک خدمات انجام دی ہیں۔ برسوں سے شعر و ادب کی خدمت کرتے آرہے ہیں۔
جمیل نظام آبادی کی شاعری میں حقیقت نگاری ہے ۔ ان کے لہجے اور لفظیات پر کلاسیکیت کا گہرا اثر ہے لیکن اس کے باو جود وہ معنی کی نئی جہتیں دریافت کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے خدمات ، احساسات اور تجربات کو خوش آہنگی کے ساتھ

شعری جامہ پہنایا ہے۔
منتخب اشعار :
تو نے میرے ہاتھ میں پتھر تھمایا تھا مگر
میں نے اس کو کردیا ہے آئینہ ائے زندگی
بھنور کی مجھکو ڈبوتے اچھالنے کی ضد
مری سفینہ سلامت نکالنے کی ضد
پھول سے خوشبو سے رنگ و نور سے مہتاب سے
میری کس کس سے شناسائی ہے کس کو کیا پتہ
میں اپنے آپ کو پہچاننے سے ڈرتا ہوں
نکل نہ آئے کہیں مجھ میں دوسرا کوئی
حوصلوں کے سامنے تاریکیاں کچھ بھی نہیں
چل پڑوں گا میں تو خود ہی روشنی مل جائے گی
کیا مرا اب یہاں کوئی مصرف نہیں
کیا میں اندھے کے گھر کا دیا ہوگیا
آپ کو پگڑیوں کی پڑی ہے مگر
وقت شاہد ہے سر بھی اچھالے گئے
جانے کیا ٹوٹتا رہتا ہے یہ ہر دم مجھ میں
میرے اندر تو کوئی آئینہ خانہ بھی نہیں
ہوا کرتی ہے اس کا خیرمقدم
جو اُڑنے کیلئے پر تولتا ہے
اب درندے پھر رہے ہیں شہر میں
بے خطر گھر سے کبھی نکلا نہ کر
مرے اندر تو اک دنیا بسی ہے
مرا گھر سائیں سائیں بولتا ہے
کونسی دیوار اب مضبوط ہے
سایۂ دیوار میں بیٹھا نہ کر
اس کے کمرے میں چھوڑ آیا ہوں
اپنے حصہ کی روشنی ساری
لوگ پتھر اٹھائے پھرتے ہیں
اور ہم سر ا ٹھائے پھرتے ہیں
بے بھروسہ ہے بے وفا ہے تو
زندگی تجھ سے پیار مشکل ہے
خود کو دیکھے بنا بہت خوش تھے
آئینہ گھر میں لاکے پچھتائے
اپنے اندر جھانکنے سے اور کچھ ہو کہ نہ ہو
خود کے بارے میں مکمل آگہی مل جائے گی
جانتا ہوں کس کے کتنے چہرے کتنے روپ ہیں
جان کر بھی میں یہاں انجان ہوں خاموش ہوں
غزل
مجبور کبھی کوئی قیادت نہیں ہوتی
ہوتی ہے تو پھر اس سے حکومت نہیں ہوتی
اک سجدۂ اخلاص کی فرصت نہیں ہوتی
اللہ کے بندوں سے عبادت نہیں ہوتی
اعمال پہ جو اپنے ندامت نہیں ہوتی
اس بات کا قائل ہے ہمیشہ سے زمانہ
محنت کبھی دنیا میں اکارت نہیں ہوتی
ہم لوگ وفادار ہیں تاریخ سے پوچھو
ہم وہ ہیں کبھی جن سے بغاوت نہیں ہوتی
دنیا تری الفت میں گرفتار ہے دنیا
اک میں ہوں مجھے تجھ سے محبت نہیں ہوتی
کیا کیا نہ دکھاتے ہیں یہ دنیا کے نظارے
حیرت ہے جمیلؔ آپ کو حیرت نہیں ہوتی