ڈاکٹر فاروق شکیل ’’زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے‘‘

سلیمان اریبؔ
اجمالی تعارف :-
نام : محمد بن سلیمان، قلمی نام : سلیمان اریبؔ ۔ پیدائش 5 اپریل 1922 ء ۔ وفات 8 ستمبر 1970 ء ۔ کتابیں ’’پاس گریباں‘‘ 1961 ء ، ’’کڑوی خوشبو‘‘ 1973 ء
سلیمان اریبؔ ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے۔ انسان کا استحصال کرنے والے سماج کے خلاف بغاوت، انسانی زندگی میں پیش آنے والے دکھ درد اور ناانصافی ان کی شاعری کا موضوع رہے ہیں۔ ’’مجاہد تلنگانہ‘‘ اور ’’انسان نہیں مر سکتا‘‘ ان کی مشہور زمانہ نظمیں ہیں ویسے سلیمان اریب نے نظم اور غزل دونوں اصناف میں اپنے قلم کے جوہر دکھائے۔ سلیمان اریب نہ صرف نمائندہ شاعر تھے بلکہ لاجواب صحافی بھی تھے۔ انھوں نے 1955 ء میں ماہ نامہ ’’صبا‘‘ جاری کیا جو انتہائی معیاری رسالہ تھا جو نہ صرف ہندوستان بلکہ پاکستان میں بھی شوق سے پڑھا جاتا تھا۔ جدید لہجہ کا یہ شاعر جس کی شاعری دکن میں برسوں گونجتی رہی 1970 ء میں پیوندِ خاک ہوگیا۔
منتخب اشعار:
کبھی یہ پاسِ صداقت بھی منہ نہیں کھلتا
بہت عجیب ہے یہ داستانِ جرم و سزا
پھول اک ہاتھ میں لے کر وہ چلے آئے تو کیا
ہم نے پہلو میں جہنم کو دبا رکھا ہے
گر رہا ہوں مسلسل کچھ ایسے عالم میں
حیات دے کے مجھے جیسے کوئی بھول گیا
وہ ایک گوشۂ جنت جسے دکن کہئے
نگارِ شاعرِ بدنام کا وطن بھی ہے
مجھے تو چین سے رہنے دے اے دِل وحشی
کہ دشت بھی ہے ترے سامنے چمن بھی ہے
مجھ کو یہ بتایا ڈوبتے ستاروں نے
تلخ کامئی شب میں لذتِ سحر بھی ہے
وقت آئے تو اٹھا لیتے ہیں تلوار بھی ہم
اب تیرے سایۂ گیسو میں غزل گاتے ہیں
ہے یہ کیسی بہارِ آزادی
ہر کلی چپ ہے پھول حیراں ہے
کہنی پڑی زمیں اسدؔ میں غزل اریب
گو میں فلک پہ کہنے کا قائل نہیں رہا
نظم’’مجاہد تلنگانہ‘‘
نئی بہار کی یہ کون دے رہا ہے نوید
جلو میں کس کے چلا آرہا ہے دورِ سعید
ہیں ہم رکاب یہ کس نور کے مہ و خورشید
محاذ زیست پہ یہ کون ہورہا ہے شہید
سلام تجھ پہ ائے فرزندِ انقلاب سلام
نقیب اِس اے دلبندِ انقلاب سلام
تری کُدال سے لرزاں ہے خواجگی کی اساس
ترے خیال سے ظلِّ الٰہ کے گم ہیں حواس
ترے خیال سے طاری رُخِ شہی پہ ہراس
ترے جمالِ سحر سے شب و راز اُداس
مجاہدانہ یونہی بڑھ کے پھونک دے ایوان
کہ میر و خان سے انسان مانگتا ہے اماں
بہار میں بھی چمن سے سوگوار نہ رہا
کلی کلی کو ترا انتظام تھا نہ رہا
قرار بن کے فریب قرار تھا نہ رہا
یہ شکل مستی و نشہ خمار تھا نہ رہا
جھپٹ کے چہرۂ مکروہ سے نقابِ حسیں
بتادیا ہے یہ تو نے کہ زہر شہد نہیں
یہ لہلہاتی کھیتیاں یہ دشت یہ بن
یہ مرغ زار یہ رمنے یہ گل فروش چمن
یہ کان سیم بداماں یہ زف بکف معدن
یہ ارض حسن ، یہ چاول کی سرزمینِ دکن
زمانہ کل ہی بتادے گا بہت یہ تیرا ہے
اگرچہ آج بھی رستوں پہ کچھ اندھیرا ہے
رباعیات
کونین سے بیگانہ بنادے ساقی
ہر پھول کو پیمانہ بنادے ساقی
میخانے سے باہر نہیں جانا ہے مجھے
دنیا ہی کو میخانہ بنادے ساقی
٭
ہر مرحلہ دہر کو آساں کرلوں
مرنے کے لئے جینے کا ساماں کرلوں
چلتا ہوں مگر چلنے سے پہلے ائے موت
پیمانے کے ہر خط کو رگِ جاں کرلوں
٭
بے دامن و بادیدۂ تر زندہ ہوں
آئینہ بکف خاک بسر زندہ ہوں
مجھ رندِ خرابات کو دیکھ ائے دُنیا
ہر سانس پہ مرتا ہوں مگر زندہ ہوں