ڈاکٹر عقیل ہاشمی کو مجلس چشتیہ کی جانب سے ’’حضرت امیر خسروؒ اکسیلنٹ ایوارڈ

سعید حسین
کل ہند مرکزی مجلس چشتیہ کے صدر مولانا صوفی شاہ محمد مظفر علی ناگوری چشتی ابوالعلائی متولی و جانشین درگاہ حضرت شاہ محمد قاسم المعروف شیخ جی حالی رحمتہ اللہ علیہ نے حیدرآباد کی اس وضعدار ذی علم صوفی منش قابل احترام شخصیت ڈاکٹر عقیل ہاشمی سابق صدر شعبہ اردو عثمانیہ یونیورسٹی کو پانچویں سالانہ عالمی جشن خسروؒ کے موقعہ پر ان کی گراں قدر خدمات کے تناظر میں ’’حضرت امیر خسرواکسیلنٹ ایوارڈ‘‘ 3؍دسمبر کو سالار جنگ میوزیم کے آڈیٹوریم میں ڈپٹی چیف منسٹر محمد محمودعلی صاحب کے ہاتھوں دیا گیا۔
دنیا میں کسی بھی انسان کی شخصیت کے مفہوم کا تعین قدرے دشوار ہے یا پھر کسی بھی لفظ کے معنی کا اظہار بھی مشکل ہوگا اسی طرح کبھی کبھی شخصیت کے دو مفاہیم ایک دوسرے کے ضد نظر آتے ہیں ۔ دراصل شخصیت، انسانی وجود کے اندر اور اس کے ارد گرد ماحول ہی میں جنم لیتی ہے وجود اور شخصیت میں واضح فرق یہ ہے کہ وجود انسانوں کے درمیان قدرے مشترک ہے یعنی ہر آدمی متاع جسم و جان اور اس کی بے شمار صلاحیتوں اور قوتوںکا مالک ہوتا ہے جبکہ شخصیت کی ہمہ ہمی، مختلف جہتوں کے اعتبار سے رنگا رنگی کی دلیل ہے۔ اس تمہیدی کلمات کے بعد ایک ایسی شخصیت کے بارے میں چند ایک باتیں گوش گذار کرنا چاہتا ہوں جو یقینا آپ کی ہماری جانی پہچانی اور دنیائے علم و ادب میں مصروف و مشہور و قابلِ قدر و منزلت ہے۔ میری مرادڈاکٹر عقیل ہاشمی صاحب سے ہے۔اردو اور فارسی کے عالم، مملکت شرافت کے تاجدار کا روان خلو ص کے سالار انتہائی ذہین بزلہ سنج ، سخن شناس، مہمان نواز، یارباش اور دوست پرور۔ آپ کا وجود اردو کا افتخار، زبان کا وقار اور انسانیت کا علمبردار ہے۔میں اپنے ذہن کو مبالغہ سے پاک کرکے ڈنکے کی چوٹ پر یہ دعویٰ کرتا ہوں کہ اگر کوئی شخص معلومات ادب حاصل کرنے کی دھن میں کامل 50 برس تک اس روئے زمین کے تمام کتب خانوں کو کھنگال چکنے کے بعد فقط 50 منٹ کے واسطے ان کی ہم نشینی کی سعادت سے فیضیاب ہوجائے تو اس کو یہ محسوس ہونے لگے گا کہ وہ ایک اسبا اونٹ ہے جو پہاڑ کے نیچے آکر بلبلانا بھول چکا ہے۔ عقیل ہاشمی صاحب آسمان اردو کے بدر اور مملکت اردو کے محسن ذی قدر ہیں۔
اس سے پہلے کہ میں حضرت ڈاکٹر عقیل ہاشمی صاحب کا تعارف پیش کروں۔ ڈاکٹر صاحب کے اوصاف اور کردار اور جسمانی ہیئت سے ملتی جلتی ایک اور شخصیت حضور نظام میر عثمان علی خان کے زمانے میں گذر چکی ہے۔ جن کی مثال برسوں میں ملتی ہے۔ ان کا نام مولوی احمد حسین تھا ان کی دنیوی حیثیت تو بس اس قدر تھی کہ وہ سرکار نظام میں تیس روپئے ماہانہ کے ایک معمولی کلرک تھے، لیکن ان کی انسانی حیثیت اس قدر ارفع و اعلیٰ تھی کہ جب وہ کائنات کے اسرار و حقائق پر روشنی ڈالتے تو ان کی بوسیدہ چٹائی پر بیٹھ کر تخت طاؤس نگاہوں سے گذر جاتی۔ جوش ملیح آبادی اپنی مشہور کتاب ’’یادوں کی بارات‘‘ میں حضرت مولوی احمد حسین صاحب کے تعلق سے یوں رقم طراز ہیں…
ڈاکٹر عقیل ہاشمی 1982ء میں شعبہ ٔ اردو عثمانیہ یونیورسٹی میں لکچرر مقرر ہوئے۔ 1987ء میں ریڈر اسوسی ایٹ پروفیسر ہوئے 1995ء تا 1997ء چیئرمین بورڈ آف اسٹیڈیز اور 1998ء تا 2000ء صدر شعبہ اردو عثمانیہ یونیورسٹی رہے۔ ڈاکٹر صاحب کچھ عرصہ کے لئے ادارہ ٔ ادبیات اردو حیدرآباد کے شعبہ ٔ امتحانات کے بھی معتمد رہے۔ اس کے علاوہ چند ایک ماہناموں جیسے ذوق نظر، پیکر خوشبو، رسالہ صوفی اعظم کی مجلس مشاورت میں شریک ہیں۔
ڈاکٹر عقیل ہاشمی کی نظم و نثر میں اب تک 30 کتابیں شائع ہوچکی ہیں انہوں نے مختلف موضوعات پر تقریباً چار سو سے زاید مضامین ہندوستان کے مشہور اخبارات، پندرہ روز، ہفتہ وار ، رسائل، ڈئجسٹوں، ماہناموں جیسے اخبار سیاست، منصف، اعتماد، برگ آوارہ، تعمیر حیات، لکھنو، آندھرا پردیش ، ھدیٰ، بانو، سب رس تحریر کئے۔ تنقید و تبصروں کی صورت سے قریب (دو سو) کتابوں پر مقدمے، تاثرات کا اظہار کرچکے ہیں جبکہ ہندوستان کی مختلف جامعات کے علاوہ دیگر اداروں، انجمنوں کے تحت ہونے والے سیمیناروںمیں مقالات پیش کئے۔ ان مضامین اور مقالات کو ان کی ایک عزیز شاگرد ڈاکٹر ہاجرہ کوثرؔ نے چار مختلف مضامین کے تحت کتابی صورت سے شائع کیا۔ جن کی خوب پذیرائی ہوئی۔ یہ ایک طرح کوشش ڈاکٹر ہاجرہ کوثر کی اپنے استاد سے عقیدت کا اظہار ہے ۔ ڈاکٹر عقیل ہاشمی اعلیٰ استعداد کے حامل شاعر و صاحب قلم ہیں۔ شاعری میں نظم، غزل، مثنوی، رباعی، قطعہ، مثلث، مخمس، مسدس، ترجیع بند ترکیب اور تضمینات کے ساتھ ساتھ حمد، نعت، منقبت و سلام میں طبع آزمائی کی قدیم خیالات سے خود کو مربوط کرتے ہوئے جدید رحجانات سے آگاہ و باخبر ہیں۔ اسی طرح آپ کی تحریروں میں قدیم اور جدید خیالات کا حسین امتزاج مضبوط و مستحکم اسلوب نظر آتا ہے وہ رجعت پسندی کو خوش عقیدیگی سے بدلنے کا ہنر جانتے ہیں۔ تصوف سے فطری دلچسپی کے ناطے علمی معلومات مذہبی معیارات اعتقادات کا ایک خوبصورت ایمان افروز سلیقہ و قرینہ آپ کی پہچان ہے کوئی چار نعتیہ مجموعے کے یہ شاعر نئی نسل کے ایک نمائندہ تاریخ گو شاعر کی حیثیت سے بھی اپنا الگ مقام رکھتے ہیں وہ ہر مکتب خیال اصحاب میں مقبول جبکہ مذہبی ادبی تہذیبی تعلیمی حلقوں اداروں انجمنوں میں معروف غیر نزاعی شخصیت ہیں۔
ڈاکٹر عقیل ہاشمی کی کم و بیش ساری کتابوں پر اتر پردیش آندھرا پردیش، بہار اور تلنگانہ اردو اکیڈمیوں سے انعامات مل چکے ہیں۔ آپ کی علمی ادبی خدمات کے اعتراف میں عالمی سوسائٹی اشاعت تعلیمات و اولیائے اسلام حیدرآباد کی جانب سے 1991ء میں ’’دبیر ملت‘‘ کا خطاب دیا گیا۔ 1997ء میں آل انڈیا میر اکیڈیمی لکھنو نے ’’امتیاز میر ایوارڈ‘‘ سے نوازا۔ غالب کلچرل اکیڈیمی بنگلور نے 2000ء میں ’’غالب ایوارڈ‘‘ پیش کیا۔ 2000ء میں آندھرا پردیش اور اکیڈیمی نے ’’بیسٹ ٹیچر‘‘ کا اعزاز بخشا۔ مزید 2000ء میں مجموعی خدمات کے صلہ میں انعام و توصیف نامہ سے قدر افزائی کی اس کے علاوہ 2013ء میں بزم علم و ادب کی طرف سے بابائے اردو مولوی عبدالحق ایوارڈ دیا گیا اور نعت گوئی کے سلسلہ میں زیرک شرقی ایوارڈ 2012ء میں بزم اتحاد جدہ نے بھی تہنیت پیش کی۔ ڈاکٹر عقیل ہاشمی آل انڈیا ریڈیو اور ٹی وی دور درشن کے بھی مقبول فنکار رہے ہیں کوئی نصف صدی سے زائد عرصہ سے وہ ان دونوں میڈیا سے وابستہ ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ای ٹی وی (ETv) اردو چیانل کے اینکر اور خصوصی پروگرام ’’انوار سحر‘‘ کے لئے موصو ف کی خدمات کو قومی سطح پر سراہا گیا ۔ اردو اکیڈیمی آندھرا پردیش اور ETv کے تعاون و اشتراک سے مقبول پروگرام ’’آؤ اردو سیکھیں‘‘ کے وہ کنوینر رہے۔ ڈاکٹر صاحب کے زیر نگرانی کوئی (۱۰) ایم فل اسکالرز نے ڈگریاں حاصل کی اور (۶) اسکالرز نے پی ایچ ڈی کی تکمیل کی ڈاکٹر عقیل ہاشمی آج بھی کئی اداروں انجمنوں علمی ادبی نیز تعلیمی و تہذیبی سوسائٹیوں سے وابستہ ہیں۔ ہنوز عثمانیہ یونیورسٹی، بابا صاحب امبیڈکر یونیورسٹی، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے ارباب حل و عقد درس و تدریس مسائل کے سلسلے میں آپ سے مشاورت کرتے ہیں۔